غیر مسلم دنیا اور اہل اسلام کی ذمہ داریاں

0
0

 

ابونصر فاروق

8298104514

چونکہ عام طور پر مسلمانوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی بندوبست نہیں ہے اور جو مسلمان کسی نہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے سے وابستہ ہیں اُنہیں بھی دین کی بنیادی باتوں کی نہیں بلکہ مخصوص مذہبی یا گروہی نقطہ نظر کاترجمان بنایا جارہا ہے اور اُنہیں سوال کرنے سے پرہیز کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اس لئے جب ایک مسلمان دین کی باتوں کو جاننا چاہتا ہے تو اُسے بڑی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔مذہبی حلقہ میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ کافر ومشرک لوگ اللہ کے ناپسنددیدہ بندے ہیں، اُن پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوگا، وہ ہمیشہ عذاب میں گرفتار رہیں گے اور آخر کار مرنے کے بعد جہنم میں جاکر جلتے رہیں گے۔یہ ساری باتیں قرآن و احادیث کی روشنی میں درست اور صحیح ہیں۔ اس ذہنیت کے بعد ایک عام انصاف پسند اپنے کسی غیرمسلم پڑوسی،کام کے ساتھی،کاروباری لوگ اور عام غیر مسلم دنیا کے ساتھ کس نیت اور ارادے کے ساتھ معاملہ کرے؟ لاعلمی میں عام طور پر مسلمان دوطرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔یا تو ایمان اور عدم ایمان کے فرق کو سمجھتے ہی نہیں اور مسلم غیر مسلم کی کسی سطح پرکوئی تفریق نہیں کرتے۔مسلم کے جنتی اور غیر مسلم کے دوزخی ہونے کو تعصب اور تنگ نظری تصور کرتے ہیں یاپھر منافقت کا رویہ اپناتے ہیں کہ بظاہر دوستی رکھتے ہیں لیکن دل میں نفرت کا زہر لئے رہتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے لئے میں سماجی سروکار کے اس مسئلے پر دینی نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لئے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئے،اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو،یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ۔(سورہ النساء :آیت ۱) مسلمان اگر قرآن کو معنی اور مفہوم کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہوتے تو سورۂ نساکی یہ آیت اُنہیں بتاتی کہ اللہ تعالیٰ پوری انسانی آبادی کو ایک مرد اور عورت کی اولاد بتارہا ہے۔یعنی یہ سب ایک خاندان کے لوگ ہیں۔جس طرح خاندان بڑا ہوجانے پر اُس کے افراد دنیا کے مختلف شہروں اور ملکوں میں کسب معاش کے لئے چلے جاتے ہیں اور وہیں رہ بس جاتے ہیں ۔ پھر صدیاں بیت جانے پر اُن کی طرز رہائش، تہذیب و تمدن اور طور طریقے بھی ایسے بدل جاتے ہیں کہ قریبی رشتہ دار بھی جب ملیں تو اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔وقت زیادہ طویل ہو جائے اورربط و تعلق کا موقع نہ ہوتو پھر وہ ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں۔ اسی طرح جب زمین پر انسانی آبادی پھیلی تو آدم وحوا کی اولاد زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہو گئی ۔ وہاں اُس کی زبان،تہذیب ، مذہب،زندگی کے طور طریقے اور اخلاق و آداب سب بدل گئے اور وہ الگ الگ قوموںمیں تقسیم ہو گئے۔ لیکن حقیقت میں وہ ایک ہی خاندان کے لوگ اور آپس میں رشتہ دار تھے اور ہیں۔قرآن اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی آدمی ہو وہ تمہارا رشتہ دار ہے اور تمہاری خیر خواہی اور ہمدردی کا حقدار ہے۔انسانی آبادی کے ساتھ محبت ،ہمدردی، تعلق اور خیر خواہی کا اہتمام جتنا ایک قرآن پڑھنے والا اہل ایمان رکھ سکتا ہے، کوئی دوسرا آدمی نہیں رکھ سکتا ہے۔اس آیت کی تفسیر پڑھنے کے بعد ایک مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اُس کا رویہ کیسا ہونا چاہئے۔عام طور پر مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ ہر طرح کا رشتہ و تعلق تو رکھتے ہیں لیکن دعوتی پہلو سے اُن کا رویہ وہ نہیں ہوتا ہے جو ایک اہل ایمان کا ہونا چاہئے۔ لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے۔ (سورہ الحجرات:آیت۱۳) ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر اور برتر سمجھنا انسان کی عادت ہے۔اسی بنیاد پر سماج میں اونچ نیچ کی بنیاد پڑی اور انسانوں نے آپس میں بڑے چھوٹے، امیر غریب،عالم جاہل اور قوم و برادری کی بنیادوں پربرتری اور کمتری کی دیواریں کھڑی کر دیں۔لیکن قرآن کی مذکورہ بالا آیت کا پڑھنے والا ہرگز اس بیماری کا شکار نہیں ہوسکتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ ذات برادری کا فرق اونچے اور نیچے ہونے کا معیار نہیں ہے بلکہ یہ تو شناخت اور پہچان کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ہر طرح کی سماجی اونچ نیچ کام اور پیشے کی بنیاد پر پیدا ہو گئی ہے،لیکن انسان کے بڑے اور چھوٹے ہونے کا معیار یہ سب چیزیں نہیں ہیں۔بڑائی کا معیار تو صرف  یہ ہے کہ انسان اپنے رب کو کتنا جانتا اور پہچانتا ہے،کس قدر اُس کا فرماں بردار ہے اور کس حد تک اُس کا خوف کھاتے ہوئے اُس کے احکام کا فرماں بردار بن کر رہتا ہے۔چنانچہ قرآن پر عمل کرنے والا سماج میں موجود ذات برادری، پیشے اور منصب کی بنیاد پر انسان کی عظمت کا معیار قائم کر ہی نہیں سکتا ہے۔ اس معاملے میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کے ساتھ اُس کا رویہ کیساں ہوگا۔وہ اپنے ضلع کے حاکم کا جتنا احترام کرے گا،گلی میں صفائی کرنے والے کارپوریشن کے ملازم کی بھی اُتنی ہی عزت کرے گا اور دونوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا برتاؤ کرے گا۔لیکن فی الحال مسلمانوں میں یہ رجحان اور رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ،اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہل ایمان ہونے کی ذمہ داریوں کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں : رسول اللہﷺنے فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں پوچھا گیا کون یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا وہ جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(بخاری/مسلم) حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا  جبریل ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے۔ (بخاری/مسلم) حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے، اُنہوں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھرکر کھا لے اور اُس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ (بیہقی)   حضرت عقبہ بن عامر ؓ روایت کرتے ہیں :نبیﷺنے فرمایا: قیامت میں سب سے پہلے جھگڑا پیش کرنے والے دو ہمسائے ہوں گے۔(احمد) رسول اللہﷺدنیا والوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور صراط مستقیم پر چلانے کے لئے تشریف لائے تھے۔اُنہوں نے دنیا میں جینے کا ڈھنگ کیسا ہونا چاہئے یہ اپنی پوری زندگی سے لوگوں کو سکھایا اور بتایا۔بدنصیبی یہ ہے کہ مسلمانوںنے اُن کو دیوتا بنا لیا، جس کی عظمت اور کرامت ے گن تو گائے جاتے ہیں لیکن دیوتا کی پیروی نہیں کی جاتی ہے۔ چنانچہ مسلمان رسول اللہﷺکی عزت اورادب و احترام کی باتیں توبہت کرنے لگے لیکن اُن کی پیروی سے بالکل آزاد ہو گئے۔وہ اگر رسول اللہ ﷺکو فوق البشر بنانے کی جگہ اپنا مرشد کامل، معلم اعلیٰ،محسن اعظم اور مربی فاضل سمجھتے اور اُن کی تعلیمات کی پیروی کرتے تو وہ اوپر نقل کی ہوئی حدیثوں کو پڑھتے اور جانتے کہ یہ حدیثیں بتارہی ہیں کہ ایک آدمی معیاری مومن بن ہی نہیں سکتا ہے اگر وہ اپنے پڑوسی کا خیر خواہ اور اُس کا معاون و مددگار نہ ہو۔ پڑوسی کا مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ پڑوسی مسلم ہو یا غیرمسلم ایک اہل ایمان کے حسن سلوک کا وہ سب سے زیادہ حقدار ہے۔کیا اس حدیث کے مطالعے کے بعد ایک مسلمان اس الجھن میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ اُس کا رویہ کیسا ہو  ؟ غیر مسلم مشاہیر نے مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں کتابوں میں پڑھ کر جب اسلام کو سمجھا تو وہ لوگ اسلام کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہو گئے: ’’میں مذہب اسلام سے محبت کرتا ہوں اور اسلام کے پیغمبر کو دنیا کا مہا پورش سمجھتا ہوں۔ میں قرآن کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی تعلیم کا دل سے مداح ہوں اور اس رنگ کو اسلام کا بہترین رنگ سمجھتا ہوں جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھا‘‘۔ لالہ لاجپت رائے  ’’وہ وقت دور نہیں جب قرآن کریم اپنی مسلمہ صداقتوں اور روحانی کوششوں سے سب کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔‘‘رابندر ناتھ ٹیگور ’’میں نے تعلیمات قرآنی کا مطالعہ کیا ہے، مجھے قرآن کو الہامی کتاب تسلیم کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں ہے۔ مجھے اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ نظر آتی ہے کہ یہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔‘‘ گاندھی جی( بحوالہ ’’دعوت ہندتو نمبر‘‘) مسلمانوں کو آج وطن عزیز میں جس نفرت اور عداوت کی مار جھیلنی پڑ ہی ہے اُس کا سبب یہی ہے کہ اُنہوں نے یہاں کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ اسلام کے داعی اور نمائندے ہونے کی حیثیت سے معاملہ نہیں کیا بلکہ ایک مقابل اور حق کے دعویدار کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا جس کا لازمی نتیجہ نفرت و عداوت ہونا ہی تھا۔جب کہ ہمارے بزرگان دین اس ملک میں پردیسی کی طرح آئے اور اپنی نورانی شخصیتوں سے یہاں کے صنم پرستوں کو توحید ، رسالت اور فکر آخرت کے تصور سے متعارف کرا کے ایمان کی نعمت سے مالامال کر دیا اور آج ہم اُنہیں کی اولاد اپنے وجود اور اپنی بقا کی لڑائی لڑ ہے ہیں۔کاش مسلمانوں نے اپنے بزرگوں کی کرامتوں کو بیان کرنے کی جگہ اُن کے طور طریقے کو اپنایا ہوتا تو اُنہیں کی طرح سروں پر بٹھائے جاتے اور پوجے جاتے۔لیکن یہ آج مارے اور لوٹے جا رہے ہیں۔بدلتے جو نہیں خود کو وہ ناقص ہو کے رہتے ہیں-جو بہتر چیز ہوتی ہے وہی محبوب بنتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا