دوسری قسط
مضمون نگار: آبیناز جان علی
موریشس
۳ موریشس میں سات دن
پروفیسر اعجاز علی ارشد
پٹنہ ہندوستان
۱۲ صفحات پر مشتمل اس سفر نامے میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کم الفاظ میں کئی خیالات کو رقم کئے گئے ہیں۔
’موریشس کی تیسری عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے جب ہم نے ایر انڈیا اور ایر موریشس کی فلائٹ میں تقریباً ساڑھے چھ گھنٹے سفر کرنے کے بعد ۲۵ نومبر ۲۰۱۵ئ کو سر رام غلام انٹرنیشنل ایرپورٹ پر قدم رکھا تو سب سے پہلے تازہ اور خوشگوار ہوا کے جھونکوں نے ہمارا خیر مقدم کیا اور چند ہی منٹوں کے اندر اتنی آکسیجن ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہوگئی جتنی دہلی میں چند دنوں کے اندر بھی میسر نہیں آتی۔‘ (191)
اس سفرنامے میں صاف زبان استعمال ہوا اور واقعات کو ترتیب وار بیان کیا گیا جس سے وارداتیں ایک ایک کر کے نظروں کے سامنے گھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ خونصورت فقروں سے پڑھنے میںلطف پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر ’خوشگوار حیرانی کے حصار سے قدم باہر نکالنا۔‘ صفتوں کا برجستہ استعمال ہوا ہے:
’ساحل سمندر کا نظارہ دل افروز بھی تھا اور حیا سوز بھی۔۔۔ چمکتی تیز دھوپ ہر طرف بکھری ہوئی تھی اور فرحت بخش ہوا کے جھونکے تواتر کے ساتھ موسم کو خوشگوار بنا رہے تھے۔‘ (195)
پروفیسر اعجاز علی ارشد کہیں لفظوں سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔الفاظ کو بڑی خوبصورتی سے جملوں میں پروئے گئے ہیں۔ اردواسپیکنگ یونین کے دفترکے بارے میں رقم طراز ہیں:
’باہری طرزِ تعمیر کے اعتبار سے قدیم فرانسیسی یا پرانی ہندوستانی فلموں کے بنگلوں کی یا دلاتا ہے، لیکن جہاں درونِ خانہ اردو تہذیب اپنی تمامتر حرارت اور توانائی کے ساتھ ماڈرن سہولتوں سے ہم آغوش ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔‘ (199)
جملوں کی ساخت قاری کے ذہن کو چیلنج کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے۔
’کئی گھنٹوں سے ہو رہی بارش کے باوجود سڑک پر کہیں پانی کا جمائو نہیں تھا البتہ ہمارے میزبانوں کی آنکھوں میں آنسو موجود تھے۔‘ (199)
ایسے جملوں سے فکر کے کئی دریچے کھلتے ہیں اور قاری کو رکنے اور غور وخوص کی دعوت ملتی ہے۔
اشعار اور مصرعوں کی مدد سے وہ اپنی بات کو طول دیتے ہیں۔
آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا
(200)
نیز جگہ جگہ انگریزی زبان کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ Lover’s point, sea food, bread and butter اور Source of inspiration جیسے الفاظ تحریر میں دیکھنے کو ملے۔ متنوع ذخیرئہ الفاط سے کلام کو زیب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بھکاری کے لئے ’دست گدائی، سوالی، اور دست طلب دراز کرنے والا‘ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کی شیرینیت سے ذہن کو ایک تسکین سی حاصل ہوتی ہے۔
اردو اسپیکنگ یونین کے صدر جناب شہزاد عبد اللہ احمد پر یہ چار مصرعے لکھ کر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اپنی ادبی لیاقت کا ثبوت دیا ہے۔
وہ جس کا نام ہے شہزاد اور نسبت ہے عبداللہ
وہ موریشس کی وادی میں عجب خادم ہے اردو کا
ہیں اس کے ساتھ جو احباب سب پھولوں کی صورت ہیں
خود اس کی ذات اک گلشن بھی ہے محور بھی خوشبو کا
زبان کے علاوہ اس سفرنامے کا دوسرا اہم پہلو اردو کا عالمی رشتہ ہے۔ ان کا سفرنامہ موریشس میں رائج اردو سے جذباتی اور ثقافتی وراثت کو اجاگر کرتا ہے۔
’زبان کا رشتہ بیحد مضبوط رشتہ ہوتا ہے ورنہ ایک دوسرے سے ہزاروں میل کی دوری پر رہنے والے چند منٹوں میں اس طرح گھل مل نہیں جاتے۔‘ (191)
موریشس میں اردو روزی روٹی کا وسیلہ ہے۔ غیر ممالک میں آباد رشتہ داروںیا دوستوں سے رابطہ کا ذریعہ ہے۔ یہاں لوگوں کا اردو کی طرف جذباتی وابستگی ہے اور ان کی تہذیبی وراثت بھی۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد یہاں کے لوگوں کی خوش اخلاقی اور مقامی لوگوں کی بے لوث خدمت کے جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
کانفرنس کی روداد رپورٹ کے رنگ میں درج ہوا ہے۔ رات کو محفلِ مشاعرہ کی پزیرائی ہوئی جس میں حمد، نعت، گیت، دوہے اور ماہیے سنائے گئے۔ معروف پاکستانی گلوکار جناب عدیل خان برکی کی محفلِ غزل سرائی اور محفلِ قوالی کا بھی ذکر ہوا۔
سفرنامے کے معلوماتی پہلو بھی ہیں۔ اس میں جمعہ کی نماز کا تجربہ شامل ہے جہاں خطبہ کو عربی، انگریزی، کچھ اردو اور مقامی زبان میں پڑھا گیا۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتوں کو الگ الگ رکھنے کی تاکید دی گئی تاکہ چوری نہ ہوں۔ اس کے علاوہ گنگا تلائو میں دیگر دیوی دیوتائوں کے ساتھ مہادیو کی مورتی کا ذکر کر کے وہ موریشس کی گنگا جمنی تہذیب پر قاری کو اپنا نتیجہ اخذ کرنے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ قدرت سے متاثر ہوئے اور خوشی سے سمندر اور الیکزاندرا فال ویو پوائنٹ اور قومی پارک جیسے اہم مقامات کا ذکر کرتے ہیں۔
موسم کی تندیلی کا فرق وہ یوں بیان کرتے ہیں: ’آم، امرود اور لیچی کے درخت دکھائی دئے جو نومبر کے اواخر میں بھی پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔‘ (195)
نیز وہ عمارتوں کی تاریخ اور طرزِ تعمیر پر خاص دھیان دیتے ہیں۔ انہوں نے اگست ۱۹۸۷ئ میں تیار شدہ اسلامک کلچرل سینٹر کا ذکر کیا اور اردو سپیکنگ یونین کی تعمیر کی بھی بات کی۔ ۱۸۴۷ئ میں پیر جمال شاہ کے مزار کا بھی ذکر آیا ہے۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد نے یونیورسٹی میں نظامِ تعلیم اور یہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کا بھی جائزہ لیا۔ مہاتما گاندھی میوزیم میں محفوظ اسلاف کی تصویریں، قدیم زمانے کے برتنوں، اوزاروں اور ہتھیاروں کی طرف اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
شوخئی تحریر کلام کو روانی بخشنے کے ساتھ ساتھ قاری کو ہنسنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس طرح مصنف کی شخصیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ Lover’s point کے بارے میں فرماتے ہیں:
’ویسے ہمیں تو سیدھی چڑھائی کے بعد پھولتی ہوئی سانسوں اور تین طرف سمندروں کی موجوں کے سبب یہاں محبت سے زیادہ خودکشی کے امکانات نظر آئے۔ یہ دوسری بات ہے کہ عہدِ گذشتہ میںمحبت کا انجام بھی عام طور پر یہی ہوتا تھا۔‘(196)
سفرنامے میں پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اپنے خیالات اور افکار کو شامل کئے۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے وہ تفکرات کی دنیا میں محو نظر آتے ہیں۔
’ہم۔۔۔ پورٹ لویئس کے ساحلوں کی طرف چلے گئے جہاں قدیم طرز کی عمارتوں اور تھوڑی بہت بوسیدگی یا معاشی بدحالی نے ہمیں یاد دلایا کہ علاقے جب پرانے ہو جائیں تو کیسے ہوجاتے ہیں۔‘ (198)
انسانی ذہن نئے ماحول میں بھی اپنا پن تلاش کرتا ہے۔ چنانچہ چائنا بازار کا تقابلی جائزہ ہندوستان کے پرانے شہروں سے کی گئی ہے جیسے پٹنہ کے سبزی باغ اور دہلی کے شاہین باغ سے۔ لیکن موریشس کی صفائی سے حددرجہ متاثر ہوتے ہیں۔
اس طرح سفرنامے میں حقیقت نگاری کی جھلک نظر آتی ہے۔
موریشس کے وزرائ، ممبرانِ پالیامنٹ، وزیرِ اعظم اور صدرِ جمہوریہ کو عوامی کہا گیا ہے کیونکہ وہ کم سیکیورٹی کے ساتھ چلتے ہیں اور اس بات پر حیرت و استعجاب دکھایا گیا کہ یہاں کے سابق وزیر،ممبرانِ پارلیامنٹ اور ڈپٹی وزیر اعظم دائس پر نہیں بلکہ جلسے کی مختلف صفحوں میں موجود تھے۔
نوجوان نسل کی ملبوسات پر وہ ثقافتی تصادم سے دوچار ہوتے ہیں۔ ’ا بو ظہبی اور دوبئی کے سفر کے دوران جمیرہ کے ساحل پر جو منظر دیکھا تھا وہ یہاں کچھ زیادہ ہی عریاں نظر آیا۔‘195) (
خواتین کو مردوں کے ساتھ تیرنا اور ساحل پر فطری لباس پر آرام فرماتے ہوئے دیکھ کر ’ہمت کہاں کہ دید کا احساس اٹھائیے‘ کا مصرعہ پڑھنے کے بعد وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
سفرنامہ یک طرفہ نہیں ہے۔ جو چیزیں انہیں پسند نہیں آئیں انہوں نے اس کے بارے میں بھی قلم اٹھانے کی جسارت کی۔
’ اس ساحلِ سمندر پر وہ شفافیت اور صفائی نظر نہیں آئی جو دوسرے ساحلوں پر تھی۔‘ (198)
غرض کہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے پروفیسر اعجاز علی ارشد اپنی بات کہتے جاتے ہیں۔
’حال کا جو حال ہے وہ سبھوں کو معلوم ہے۔ بہرحال یہاں سڑک کے کنارے رہائشی ہوٹل اور ریستوران بھی دکھائی دئے۔‘ (196)
ایسی صورت میں ان کی زبان پر دسترس کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی شخصیت کو بھی سفرنامے میں جگہ مل پائی۔
۴ موریشس میں اردو
پروفیسر علی احمد فاطمی
الہ آباد یونیورسٹی اترپردیس
۵۲ صفحات پر مشتمل محبت وجذبہ اور طنز و مزاح سے لبریز اس طویل ترین سفرنامے کو پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں موریشس سے ہندوستان آئی ہوں۔ اس سفرنامے سے کئی رموز سامنے آئے ہیں۔
اول الذکر پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی شخصیت کے کئی پہلو اس سفرنامے میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ سفرنامے کا آغاز پروفیسر تحسین فراقی کے سفرنامے کی طرح پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی فون پر بات چیت کو مکالمہ کی شکل دی گئی جس سے رفتہ رفتہ کانفرنس کی تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات چیت سے رفاقت، دوستوں کی چھیڑ چھاڑ اور شکایتیں سامنے آتی ہیں۔ مصنف پروفیسر اکرام الدین کی قیادت کے قائل نظر آتے ہیں۔’ غیر معمولی مصروف اور پریشان خواجہ اکرام کے بلند حوصلہ، نیٹ ورک، ملنسار شخصیت اور قول کا پاس رکھنے والی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
’۔۔۔لیکن خواجہ اکرام کب نچلا بیٹھنے والے تھے۔ انہوں نے اس وعدہ کو گرفت میں لے لیااور خواب کو حقیقت میں بدل دیا اور میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھی پورا کیا اور اب ہم خوشی خوشی ماریشس جانے کو تیار تھے۔‘ (205)
سفرنامے میں پروفیسر اکرام الدین کی مہمان نوازی، منصوبہ بندی اور خندہ پیشانی کی نشان دہی کی گئی ہے جو لفٹ کے اندر بند ہونے جیسے واقعات سے سامنے آتے ہیں۔ نیز اپنے ملک سے باہر رہتے وقت انسان کی شخصیت کے نئے پہلو رونما ہوتے ہیں۔ اس طرح پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر خواجہ اکرام الدین کو فوٹو کھینچتے ہوئے دیکھ کر متحیر ہوتے ہیں۔ کسی دوسری جگہ رقم طراز ہیں:
’خواکہ اکرام بے حد مقبول ہیں۔ اپنی محبت، محنت اور فصاحت کے ذریعہ۔ خدا ان کو سلامت رکھے۔‘ (211)
ثانی الذکر پروفیسر علی احمد فاطمی شروع سے اپنے جذبات و احساسات اور مشاہدات وتجربات کو شامل کرتے ہوئے قاری کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے سفرناموں کے مقابلے اعداد و شمارے کم شامل کئے گئے ہیں لیکن واقعات کی پوری تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ آسان لفظوں کی مدد سے قاری کو گرم سفر رکھا گیا ہے۔ اس طرح روانی اور سلاست سے پڑھنے کا لطف شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ان کی نظر جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی جہاز میں پوٹلی اور بھیگے رومال کی تقسیم۔ اس اثنا میں مصنف کا تجسس قاری میں منتقل ہو تاجاتا ہے۔ ہر پیرایہ قاری کے ذہن میں ایک نیا سوال اور نیا اضطراب پیدا کرتا ہے۔ سادہ اور عام فہم اسلوب نہایت موثر ہے اور اسی طرح قاری کو معلومات فراہم کرتے جاتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
’موسم نہایت خوشگوار اور معتدل۔ فیاض ہمیں بتاتے رہے کہ یہاں موسم ہمیشہ اچھا رہتا ہے۔ یہاں سب لوگ اچھے ہیں۔ اپنے جیسے ہیں۔ آپ لوگ بھی اپنے آپ کو مہمان نہ سمجھیے گا۔ یہ ماریشس بھی ایک چھوٹا ہندوستان ہے۔ یہ آپ ہی کا ملک ہے۔ ہمارے اجداد آپ کے ہی ملک سے آئے ہیں۔‘ (207)
غرض کہ باتوں باتوں میں موریشس کی تاریخ و جغرافیہ، رسوم و رواج، اخلاق و عادات اور یہاں تک مقامی لوگوں کی رنگت بھی بتاتے ہیں۔ کہیں چھوٹے فقروں کا استعمال تو کہیں مرکب جملوں کی مدد سے کئی خیالات قلم بند ہوئے ہیں۔
’صاف ستھرا دمکتا ہوا راستہ پھولوں کی خوشبو سے معطر اور ہندوستانی تعمیر کے اندازمیں چھوٹے چھوٹے جھونپڑی نما گھر جو دور سے گڑیا گڈے کے گھر لگ رہے تھے۔‘ (208)
الفاظ کی تراکیب سے پرکیف تجربے ہوئے ہیں جو چونکا کر دعوتِ تدبر دیتے ہیں۔
’ایک عجب فضا چہکتی ہوئی شب نیز اور دمکتی ہوئی ماریشس کی دوپہر اور فیاض کا سانولا چہرہ دھوپ میں سائے کی مانند ابھر جاتا۔‘ (208)
اس سفرنامے میں مسافر کی تمام ضروریات کو پیش کیا گیا ہے جیسے کرنسی تندیل کرنا۔
’پانچ ہزار ہندوستانی روپے دئے گئے محض دو ہزار موریشس روپے ملے۔‘ (208)
جگہ جگہ سفرنامے میں پروفیسر علی احمد فاطمی اپنی فکر کی بلندی سے قاری کو نوازتے رہتے ہیں۔
’ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ اردو ادب عالمی سطح پر مقبول ہو رہی ہے اور اس بات کی تشویش بھی کہ خود اردو اپنے وطن میں مقبول تو ہو ہی رہی ہے لیکن اس کی جڑیں روز بروز کمزور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں۔ کوں ہے اس کا ذمہ دار۔۔۔‘(208-209)
پروفیسر علی احمد فاطمی کی شوخ مزاجی سے ہنسی چھوٹ پڑتی ہے۔ مثال:
’خیریت دریافت کر رہے تھے حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ہماری ان کی بیویاں ہماری غیر موجودگی میں زیادہ خیریت سے رہتی ہیں اور خوش رہتی ہیں۔‘ (209)
موزوں و مناسب صفتوں کے برجستہ استعمال جیسے ’قہر آلود نگاہیں اور تشبیہات و استعارات کی مدد سے وہ قاری کے ذہن میں کامیابی سے اپنی بات بٹھاتے ہیں۔
’ہم ہندوستانی اور پاکستانی بھی بھیڑ اور شور کے اس قدر عادی ہیں کہ پرسکون اور ویران سڑک ہمیں بیوہ کی مانگ کی طرح لگی جس میں کوئی چمک دمک نہیں ہوتی۔‘ (209)
تقابلی جائزے سے خاندانی اور سماجی برائیوں کی مذمت کی گئی ہے جس سے طنز کی چابکدستی پائی جاتی ہے۔
’نچلا متوسط طبقہ کے اکثر گھر ایسے ہیں جن کے سارے افراد بہ یک وقت ایک ساتھ گھر میں سما نہیں سکتے۔ اس لئے باہر رہنا اور محلے کے چائے خانوں کو آباد کرنا ہمارا قومی و ملی شعار بن چکا ہے۔‘ (210)
کہیں کہیں اپنے کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کی عمدہ مثال فراہم کرتے ہیں۔
’۔۔۔ہم پروفیسر ہیں اور اب تو سینئر پروفیسر اس لئے ہماری غیبتوں میں بھی سینئرٹی اور بالیدگی پائی جاتی ہے۔‘(212)
اس طرح پورا سفرنامہ پروفیسر علی احمد فاطمی کے اندر کے نقاد اور سیاح کے بیچ جھولتا ہوا معلوم پڑتا ہے۔ ان کا ذاتی مشاہدہ سفرنامے کو ایک الگ رخ کی طرف لے جاتا ہے۔ کسی کی اردو کو ’ ٹوٹی پھوٹی‘ کہنے سے نہیں گھبراتے۔ وہ قاری کو بات بات پر ہنساتے ہیں اور پڑھنے کا لطف بڑھتا جاتا ہے۔
’اپنی اور اپنے ملک کی تعریف کسے پسند نہیں۔‘ (215)
ہنسانے کے بعد پھر سنجیدگی کی طرف قاری کو لاتے ہیں۔ اس سے ان کی تخلیقی قیادت سامنے آتی ہے۔ بیچ میں قاری کو ذاتی آراء سے نوازتے جاتے ہیں۔
’ہندوستانی مشاعروں میں تو اکثر تالیاں اس وقت زیادہ وقت بجتی ہیں جب شعر کم سمجھ میں آتا ہے اور جب سمجھ میں آتا تو تالیاں کمزور پڑجاتی ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جب دماغ حرکت کرتا ہے تو ہاتھ پیڑکی حرکت از خود کم ہوجاتی ہے اور ہاتھوں کی زحمت اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب دماغ کے پٹ بند رہتے ہیں۔‘ (215-216)
نیز اشعار کو شامل کر کے تحریر میں شیرینیت پیدا کی گئی ہے۔
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
سفرنامے میں اردو کو بطور محبت کی زبان پیش کی گئی ہے۔ اردو ایک تہذیب سے وابستہ ہے جس کو مندوبین اپنے ساتھ ہندستان سے لائے تھے۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں مقررین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اردو محبت کی زبان ہے۔ اس پر بھی پروفیسر علی احمد فاطمی اپنی رائے دینے سے نہیں کتراتے۔
’ہمارا اردو کا مزاج یا ہماری اردو تہذیب ہی کچھ اس رنگ میں ڈھل گئی ہے جو بقول سردار جعفری ہم فریاد کے عادی ہوگئے للکار کے نہیں۔ ہمیں سرگوشی پسند آتی ہے راست گوئی نہیں۔‘ (219)
رات کا مشاعرہ اور دیگر ثقافتی پروگرام کی پوری تفصیلات شامل ہیں۔ پروفیسر علی احمد فاطمی کے مطابق عالمی معیار کی پوری پاسبانی کی گئی ۔ غزل گائیکی کے پروگرام کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں۔
’عجب منظر ابھرا۔ ادھر برکی صاحب بھی اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے ایک ہاتھ میں مائک تھا اور دوسرا ہاتھ تھرک رہا تھا اور ان کی انگلی کے اشارے پر پورا ہال تھرک اٹھا۔‘ (231)
کانفرنس کے مقالات میں ڈاکٹر ریاض گوکھل کے مقالہ کی پوری روداد پیش کی گئی جس میں مرحلہ در مرحلہ اردو زبان کا ارتقاء درج ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی اور مصر میں اردو کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سفرنامے میں موریشس کی خوبصورتی کو بحسن و خوبی پیش کیا گیا ہے۔
’ماریشس نے بار بار ہمیں حیران کیا ہے۔ دور تک گنے کے لہلہاتے کھیتوں نے چمچماتی لیچی کے درختوں، ہرے اور سرخ آم کے پیڑوں نے، کاغذ کے درختوں نے، پہاڑوں نے، وادیوں نے، ان سب کے درمیان بل کھاتی ہوئی ناگن کی طرح سڑکوں نے آبشاروں نے، مرغ زاروں نے اور سب سے بڑھ کر یہاں کے رہنے والوں نے۔‘ (239)
پروفیسر علی احمد فاطمی کا سفرنامہ ادبی معلومات سے لبریزہے۔ فراہم کی گئی تفصیلات میں اردو زبان کی عظمت کو کامیابی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اس زبان کی ترقی و ترویج میں مسائل، رکاوٹوںکے علاوہ امکانات بھی سامنے آئے۔ تمام تر تفصیلات سے موزون و مناسب جذبات کی عکاسی کے ساتھ ۲۰۱۵ئ کے عالمی کانفرنس کا پوراسما آنکھوں کے سامنے نشر ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
’اردو کا عالمی تناظر‘ میںشامل چاروں سفرنامے حالانکہ ایک ہی کانفرنس پر محیط ہیںپھر بھی پروفیسر خواجہ اکرام الدین، پروفیسر تحسین فراقی، پروفیسر اعجاز علی ارشد اور پروفیسر علی احمد فاطمی اپنے اپنے ذاویئہ نگاہ سے ان سفرناموں کو منفرد رنگ بخشتے ہیں۔ اس سفرنامے میں ان کی شخصیتوں، جذبات و احساسات کے ساتھ ان کی قوتِ مشاہدہ نے چاروں سفرناموں کو پرکشش بنایا ہے۔
حوالہ
اردو کا عالمی تناظر ،ترتیب و تدوین پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، برائون بک پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۰۷ئ، ص ۱۶۵ ۔۲۵۴