2019: جب وادی کشمیر میں انٹرنیٹ قدغن کا نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا

0
0

ایم افضل

سرینگر؍؍ وادی کشمیر میں سال 2019 میں دنیا کی طویل ترین اور ریکارڈ ساز انٹرنیٹ قدغن کا ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا ہے جس کے باعث یوں تو جملہ شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے لیکن صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو جن متنوع مسائل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا وہ ان کے تصور سے پرے بھی ہیں اور اپنی جگہ فقیدالمثال بھی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے پیش نظر جموں کشمیر اور لداخ میں انٹرنیٹ خدمات معطل کی گئی تھیں اگرچہ لداخ کے ضلع لیہہ میں انٹرنیٹ خدمات کو چند روز کے بعد ہی بحال کیا گیا تھا تاہم کرگل میں جمعہ کو 145 دنوں کے بعد موبائل انٹرنیٹ سروس بھی بحال کی گئی جبکہ جموں میں صرف براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بحال ہیں اور وادی میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سروسز مسلسل معطل ہیں۔وادی کشمیر میں 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات معطل کی گئیں جو ہنوز معطل ہی ہیں اگرچہ یہاں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے بارے میں کئی بار افوائیں بھی گرم ہوئیں اور ارباب اقتدار نے بھی کئی بار براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس مرحلہ وار طریقے سے بحال کرنے کے وعدے بھی کئے لیکن فی الوقت زمینی سطح پر صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی نے جہاں دنیا میں انٹرنیٹ قدغن کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرکے دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن کا اعزاز حاصل کیا وہیں اہلیان وادی کو مشکلات و مسائل کے ایک ایسے اتھاہ بھنور میں دھکیل دیا جس سے باہر آنے کی انہیں کوئی صورت نظر آرہی ہے اور نہ کوئی امید بر آرہی ہے۔کشمیر میں انٹرنیٹ سہولیات پر جاری پابندی سے جملہ شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے لیکن صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کے تصور سے پرے ہی نہیں بلکہ ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی کے پیش نظر اگرچہ انتظامیہ نے صحافیوں کے لئے پہلے سونہ وار سری نگر کے ایک نجی ہوٹل میں میڈیا سینٹر، جس کو بعد ازاں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں منتقل کیا گیا، قائم کیا لیکن وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان روز اول سے ہی رہا۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ سری نگر بھر کے صحافیوں کے لئے میڈیا سینٹر میں صرف دس کمپیوٹر دستیاب ہیں جو نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ انٹرنیٹ کی رفتار بھی اس قدر دھیمی ہوتی ہے کہ صحافیوں کا کام کاج از حد متاثر ہوجاتا ہے۔وادی کے صحافیوں نے انتظامیہ سے میڈیا دفتروں میں کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سہولیت بحال کرنے کی بسیار اپیلیں بھی کیں اور ‘تنگ آمد بہ جنگ آمد’ کے مصداق بر سر احتجاج بھی ہوئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں چلہ کلان کی زمستانی ہواؤں میں بھی ہر روز اپنے دفتروں کے بجائے میڈیا سینٹر پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں اپنی اسٹوریاں اپنے اپنے اداروں تک بھیجنے کے لئے اپنی اپنی بھاریوں کے انتظار میں قطار میں کھڑا رہنا پڑرہا ہے۔وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی نے طلبا کی پریشانیاں مزید دو چند کر دیں، غیر اعلانیہ ہڑتالوں سے تعلیمی سرگرمیاں معطل رہنے سے تو انہیں ناقابل تلافی تعلیمی نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا تھا کہ انٹرنیٹ پابندی سے وہ داخلہ فارم، امتحانی فارم اور اسکالر شپ فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔ذرائع کے مطابق وادی میں جاری انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی متعدد طلبا کو بیرون ریاست کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں حائل ہوئی اور کئی طلبا ایسے بھی ہیں جنہیں امتحانی فارم جمع کرنے میں سخت ترین مشکلات پیش آئے۔وادی کے طلبا اسکالر شپ فارم جمع نہیں کرپارہے ہیں اگرچہ مرکزی وزارت اقلیتی امور نے اسکالر شپ فارم جمع کرنے کی تاریخ میں دوبار توسیع کی لیکن ابھی بھی بے شمار طلبا اسکالر شپ فارم جمع کرنے سے قاصر ہی ہیں علاوہ ازیں وادی کے ریسرچ اسکالر اپنے ریسرچ پیپر تیار نہیں کر پارہے ہیں کیونکہ گوگل تک ان کی رسائی ہی منقطع ہے۔ جو معلومات وہ ایک ہی کلک کرکے گوگل سے حاصل کرتے تھے ان معلومات کو اب وہ کئی کتابوں کی ورق گرادنی کے بعد بھی حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔وادی میں مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف طلبا کو انٹرنیٹ سہولیات کی معطلی اس قدر پریشان کیا ہے کہ بعض وادی بدر ہوکر ملک کی مختلف ریاستوں میں فروکش ہونے پر مجبور ہوئے ہیں اور بعض نے افسر بننے کے خوابوں کو آباد کرنے کے خیالوں کو ہی خیر باد کہہ دیا۔وادی میں جاری انٹرنیٹ قدغن سے تاجروں کو بے تحاشا نقصان سے دوچار ہی نہیں ہونا پڑا بلکہ ای کامرس مکمل طور پر ٹھپ ہوا جس کے باعث اس سے وابستہ بے شمار نوجوانوں کا روزگار بھی ختم ہوا۔انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی سے اہلیان وادی کو جہاں سرکاری دفاتر میں اپنے کاموں کے نپٹارے کے لئے گوناگوں مشکلات درپیش ہیں وہیں انہیں بیرون ریاست سفر کرنے میں بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔سرکاری محکموں میں بھی کئی امور انٹرنیٹ پر منحصر ہے اور انٹرنیٹ کی معطلی سے لوگوں کے کئی اہم کام یوں ہی التوا میں پڑے ہوئے ہیں اور اگروادی کے کسی فرد کو بیرون ریاست سفر کرنا ہے تو ٹکٹ نکالنے کے لئے ایسی مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑرہا ہے جو مصائب سفر سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔وادی میں انٹرنیٹ کی بحالی کے دور میں کسی مریض کو خون کی ضرورت ہوتی تھی تو فیس بک پر پیغام عام ہوتے ہی خون کا عطیہ دینے والوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں لیکن گزشتہ قریب پانچ ماہ کے دوران محتاج مریضوں کو پانی کے ایک ایک بوند کے لئے ترسنا پڑتا ہے خون کی تو بات ہی نہیں ہے۔انٹرنیٹ پابندی نے وادی کے بچوں کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑا جہاں ان کے انٹرنیٹ پر منحصر اسکولی امور متاثر ہوئے وہیں وہ موبائل فونوں وغیرہ پر مختلف النوع تفریحی سامان سے محروم ہوئے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا