حالات کے تناظر میں ہماری زمہ داری کیاہے؟ 

0
0
جوں جوں وقت کا تیزوتند سیلاب زمانے کو اپنی لپیٹ میں لیتاہوا رواں دواں ہے- اس سے کئی زیادہ حالات کے تھپیڑے نت نئے انداز سے درپیش ہیں – جن میں بڑی آسانی کے ساتھ ہر ایک انسان دوسرے کو مورد الزام ٹھرا کر خود کو دودھ کا دھلاہواتصور کرتاہے- اور حالات یہاں تک پہونچ چکے ہیں کہ اج کے دور میں ہر بُراکام منجملہ  جھوٹ فریب  تکبر غرور بدکاری  سود خوری رشوت خوری آبروریزی گناہ تصور کرناتو درکنار اسی میں اپنی کامیابی اور عافیت تصور کرتے ہیں- حالات اور عذاب الہی منڈلارہے ہیں- کہیں سیلاب کی صورت میں تو کہیں آگ اور زلزلوں کی صورت میں کہیں بے وقت طوفانی بارشیں تو کہیں آپسی تصادم کہ برمار  کہیں اپنے بوھوڑے والدین کی نافرمانیاں تو کہیں آولاد سے لاپرواہی کہیں سرحدوں پر گن گرج تو کہیں اندرونی حادثات اور مہلک امراض کہیں بین المذاہب تصادم تو کہیں عبادت گاہوں کی بے حرمتیاں سرعام نگاہوں کے سامنے ہیں – اور ہماراحال یہ کہ فجر کی فجر کی نماز نیند کی نزر ظہر وعصر نماز کاروبار اور ملامذمت کی نزر مغرب تھکان کی نزر اور عشاء کی نماز ٹیلیویزن اور یاروں کی گپوں فیس بک واٹس آپ وغیرہ کی نذر اب حالات نہ آئے تو ہوگا -ہم نے اپنے دین سے منہ پھرااور  بُرے حالات ہمارا مقدر بنے -ورنہ دنیاکی کوئی طاقت دین والوں کو زیر نہیں کرسکتی ہے- ہم یہ سب بھول گئے کہ زلزلوں کے وقت بارشوں گن گرج کڑک آسمانی بجلیوں آسمانی اور زمینی آفات سے نمٹنیں کے لئے ہمیں کیا کچھ اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے- یہاں تک کہ ہر روز کئی کئی لاشیں بشمول معصوموں شاہوں بادشاہوں امیروں غریبوں کی دیکھ کر بھی دل بے چہرااداس نہیں – صبح وشام بازاروں میں رونقیں  اور مسجدیں ویران پڑی ہیں – اپنے مذہب کے احکام سے بے خبر ہوکر بھی دوسروں کے مذہب مسلک رنگ نسل کے تصادم کی خاطر صف آرا نظر آتے ہیں -مسلمان ہیں کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں ایک غیر مسلم ہیں کہ مسلمان کہتے ہیں – مسجدوں کی تقسیم کرلی ایک دوسرے کی پیچھے نماز میں امامت منظور نہیں- حالات یہ کہ مسلمان مسلمان سے محفوظ نہیں ہیں- عبادت گاہوں بلخصوص مسجدوں کی بے حرمتیوں کو دیکھ کر دوسروں پر لعن تعن الزام تراشیاں لیکن ان مساجد میں جمعہ جماعت کا اہتمام نہیں پنجگانہ کے لئے مکمل طور اہتمام نہیں مسجدیں ترستی ہیں نمازیوں کو بس اب حال یہ کہ نماز باقی ہے – اکثریت میں کہیں ٹھاٹھ کی کہیں آٹھ کی کہیں تین سو ساٹھ کہیں اور نہیں تو کھاٹ کی جہاں یہ حال ایک اہم فریضہ کی ادائیگی کا ہو- وہاں اپنی خیریت تصور کرنا کسی بھی صورت دانشمندی نہیں ہوگی- اگر دنیامیں مسلمانوں پر حالات ہیں – مصائیب اور الام کے بادل ہر سوں تیزوتند ہواوں کے ساتھ برس رہے ہیں -ہر جگہ ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں – کبھی مسجد کا کبھی طلاق کا کبھی شہریت کاتو کبھی دہشت گردی ملک دشمنی کا بہانہ بناکر صرف اور صرف ہمیں ہی بلّی کا بکرابنایاجارہاہے- اچھی خاصی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی اب مظالم سہہ کر دباو میں ہیں – کچھ بولنے اور کہنے سے ڈر کے مارے خاموشی میں اپنی خیریت تصور کرتے ہیں – جدھر بھی نظر دوڑائی جاے ادھر ہم مسلمان پریشان اور پشیمان ہیں- ان سارے افعال و احوال کو اگر حقیقت کی نگاہوں سے دیکھاجاے تو یہ اور کچھ نہیں ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی اوربداعمالیوں کا نتیجہ ہیں – اور جو اعمال ہوتے بھی ہیں وہ بھی اکثر اوقات نام ونمود کی بھینٹ چڑ جاتے ہیں -مسلمان ہیں کہ ہر بار گروپ بندیوں میں بٹ جاتے ہیں – ہر اعمال کا دارومدار نیت پر ہے- جب نیت میں نام ونمود اور دیکھاوا آگیاتو پھر کئے گئے اعمال بھی غارت ہوجاتے ہیں – پھر ہر طرف سے حالات ٹوٹ پڑتے ہیں – کیوں کہ جس طرح کے عمال اوپر چڑھتے ہیں اسی طرح کے فیصلے بھی اترتے ہیں -اور جب یہ سب حالات درپش آچکے ہیں – تاریخ میں بہت ہی کم ایسے حالات کا کسی کو سامناکرناپڑاہوگا- جو حالات درپیش ہیں -لیکن ان سارے حالات کو مسائیل کے پیش نظر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ان حالات کے سدباب کے لئے کن اسباب کی ضرورت ہے؟ افراتفری لاقانونیت ماحولیات کے عجائیب یامعاملات کا بیگاڑ جنگ وجدال کے وقت ہمیں کیاکرناچاہیے؟ ان تمام تر مسائیل کا حل اگر ہم اپنے طور کرنے کی لاکھ کوشش بھی کریں گے تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہوسکتاہے-وہ اس لئے کہ جس دین کو ہم ماننے والے ہیں وہ دین اسلام ہے- اور اسلام نے کبھی ظاہری اسباب کی بنیاد پر کامیابی یاناکامی حاصل نہیں کی ہے- اور اگر کہیں وقتی طور کامیابی حاصل بھی ہوئی وہ دائیمی نہیں بلکہ عارضی  طور ہی فائیدہ مند رہی ہے-اور جو کامیابی دین کے اندر رہ کر شریعت محمدی کی پابندی کی حد میں  حاصل ہوگی وہ دنیامیں دائیمی اور آخرت میں نجات کا زریعہ ہے- میدان کربلاء  میں حق کی خاطر بہتر شھادتیں ہوئیں پر نماز قضاء نہیں ہوئی پانی بند کردیاگیالیکن اس دین کو چھوڑ کر غیر ہاتھ پر بیت نہیں کی- صحابہ کے گھروں میں فاقے رہے مگر اللہ سے مانگاکائینات کے سردار کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیالیکن رب کو نہیں چھوڑا گھر کامحاصرہ  ہے- اس حال میں بھی اللہ کی جانب رجوع ہے-  صحابہ پر حالات آے اگ پر لیٹایاگیاتپتی دھوپ میں لیٹاکر پتھر سینے پر رکھاگیا- حضرت ہمزہ نے اپنے جسم کے ٹکڑے کروالئے -حضرت سمیہ نے اپنے جسم کے ٹکڑے کروالئے حق کو خیر آباد نہیں کہاآئیمہ کے جنازے جیلوں سے نکلے کوڑے کھانے پڑے کسی سے گِلہ نہیں شکائیت نہیں بس دین کو بہر صورت مقدم رکھا-وہ جب اللہ کے ہوے اللہ نے ان کی مدد کی جب اللہ کی مدد آئی تو ابابیل نے کعبہ پہ چہڑائی کرنے والوں کو معہ لشکر نیست ونبود کردیا- اللہ کی مدد آئی فرعون کو جوتے مرواے گئے – اللہ کی مدد آئی تو قارون اپنی جنت میں داخل نہ ہونے دیا-اللہ کی مدد آئی فرشتوں سے اپنے بندوں کی مدد کی – ہزراوں واقعات تاریخ کی کتابوں  بھرے پڑے ہیں – جن میں کئی اللہ کے بندوں نے حالات  کے پیش نظر اپنے اللہ سے رابطہ بناے رکھا- مصیب کے پہاڑ توڑے گئے لیکن دین خداوندی کو کسی بھی صورت پامال نہیں ہونے دیاہر حال میں نماز کی پابندی اعلی اخلاق  اعلی کردار نرم مزاجی اپس میں رحم دل حق گو حق شناس رہے- دین اسلام کو مقدم رکھاچاہے موت کو گلے لگایاحق پہ جان دے دی مگر تاقیامت ان کا نام لینے والے ان کے گن گانے والے ہزاروں میں نہیں بلکہ لاتعداد ملیں گے- دنیابھر کے چپہ چپہ میں ملیں گے- اللہ پاک کی مدد ضرور آئی اور فلاح کامیابی وکامرانی ان کا مقدر بنی ظلم وستم کے بادل چھٹ گئے – دین اسلام اور اسلام والے اربلند ہوے – بس کیا اتنا کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو پابندی سے پکڑا- لیکن جوں جوں زمانہ دور ہوتاگیاحالات آتے گئے -اور آج مسلمان مجبور اور محصور ہیں – ہر طرف سے جکڑے ہوے ہیں – ستم ڈھاکر بھی مجرم گردانے جارہےہیں –  سنگین حالات افراتفری لاقانونیت جنگ جدل ظلم ستم غرض کس قدر مشکلات میں ہیں بیان کرنا بھی آسان نہیں ہوگا- فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں وہی اللہ ہے-  وہی شریعت محمدی موجود ہے- وہی قران وہی حدیث موجود ہے- آج بھی اللہ کی مدد شامل حال ہوسکتی ہے- جب ہم احکام الہی کے مطابق سنت رسول کے دائیرہ میں رہ کر صحابہ جیسا یقین بنالیں گے – تو مددِ خداوندی شامل حال ہوگی – اور اگر ان احکام کو چھوڑ کر ہم اللہ سے مدد طلب کرتے رہے تو پھر ممکن ہے کہ ابھی مزید عذاب شدید ہم کو آ پکڑے گا- ایسے  میں ہم اپنے اعمال کو درست کرلیں تو وہ وقت دور نہیں جب ہم فلاح وکامیابی کی دلہیز کو پالیں گے-ظلم وستم کے بادل چھٹ کر پھر ایک بار سرخروئی نصیب ہوگی- شرط یہ ہے کہ ہمیں ان راستوں کو اپناناہوگا – جو فلاح وکامیابی کی طرف لے جانے والے ہیں – احکام شریعت کے مطابق  پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں – سچ  کا پابند بنیں پوراتولیں  دوسروں کی عزت وناموس کے محافظ بنیں – ہر ایک کو اپنے سے بہتر جانیں – دوسروں کے حقوق کی ادائیگی اور اپنے حقوق کو معاف کرناسیکھیں- والدین کی فرماںبرداری اولاد   کے ساتھ حسن سلوکی اور حقوق کی پاسداری اپنافرض سمجھیں – مساجد کو آباد کریں رشوت سود بیاج آبروریزی شراب نوشی غرض تمام تر برائیوں سے اپنے آپ کو بچاکررکھیں – پھر ممکن ہے کہ کامیابی کہیں نصیب ہو ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہماری جگہ کوئی دوسری قوم آکھڑی ہو – اور یہ مالک دوجہاں کو کوئی نہیں بلکہ اکثر قوموں پر اس سے پہلے بھی عذاب الہی مسلط ہوتے رہے ہیں – یہاں تک کہ ان کا نام ونشان باقی نہیں اور کہیں یانشانات باقی بھی ہیں تو وہ عبرت کی خاطر ہی باقی ہیں -حالات چھٹ جائیں گے جب  انسان اللہ سے رجوع کرلے گا- اب خود بھی سمجھ لیں کہ حالات کے تناظر میں ہماری زمہ داری کیا ہے؟
محمد ریاض ملک اڑائیوی منڈی پونچھ جموں وکشمیر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا