کتاب : :
مصنف : غلام نبی کمار
قیمت : 450، صفحات:384
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی6-،رابطہ: 7053562468
تبصرہ : محمد اسلام خانغلام نبی کمار ایک نوجوان قلم کارہیں۔ وہ بہت فعال اور متحرک ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بہت جلد ہی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے۔ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ کشمیر سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہیں اردو سے والہانہ محبت ہے اور یہی محبت اردو کی خدمت کے لیے انہیں اُکساتی ہے۔ غلامی نبی کمار دہلی نیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر ہیں اور ان دنوں اپنے مقالے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جو ان کی لگن اور اردو سے محبت کی دلیل ہیں۔ وہ اپنے قیمتی اوقات میں سے کس طرح وقت نکال لیتے ہیں، دوسرے طلبہ کو ان سے تحریک لینے کی ضرورت ہے۔ ان کی تحریریں ملک و بیرون کے معتبر روزناموں اور رسالوں میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’قدیم و جدید ادبیات‘ تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں 20 مضامین شامل ہیں۔ اس میں امیرخسرو، مومن اور داغ جیسے عظیم قلم کاروں پر نہ صرف محققانہ اور عالمانہ مضامین قلم بند کیے گئے ہیں بلکہ اس دور کی ادبی صورت حال پربھی ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے۔کتاب میں جہاں کلاسیکی شعرا و ادبا پر بات کی گئی ہے تو وہیں ہم عصر ادیبوں کو بھی کتاب میں جگہ دی گئی ہے مگر اس بات کا خیال ضرور رکھا گیا ہے کہ اس میں صرف ان ہی ادیبوں کو شامل کیا جائے جن کی معتبریت مسلم ہو۔ زبیر رضوی اور پروفیسر ظہیر احمدصدیقی کا نام ان ہی میں شامل ہے۔ زبیر رضوی کی شاعری پربات کرتے ہوئے غلام نبی کمار لکھتے ہیں:ـ’زبیر رضوی کی غزل گوئی سے ان کی شخصیت کے متنوع پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ وہ ماضی کی یادوں کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں لیکن ان کے اسیر ہو کے نہیں رہتے۔ زبیر رضوی کے یہاں عصری حسیات و کیفیات وسیع پیمانے پر ان کی تخلیقی وجدان کاحصہ بنتی ہیں جن میں اشتراکیت کی مثبت قدریں بھی کارفرما ہیں۔ مزید وجودیت اور مابعد جدیدیت کے تخئیلی رجحان کا عمل دخل بھی ہے۔‘کتاب میں نہ صرف شخصیات کو زیر بحث لایا گیا ہے بلکہ ادب کے ہمہ جہت پہلوؤں پر بھی بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے مشمولات ’1960 کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب‘، ’مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظرنامہ‘، ’اردو زبان میں سائنسی صحافت‘، ’خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ‘کو دیکھ کرہی مصنف کی محنت اورعرق ریزی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔یہ مضامین بے حد اہم اور کارآمد ہیں۔ ان مضامین کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں کسی کی نہ بے جاتعریف کی گئی ہے اور نہ ہی تنقید۔ مصنف نے خود ہی اس کی وضاحت کی ہے،ـ ’’’قدیم وجدیدادبیات‘‘ میرے تحقیقی و تنقیدی مضامین کی پہلی کتاب ہے جس میں مختلف موضوعات کے تحت 20 مضامین شامل کیے گئے ہیں جو نہ کسی کی ستائش میں لکھے گئے ہیں اور نہ ہی کسی کی فرمائش پر بلکہ ان موضوعات کے ساتھ میری ذاتی انسیت رہی ہے۔‘ اردو میںنئے قلم کاروں کاداخلہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اپنی ایک شناخت قائم کر لینا یقینا ایک بڑی بات ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ہردن اردو میں ایک نووارد قدم رنجہ ہوتاہے اور تھک ہار کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ اس کے لیے پہچان بنا پانا کار دشوار ہے لیکن نوجوانوں کا اردو میں آنا اور تحقیق و تنقید جیسے مشکل موضوعات میں دلچسپی لینا یقینا خوش آئند بات ہے۔ اس سے اس بات کی امید توبجا طور پر کی جا سکتی ہے کہ اردو کا مستقبل تاریک نہیں ہے۔ n