اعجاز کوہلی
مینڈھر //سرحدی سب ڈویژن مینڈھر جو کہ تین تحصیلوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی80فیصد آبادی عین سرحدی پٹی پر آباد ہے۔جہاں آئے روز حالات کشیدہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی عوام گوناں گوں مسائل سے دوچار رہتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ مینڈھر کو سب ڈویژن کا درجہ 1991 میں حاصل ہوا تھا لیکن سرکارکی عدم توجہی کی وجہ سے آج بھی اس دفتر میں ملازمین کی منظور شدہ آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیںسال 2014میں ریاستی سرکار نے پوری ریاست میں قریب 500سے زائد نئے انتظامی مراکز کا قیام عمل میں لا کر ایک تاریخ رقم کی تھی اس میں شک نہیں اس وقت سب ڈویزن مینڈھر میں بھی نئے انتظامی مراکز قائم کئے گئے لیکن اسی کمیٹی کی سفارشات میں موجود مینڈھر میں ایڈیشنل سیشن کورٹ اور گورسائی کو سی ڈی بلاک کا درجہ دئے جانے کا واعدہ کیا گیا تھا جو ہنوز پورا نہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں مایوسی پائی جا نا قدرتی امر ہے کیونکہ یہ مراکز یہاں کی عوام کادیرینہ اور جائز مطالبہ تھا جس کو موجودہ سرکار نے پورا نہ کرکے اس سرحدی خطہ کے عوام کے ساتھ سوتیلا سلوک رواں رکھا ہے۔ جو کہ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور ممبر قانون ساز اسمبلی مینڈھر جاوید احمد رانا نے اخبارات کے نام جاری اپنے بیان میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری حکومتوں نے ہمیشہ اس پسماندہ اور سرحدی علاقہ کے عوام کے بنیادی حقوق کے ساتھ کھلواڑ کیاہے۔موصوف نے کہا کہ آج ریاستی سرکاراُن علاقوں کو ترجیح بنیادوں پر مضبوط اور مستحکم بنانے میں مصروف ہے جہاں سے موجودہ مخلوط اتحاد کے ممبران اسمبلی جیت کرآئے ہوئے ہیں۔ جاوید احمد رانا نے ریاستی سرکار پر الزام عائد کیا کہ یہ سرکار علاقائی تعصب کی بنیاد پر ا±ن اسمبلی حلقوں کی تعمیر و ترقی مےں مشغول ہے جہاں سے ان کے منظور نظر اور ان کی جماعتوں سے وابسطہ ممبران اسمبلی اور وزرا بر سرِ اقتدار ہیں۔انھوں نے کہا کہ سب ڈویژن مینڈھر جو کہ آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے ریاست کے دوسرے کئی علاقوں سے بہت بڑا ہے اور جو تین تحصیلوں پر مشتمل ہے یہاں کے عوام ہمیشہ اس پسماندہ خطہ کیلئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور پولیس ضلع کا درجہ کی مانگ کرتے رہے ہیں۔لیکن موجودہ سرکار نے عوام کے اس دیرینہ مطالبہ کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے اور سرکار کی ستم ظریفی دیکھئے ایک ہی ضلع میں دو دو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی اسامیاں منظور کئے جانا موجودہ سرکار کی تعصبانہ اور انتقامی سوچ کی ایک بڑی مثال موجود ہے ۔انھوں نے کہا کہ موجودہ سرکار میں دونوں جماعتوں کے ممبران قانون سازیہ نے تمام اخلاقی اور قانونی قدروں کو پامال کرتے ہوئے اپنی اپنی جماعتوں کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی خاطر قانون اور حقوق انسانی کو پامال کر دیا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک ہی ضلع میں بیک وقت دو ڈپٹی کمشنر کی نئی اسامیاں منظور کی گئی ہوں۔ انھوں نے سرکار کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلا تاخیر سب ڈویژن مینڈھر کے لئے ایڈیشنل سیشن کورٹ ،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی آسامی اور گورسائی کو سی ڈی بلاک کا درجہ دیا جائے جو کہ سابقہ سرکار کے دور میں منظور شدہ انتظامی مراکز کی فہرست میں شامل ہیں اور جنہیں موجودہ سرکار نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر التوا میں رکھا ہوا ہے۔جاوید احمد رانا نے کہا کہ میں ذاتی طور پر نو شہرہ اور کوٹرنکہ کی عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جن کی جدوجہد نے رنگ لایا اور ریاستی سرکار نے ا±ن کے سامنے خود سپردگی کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرکی اسامیاں منظور کی ہیں حقیقتاً یہ وہاں کی غیور عوام کا حق تھا جو انھیں ملا ہے ا±نہوں نے سرکار سے پرزور مطالبہ کیا کہ سب ڈویژن مینڈھر کی آبادی اور علاقائی پسمائندگی کو لحاظ میں رکھتے ہوئے یہاں کے لئے ایڈیشنل سیشن کورٹ ،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی اسامی اور گورسائی کے لئے سی ڈی بلاک کا واعدہ وفا کرے جو سابقہ سرکار نے اس وقت کی انتظامی مراکز کی فہرست میں یہاں کی عوام کے ساتھ کیا ہوا ہے ورنہ یہاں کے عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ موجودہ سرکار تعصب کی بنیاد پر اور اپنی اپنی پارٹیوں کو مضبوط کرنے کے لئے کام کر رہی نہ کہ عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق کام کئے جا رہے۔جاوید احمد رانا نے سرکار کو خبردار کیاکہ اگر اسمبلی حلقہ مینڈھر کی عوام کے ساتھ انصاف نہ کیا گیا تو یہاں کے عوام اپنے حقوق کی خاطر ایک طویل جدوجہد کرنے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔