’’جس دن سے‘‘: سماجی رشتوں کی شکست و ریخت کا ترجمان

0
0

صدف اقبال  (ریسرچ اسکالر،مگدھ یونیورسٹی، بہار)

’’جس دن سے‘‘ محترمہ صادقہ نواب سحر کا ناول ہے ۔۳۵۲ صفحات پر مشتمل اس ناول کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔ رتن سنگھ اور وسیم بیگم کی تحریریں بھی ناول کے آغاز سے پہلے کتاب میں موجود ہیں۔ صادقہ نواب سحر معروف ناول نگار اور ہندی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ۔ یہ ان کا دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے ’’کہانی کوئی سنائو متاشا‘‘ ۲۰۰۸ء میں شائع ہو کر خاص و عام سے داد پا چکا ہے۔ یہ ناول جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے عام ڈگر سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ سماجی رشتوں کی شکست وریخت اس ناول کا مرکزی موضوع ہے۔ جیتیش اس ناول کا مرکزی کردار ہے جس کا باپ عیاش ہے تو ماں بھی اپنی عائلی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکا م ہو ئی ہے۔ جیتیش جو کہ ’’جیتو‘‘ کی عرفیت سے جانا جاتا ہے جب ساتویں کلاس میں تھا تو اس کے والدین میں علیحدگی ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ جیتو کا باپ ایک خاتوں مینکا سے ناجائز تعلقات استوا ر کر چکا ہے۔ دوسری طرف جیتو کی ماں بھی ایک اور شخص چودھری کے ساتھ رہنے لگی ہے۔ جیتو کا بڑا بھائی نکھل اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا اور جیتو اپنے باپ کے ساتھ۔ماںکی محبت سے محرومی کے ساتھ ساتھ باپ کی توجہ بھی نہ ملنے کی وجہ سے جیتو کے کردار میں جو دراڑیں پڑیں اس نے اس کو عمر بھر پریشان رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اوائل عمری میں ہی نو عمر لڑکیوں کے ساتھ تعلقات استوار کر بیٹھا،اگرچہ یہ تعلقات جسمانی نہیں تھے لیکن جسم کسی حد تک ملوث ضرور تھا۔ بچپن میں پہلے ملی،پھر زاہدہ اس کے بعد شلپی اور پھر رانی میں دلچسپی لی لیکن اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے ان لڑکیوں نے جلد ہی جیتو سے رخ موڑ لیا۔ جسمانی ناآسودگیوں اور ماں باپ کے تلخ تعلقات کی وجہ سے تعلیم میں جیتو کی دلچسپی بہت کم رہی یہی وجہ تھی کہ وہ پہلے ساتویں میں فیل ہوا ۔ پھر میٹرک میں ٹیوشن پڑھنے کے باوجود اس نے ۵۵ فیصد نمبر لئے اور اپنے باپ کی ناراضگی مول لی۔ یہی نہیں اس کی بدقسمتی کہ وہ جگہ جگہ رُلتا رہا کبھی اپنے باپ کے گھر کبھی اپنے باپ کی داشتہ مینکا کے گھر تو کبھی اپنی آجی (نانی) کے گھر۔ مینکا سے بعد میں اس کے باپ نے شادی کر لی۔صادقہ نے ناول میں جو تکنیک استعمال کی ہے وہ فنی اعتبار سے ناول کو بلندی پرلے گئی ہے۔ صادقہ نے مختلف عنوانات قائم کر کے ناول میں کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول نگار نے جو تکنیک استعمال کی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ناول کو آپ بیتی کے رنگ میں لکھا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یاداشتوں کے رنگ میں یہ ناول لکھا گیا ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ ناول جدت کی طرف جاتا ہے کہ عام طور پر ناول اس تکنیک میں نہیں لکھے جاتے۔ صادقہ کی گرفت ناول پر بہت مضبوط رہی ہے انہوں نے آغاز سے ہی ناول میں ایسی فضا تخلیق کی کہ قاری پورے ناول کی قرأت کرتے وقت اس فضا سے خود کو آزادنہیں کر سکا۔’’ڈیلیوری بوائے‘‘          ڈیلیوری بوائے‘‘ساحل نے آواز لگائی اور دروازہ کھول دیا‘‘(ص:۱۷)یہاں ساحل کا خیال تھا کہ چونکہ اس نے پزا کا آرڈر دیا ہو اہے اس لیے ڈیلیوری بوائے ہی ہو گا لیکن دروازہ کھولنے پر جیتو کی ماں اور بڑا بھائی سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور پھر جیتو کی بے عزتی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ناول کا ٹیمپو تیز ہوتا ہے۔ پورے ناول میں جیتو کی یادداشتیں ہیں جن کے سہارے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ ماں کی محبت سے محرومی، باپ کا دوسری عورتوں میں دلچسپی لینا ۔ جیتو کا خود سے فرار اور لڑکیوں میں دلچسپی لینا، جیتو کی نانی کا اس کے باپ سے نفرت کا اظہار۔ دونوں بھائیوں کے درمیان دوریاں، یہ وہ عوامل ہیں جو جیتو کی زندگی کو زہر آلود بناتے ہیں لیکن ساحل جیسے دوست کا ساتھ غنیمت ہے جس کے گھر جا کر جیتو کو سکون ملتا ہے ۔ وہاں اس کی ماں جیتو کو ساحل جیسا ہی سمجھتی ہے۔رتن سنگھ لکھتے ہیں:’’گٹھے ہوئے واقعات، چست جملے،نفسیاتی اعتبار سے حقیقی تجزیہ اور فکری سطح پر مکمل کہانی صرف جیتو کی داستان ہی نہیں رہ جاتی بلکہ یہ داستان اس ملک کے لاکھوںکروڑوںگھروں کی داستان بن جاتی ہے جہاں زندگی اسی قسم کے بدنما حالات کاشکار ہو کراندھیروں میں بھٹکتی رہ جاتی ہے۔ اس کامیاب کوشش پر صادقہ نواب مبارک باد کی مستحق ہیں۔ مصنفہ ایک سلجھے ہوئے ذہن کی مالک ہیں اور کہانی بنُنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘(ص:۱۰)صادقہ نواب نے پورے ناول میں فکری و فنی سطح پر نہایت مشاقی کا مظاہرہ کیا ہے۔جیتو کا باپ اگرچہ اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ہے اور اسے اپنی عیاشی سے ہی فرصت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کو جیتو کی تعلیم کی فکر ہے ا س لیے وہ ایک طرف اس کی چاٹے کلاسز کے لیے فیس بھرتا ہے تو دوسری طرف وہ ایک پروفیسر کو ٹیوشن فیس کے طور پر ایک لاکھ روپے دینے کی حامی بھی بھر لیتا ہے بلکہ پچاس ہزار روپے وہ پہلے ادا کر دیتا ہے لیکن جیتو کی تعلیم میں عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ ایف اے میں فیل ہو جاتا ہے اور پھر جب پاس ہوتا ہے تو ۴۵ فیصد نمبر لیتا ہے جس کی وجہ سے باپ اس کو مارتا ہے۔ ماں باپ کی جیتو میں عدم دلچسپی ہی جیتو کی زندگی میں ناہمواریاں لانے کی سزاوار ہے۔ وہ اپنی زندگی میں چار لڑکیوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ مخلص نہیں ۔ وہ وقت گزارنا چاہتی ہیں جب کہ جیتو محبت کا پیاسا ہے۔ آخر کار اسے کال سینٹر میں نوکری مل جاتی ہے اور وہ نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھتا ہے ۔ اس کا خواب تو پورا نہ ہوا کہ وہ نیوی میں جانا چاہتا تھا لیکن نمبر کم ہونے کی وجہ سے ا س کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی تا ہم وہ وکالت کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔اور پے درپے ناکامیوں کی پرواہ کیے بغیر پڑھتا ہے ۔ بالآخر وکیل بن جاتا ہے۔ ماں باپ کی ناہموار اور ناآسودہ ازدواجی زندگی اسے شادی جیسے مقدس فریضے اور بندھن سے بھی متنفر کر دیتی ہے ۔وسیم بیگم لکھتی ہیں:’’صادقہ نواب سحر کا یہ ناول دراصل کثیر الجہات ہے۔اس میں ناول نگار نے ایک طرف ہمارے سماج کے ایک عام انسان کی خود غرضی اور اس کی نفسیات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج کا انسان یہاں تک کہ ماں باپ بھی جو اولاد کو جگر کا ٹکڑا کہتے ہیںوہ بھی کتنے مطلب پرست اور خود غرض ہو گئے ہیں۔ جیتیش کے والدین کو صرف اپنی خوشی عزیز ہے،باقی ان کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مفاد کے لیے اولاد کوبھی اپنے سے دور کر دیا۔ دوسری اہم جہت اس ناول کی یہ ہے کہ عصری دور کا معاشرہ جنسی بے راہ روی کا بری طرح شکار ہو چکا ہے اور یہ جنسی بے راہ روی نوجوان نسل میں ہی عام نہیں ہے بلکہ ہر عمر کے لوگ اس برائی کو اپنائے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ شادی شدہ جوڑے بھی اپنی جنسی بھوک کو مٹانے کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔شوہر اور بیوی کا جو مقدس رشتہ ہے اس کا تقدس برقرار نہیں رہا… تیسری اہم جہت اس ناول کی یہ ہے کہ سچی محبت تو کہیںگم ہو گئی ہے ۔وقت گزارنے کے لئے لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور مطلب نکل جانے پر ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں۔‘‘(ص۱۳:۱۴)وسیم بیگم کا کہنا بجا لیکن ایک بات کا اضافہ میں کرنا چاہوں گی کہ سچی محبت کا ایک اور رخ بھی ناول نگار نے دکھایا ہے اور وہ دوستی کے روپ میں ہے۔ ساحل ، جیتو کا ایک مخلص دوست ہے اور جیتو کو بھی اس کی دوستی پر ناز ہے اور پورے ناول میںیہ دوستی قائم و دائم رہتی ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سچی محبت کی گمشدگی کا جو حوالہ وسیم بیگم نے دیا ہے وہ جنسِ مخالف کی وہ محبت ہے جس میں جسمانی تعلقات ناگزیر ہو جاتے ہیں ۔ مصنفہ نے ناول میں بے وفائی کا مظاہرہ صنفِ نازک سے سر زد کرایا ہے۔یہاں ایک ایک لڑکی کے کئی بوائے فرینڈ ہیں، چاہے وہ لڑکی شلپی ہو یا رانی یا پھر مہک ہی کیوں نہ ہو۔لڑکیوں کی دولت چاہیے۔ وہ جس کے پاس دولت دیکھتی ہیں اس کی ہو جاتی ہیں۔ جیتو کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔وہ ناول میں چار لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن کوئی لڑکی بھی اس کے خلوص اور وفا کا جواب وفا سے نہیں دیتی۔ ماں باپ کی محبت سے محرومی جیتو کو جن لڑکیوں کے پاس لائی انہیں دولت سے دلچسپی تھی۔ نتیجے کے طور پر جیتو تمام عمر جنسی ناآسودگی کا شکار رہا۔جیتو کا بڑا بھائی نکھل بھی جو کہ ماں کے پاس رہا اور باپ کی شفقت سے محروم رہا،اسی جنسی ناآسودگی کا شکار رہا۔ اس کی شادی بھی ناکام رہی، حالانکہ اس کی ایک بیٹی بھی تھی لیکن اس کی بیوی کی نہ تو اس کے ساتھ نبھ سکی نہ ہی اس کی ماں کے ساتھ۔ناول نگار نے ایک اور جہت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ معاشرہ عدم برداشت اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہے اور عام لوگ بھی چاہے استطاعت نہ رکھتے ہوں لیکن وہ دوسری شادی کے شوقین ہیں اور اس میں مرد اور عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ صادقہ نواب کا یہ ناول نہ صرف جیتو کی کہانی ہے بلکہ یہ پیغام بھی اس ناول کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اس دور میں شریف لوگوں کا کچھ نہیں بنتا ہے۔ یہ دنیا آوارہ اور عیاش لوگوں کی ہے کیونکہ انہیں آگے نکلنے کے ہزار گُر آتے ہیں۔ صادقہ نے ناول میں مراٹھی زبان کا استعمال بھی کیا ہے اور ہندی زبان کا بھی۔ اس لحاظ سے بھی ناول کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے کہ ناول میں تین زبانوں کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ یوں علاقائی زبانوں کے فروغ کے سلسلے میں بھی اس ناول کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناول میں مصنفہ نے بمبئی اور اس کے گردو نواح کی معاشرت، رہن سہن اور زبان کو دکھانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:’’نئی ممبئی میں سی بی ڈی بیلا پور علاقے کا ماحول بہت اچھا ہے۔یہاں بہت سکون ہے ۔پوری نئی ممبئی میںسب سے زیادہ ہریا لی یہیں دکھائی دیتی ہے۔پولیس اسٹیشن کے پیچھے اور بس اسٹینڈ سے لگا ہو اایک بڑا آم کا بغیچہ ہے۔ نیرول، واشی،جوئی نگر ، پنویل جیسے نئی ممبئی کے علاقوں میںجیسی سہولتیں ہیں ویسی یہاں بھی ہیں۔یہاں سیکٹر چار اورچھ میںبڑے مارکیٹ ہیں۔ شام کو گھومنے کے لیے اچھی جگہیں ہیں…ساحل کے ساتھ کی یادیں گہری ہیں۔(۲۲)بچپن میں ماں باپ نے محبت نہیںدی اور اب جب کہ جیتو جوان ہو چکا ہے تو ماں اس کی قربت کی خواہاں ہے لیکن اب جب کہ ماں اس پر اپنی محبت نچھاور کرتی ہے تو اس کو گراں گزرتا ہے اور وہ اس ماحول سے فرار چاہتا ہے۔’’یوں نہیں یوں کرنا چاہیے۔‘‘غلط ہوں تو کہتا ہے جھڑکتا بھڑکتا نہیں ساحل کی دوستی میںکبھی کمی بیشی نہیں محسوس ہوئی مگر مما!!!مما اب پیار جتاتی ہیںلیکن یہ پیار اچانک کہاں سے آگیا؟سمجھ میں نہیں آتا !ماں باپ کے بارے میںمیرے دل میں بڑی کڑواہٹ ہے…شاید ڈیڈی کے بارے میںکچھ کم ہو…وہ پیار نہیں جتاتے ۔دوری رکھ کر پیش آتے ہیں۔’’یہ مت کرو ۔ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘کہہ کہہ کر کسی معاملے میںٹانگ نہیں اڑاتے۔کبھی کبھی کہتے ضرور ہیں۔لیکن سب کچھ ہو جانے کے بعد۔مما سے کہوںتو فوراً ٹوک دیتی ہیں۔بچپن میں موقع تھاہمیں شکل نہیں دی اب کِلے یا چکنی مٹی کی طرح اپنے آپ سوکھ گیا تو یہ لوگ شیپ بگاڑنا چاہتے ہیں…اور یہ سب ماں باپ کے ہاتھوں…‘‘(۲۸) صادقہ نے ڈھلتی عمر کے خوف سے دوچار خاتون کے کردار کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ جیتو کی ماں جو اب جیتو کو پیار دیتی ہے حقیقت میں خود پیار اور سہارے کی متمنی ہے۔ جیتو اسی بات کو نہیں سمجھ سکتا اور بگڑ بیٹھتا ہے تو صرف اس لیے کہ جس پیار کا وہ بچپن میں طلب گار تھاوہ ا س کی مما اسے جوانی میں دے رہی تھی۔ایک دن وہ ایک خط پڑھتا ہے ج مراٹھی زبان میں ہے اور اس کی ماں نے اپنے محبوب چودھری کو لکھا تھا:’’میں نے ایک ایسے انسان سے ذلت برداشت کی جو میرے بچوںکا باپ تھا۔آپ نے میرا کتنا ساتھ دیااور آج آپ ہی الزام لگاتے ہیں… میں نے تن من دھن دے کر آپ سے ایسا سلوک پایاصرف اس لیے کہ میں آپ سے شادی نہیںکر سکتی۔‘‘(۳۴۲)یہ خط پڑھنے کے بعد جیتو کو اپنی ماں پر ترس آیا اورا سے خود سے شرمندگی ہوئی۔ جب وہ وکالت کا امتحان پاس کر چکا تو اس کی ماں کو بہت خوشی ہوئی۔ صادقہ نے یہاں منظر کشی بہت عمدگی سے کی ہے:’’میں کہتی تھی نا! تُو ابنارمل ہے۔ میں نے پلٹ کر مما کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں فخر سے چمک رہی تھیں۔ اور میں سمجھتا رہا کہ وہ اس لیے کہتی ہیں کہ ان کی سوچ سے ملتا نہیں۔اپنی سوچ ان پر لادتا نہیںاس لیے ابنارمل کہتی ہوں گی !میں سمجھتا رہا وہ اپنی سوچ مجھ پر لادتی ہیںاس کے لیے میں کیا کروں؟… جانتی تھی وکیل کی ماں بنوں گی ‘‘میں نے بڑھ کر مما کے گھنگھریالے بالوں کو چوم لیا۔’’اور بہو بھی وکیل لائوں گی‘‘وہ اپنی بات پوری کر کے رہیں۔‘‘(۳۴۴) آخر میں جب جیتو ایک وکیل بن جاتا ہے تو اس کی ناکامی کامیابی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور جب آخر میں مہک اس سے جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے تو وہ انکار کر دیتا ہے۔’’اور؟‘‘وہ بہکنے لگی۔اور…ڈیڈ اور مام کی زندگی کو دہرانا نہیں چاہتا مہک۔میں نے اسے پرے دھکیل دیا…میں وہ زندگی پھر سے جینا نہیں چاہتا۔‘‘(۳۵۱)صادقہ نے فنی لحاظ سے بھی ناول کی بنت کا بہت خیال رکھا ہے اور ایک کامیاب ناول لکھنے میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہوئی ہیں۔ جیتو ایک وکیل بننے کے بعد نہ صرف اپنی ماں کی طرف لوٹ جاتا ہے بلکہ مینکا کے پاس بھی جاتا ہے اور اپنی بہن کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان بھی کرتا ہے۔ناول میں اگرچہ المیہ شروع سے ناول کا حصہ ہے لیکن آخر میں صادقہ نے المیے کو خوشی میں تبدیل کر دیا ہے اس لحاظ سے کہ ماں اور بیٹے کا ملن دکھایا ہے۔ بہت عمدہ ناول ہے۔ ٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا