ڈاکٹر محمد واسع ظفر
شہریت ترمیمی قانون (Citizenship Amendment Act, 2019) اور مرکزی حکومت کی جانب سے شہریوں کا قومی رجسٹر (National Register of Citizens) بنانے کے اعلان کے خلاف ملک بھر سے احتجاجی مظاہرے اور تشدد کی خبریں موصول ہورہی ہیں جس میںایک رپورٹ کے مطابق ۲۵؍ افراد جاںبحق ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں اور کروڑوں روپیہ مالیت کی املاک تباہ ہوئی ہیں۔ حکومت وقت نے ایوان میں اپنی اکثریت کے زعم میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی تجاویز اور رائے عامہ کو مسترد کرکے آئین کی دفعہ ۱۴؎ جو کہ قانون کے آگے ہر ایک کو مساوات کا حق دیتا ہے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر شہریت کے قانون میں جو تبدیلی کی ہے اس نے آئین کے سیکولر ڈھانچے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے تحفظ کے لئے باشعور شہریوں کا صدائے احتجاج بلند کرنا بالکل متوقع تھا۔ چنانچہ یہی ہوا بھی اورا س احتجاج کی صدا سب سے پہلے آسام سے بلند ہوئی جو اولاً تو شمال مشرقی ریاستوں میں پھیلی پھر دیکھتے دیکھتے ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گئی اور جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ شمالی ہندوستان میں احتجاج کی پرزورصدا ملک کی دو مایہ ناز مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بلند ہوئی جسے دبانے کے لئے ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۹ ء کو پولیس کے ذریعہ دونوں ہی یونیورسٹیوں میں طلباء کے خلاف ظالمانہ کاروائی کرائی گئی جس نے جلتی آگ میں گھی کا کام کیا جس کے نتیجہ میں احتجاجی مظاہروں نے اکثر یونیورسٹیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ پھر کیا تھا، حزب اختلاف کی جماعتیں حتی کہ پوری سول سوسائٹی بلاتفریق مذہب و ملت ان کی حمایت میں اتر آئی۔ پورا ملک احتجاجی مظاہروں سے پٹ گیا۔احتجاج کی یہ صدا ملک کی سرحدوں تک ہی محدود نہ رہی بلکہ آکسفورڈ، ہارورڈ، ییل جیسی دنیا کی باوقار یونیورسٹیوں میں بھی طلباء کی اس تحریک کی حمایت میں مظاہرے کئے گئے اور ان پر ہوئے مظالم کی مذمتیں کی گئی۔ کئی ملکوں کے سربراہان نے بھی مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے ہندوستانی حکومت کے فیصلہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے OHCHRنے بھی اس پر اپنی تشویش جتائی اور اسے تفریق پر مبنی قرار دیا۔ قابل ذکر یہ ہے کہ اس قانون میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہر مذہب کے ماننے والے پناہ گزینوں کوجو ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۴ کے پہلے ملک میں داخل ہوئے ہیں شہریت دینے کی بات کی گئی ہے سوائے اسلام کے ماننے والوں کے۔ حکومت نے نہایت ہی شاطرانہ طور پر نیپال، برما، بھوٹان، تبت، چین اور سری لنکاجن کی سرحدیں بھی ہندوستان سے ملتی ہیں ،سے آنے والی مظلوم اقلیتوں کو اس قانون کی مراعات سے محروم رکھا ہے۔حکومت نے یہ قدم آسام میں این آر سی یعنی قومی شہری رجسٹر کی تیاری کے بعد ۱۹ ؍لاکھ سے زائد افراد جو اس سے باہر رکھے گئے ہیں اور جن میں ہندوؤں کی اکثریت ہے کو ملک کی شہریت دینے کے لئے اٹھا یا ہے جس کے نتیجہ میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو تو شہریت مل جائے گی اور مسلمانوں کا مقدر حراستی مراکز (ڈیٹینشن کیمپ)بنے گا ۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ وزیر داخلہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کی بات ایوان اور اس سے باہر کئی بار کر چکے ہیں جس میں ایسے دستاویزات کی شرائط ہیں جن کوپیش کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں بالخصوص غیر تعلیم یافتہ، غریب اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے۔اس عمل کے نتیجہ میں آسام کی طرح ملک کی ایک بڑی آبادی کی شہریت کے مشکوک ہوجانے کا خدشہ ہے جن میں دوسرے مذاہب والوں کو تو شہریت ترمیمی قانون، ۲۰۱۹ کے تحت شہریت دے دی جائے گی اور مسلمانوں کا مقدر ڈیٹینشن کیمپ ہی بنے گا ۔مسلمانوں کا اس شہریت ترمیمی قانون کو این آرسی سے جوڑ کر دیکھنا منطقی اور قانونی پہلو سے بالکل درست ہے ۔ وہ اس کے دور رس نتائج کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے اندر ایک بے چینی اور اضطراب ہے ۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی لانے کا حتمی مقصد مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانا اور انہیں حاشیہ پر ڈھکیلنا ہے۔ آسام اور دوسری شمال مشرقی ریاستوں میں اس قانون کی مخالفت وہاں کے باشندے اپنے سیاسی، ثقافتی اور حقوق اراضی کے تحفظ کے لئے کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ قانون ۱۹۸۵ کے آسام سمجھوتے کی دفعہ ۵؎ اور ۶؎ کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ ملک کے سیکولر ذہنیت رکھنے والے شہریوں کی تشویش یہ ہے کہ حکمراں جماعت اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مسخ کر رہی ہے اور یہ قانون ایک ہندو مذہبی ریاست کے قیام کی طرف اٹھایا گیا پہلا قدم ہے۔ ان ہی خدشات کے پیش نظر ملک کے مختلف حصوں میںاحتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں جن میں پولیس اور مظاہرین دونوں کی طرف سے تشدد کی خبریں آرہی ہیں ۔ آئین اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کے تحفظ کے لئے آوازیں بلند کرنا اور سڑکوں پر آنا جہاں قابل تحسین ہے وہیں حکومت کے نامناسب فیصلوں کے تئیں اپنی ناپسندیدگی اور مخالفت کا اظہار کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لینا کسی بھی طور پر قابل دفاع نہیں ہے۔احتجاج ہمیشہ پر امن طریقے سے ہی ہونا چاہیے۔ لیکن ایک اہم بات جو اس پورے معاملہ میں قابل غوربلکہ قابل مواخذہ ہے وہ ہے پولیس کی مظاہرین سے نمٹنے میں ناکامی اوران کے ساتھ بربریت کا سلوک۔تشدد صرف اسی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے جب پولیس یا تو مظاہرین کا راستہ روکتی ہے یا طاقت کا استعمال کرکے احتجاج کو دبانا چاہتی ہے۔جہاں مظاہرین کے راستے نہیں روکے گئے اور انہیں احتجاج کرنے کی اجازت دی گئی وہاں بہت بڑے ہجوم کے باوجود کوئی تشدد دیکھنے کو نہیں ملا۔مثال کے طور پرپورنیہ ، ممبئی، میوات حیدرآباد، بنگالورو ، دربھنگہ وغیرہ کے مظاہروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے برعکس جہاں ہجوم کم تھا لیکن مظاہرین کے راستے روکے گئے ، وہاں ہجوم متشدد ہوگیا اور پولیس اور عوام دونوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ آپ جب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہریوں کا حکومت کے غیر منصفانہ فیصلوں کے خلاف احتجاج کرناایک آئینی حق ہے تو اس کے لئے جگہ اور موقع فراہم کرنابھی حکومت کی ذمے داری ہے۔یہ ظاہر ہے کہ احتجاج گھروں میں نہیں کیا جائے گا، لوگ سڑکوں پر ہی آئیں گے تو انہیں اس سے روکنا اور ان کے راستے مسدود کرنا قطعی مناسب نہیں۔پولیس کو لوگوں کو احتجاج کے لئے مخصوص مقام تک جانے کی اجازت دینی چاہیے اور مداخلت صرف اسی صورت میں کرنا چاہیے جب مظاہرین مشتعل ہوکر کوئی ایسی حرکت کریں جو غیرقانونی ہو۔ جب تک وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے ان سے الجھنا قطعی مناسب نہیں۔اگر لوگوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ملے گی تو پھر ان کاپرتشدد ہوکر غم و غصہ کا اظہار کرنا ایک نفسیاتی ردعمل کے طور پر سامنے آئے گا۔ اس لئے اظہار رائے اور اظہار اختلاف کی آزادی کو عملی طور پر برقرار رکھنا چاہے، اس کی جہاں ایک آئینی حیثیت ہے وہیں یہ اپنے اندر ایک نفسیاتی پہلو بھی رکھتا ہے۔بہت مواقع پر اظہار رائے کا موقع فراہم کردینے اور مخالفین کی بات سن لینے سے ہی بہت سے مسائل سلجھ جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پولیس مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے افہام و تفہیم یعنی سمجھانے بوجھانے کی راہ اختیار کرنے اور اگر بہت ہی ناگزیر حالات ہوں تو پانی کی بوچھاڑ کرنے، آنسو گیس کے گولے دا غنے، ہوائی فائر کرنے یا ربڑ کی گولیاں چلانے کے بجائے سیدھے طور پر لاٹھی چارج کررہی ہے اور گولیاں برسارہی ہے، وہ بھی پاؤں کے بجائے جسم کے نازک مقامات کو نشانہ بنارہی ہے جس سے لوگ بری طرح گھائل ہوجارہے ہیں، جانیں تلف ہورہی ہیں اور پھر اس کا ردعمل بھی اسی طرح سامنے آتا ہے۔کچھ لوگ یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں کہ پولیس حکمراں جماعت کے اشارے پر پہلے مظاہرین کو ورغلا دیتی ہے اور پھر لاٹھی چارج اور تشدد کامظاہرہ کرتی ہے تاکہ احتجاج کو کچلا جاسکے اور بدنام کیا جاسکے۔ اس موقف کی تائید میں یہ دلیل بھی دی جارہی ہے کہ تشدد ، توڑ پھوڑ کا عمل اور پولیس کی کاروائی سب سے زیادہ انہی ریاستوں میں دیکھنے کو ملی جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ اموات بھی ان ہی ریاستوں میں ہوئی ہیں جہاں حکومت بی جے پی کے ہاتھوں میں ہے۔اب تک کل ۲۵؍ افراد کے جاںبحق ہونے کی خبریں ہیں جن میں ۱۸؍ صرف اترپردیش سے، ۵ آسام سے اور ۲ منگلورو سے تعلق رکھتی ہیں۔ یوپی پولیس نے تو مظالم کے ریکارڈ ہی توڑ دئے اور جس طرح کی خبریں ، سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیوز منظر عام پر آرہی ہیںاس نے ۲۰۰۲ء کے گجرات کی یاد تازہ کردی ہے۔بے قصوروں کو ان کے گھروں تک سے اٹھا لیا گیا ہے، بچوں اور عورتوں پر مظالم ڈھائے گئے ہیں، لوگوں کی املاک کو پولیس نے نقصان پہونچایا اور جو بھی ان کی گرفت میں آگیا ان کی وحشیانہ انداز میں پٹائی کی گئی۔ خبریں تو یہ بھی آئیں کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے کارکنان پولیس کے ساتھ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے میں شریک تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ بھی پولیس نے یہی سلوک کیا جس میں ۸۰ سے زائد طلباء زخمی ہوئے۔ دہلی پولیس کا یہی رویہ اوکھلا، سیلم پور، جعفرآباد اور دریا گنج میں بھی دیکھنے کو ملا بالخصوص ۱۵؍ دسمبر کی شام کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں داخل ہوکر طلباء کے ساتھ پولیس نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اس نے جنرل ڈائر کی یاد تازہ کردی۔ پولیس کے اس حملہ میں جامعہ کے ۱۰۰ سے زائد طلبہ زخمی ہوئے اور اتنے ہی گرفتار بھی کئے گئے ۔ ان خبروں سے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں اٹھی تحریک کے موافقین کے اس دعوے کو تقویت ملی ہے کہ حکمراں جماعت نے احتجاج کو پولیس کے بل پر کچلنے کی کوشش کی ہے اور پولیس نے ایک بار پھر سے اپنا فرقہ وارانہ چہرہ ظاہر کردیا ہے ۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ریاستی حکومتیں انسدادی رویہ نہ اپنائیں، مظاہرین کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع دیں اور اپنی پولیس کو بھی یہ ہدایت دیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ان کے ساتھ مناسب طریقہ سے پیش آئیں۔ وہ ملک کے شہری ہیں اور انہیں حکومت کے غیرمنصفانہ فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے کا آئینی حق دفعہ ۱۹؎ کے تحت حاصل ہے۔ وہ کوئی غیرملکی درانداز نہیں ہیں جن کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جائے۔ احتجاج کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنا احتجاج درج کریں۔انہیں عوامی اور سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے کیوں کہ یہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ان کے مفاد میں۔ مظاہروں کے درمیان انہیں اپنے بیچ گھس آنے والے سماج دشمن عناصر پر بھی نگاہ رکھنی چاہے اور کسی کو بھی پولیس یا ہجوم کومشتعل کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ ایسی خبریں بی بی سی اور دوسری معتمد خبر رساں ایجنسیوںکے ذریعے منظر عام پر آچکی ہیں کہ بی جے پی اور ان کی ہمنوا تنظیموں کے کارکنان مسلمانوں کا حلیہ بناکر ٹرینوں پر پتھر پھینکتے ہوئے پکڑے گئے جس سے ان کی منشاء کو سمجھا جاسکتا ہے۔ایک طرف تو یہ حرکت کی جارہی اور دوسری طرف وزیر اعظم یہ بیان دیتے ہیں کہ پر تشدد مظاہرہ کرنے والوں کو لوگ ان کے لباس سے پہچانتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اس پوری تحریک کو مسلم بمقابلہ ہندو کرنے کی گھناؤنی سازش رچی جارہی ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا سیکشن بھی اس میںشریک ہے جو صرف تشدد کو تو نمایاں کررہا ہے لیکن پرامن مظاہروں کو عوام کی نگاہوں سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس لئے شہری ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بہت ہی ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ا س قسم کی نعرے بازی سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس تحریک کو ہندو مسلم کا رنگ دینے میںحکمراں جماعت کو مدد ملے اور تشدد سے تو بالکل ہی احتراز کرنا چاہیے ۔تشدد ان کی تحریک کو کمزور کردے گا اور وہ لوگوں کی حمایت سے بھی محروم ہوجائیں گے ۔ اچھے مقاصد اور اچھے نتائج کے حصول کے لئے مناسب طریقہ کار کا اختیار کرنا ضروری ہے کیوں کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیت ہے کہ اچھے اسباب و ذرائع ہی ا چھے نتائج لاتے ہیں۔