بشیر چراغ
جموں و کشمیر
دونوں ہی صورتوں میں ہوگا تماشا میرا
میں اُسے دیکھوں، کہ دیکھے مجھے سایا میرا
درد خاموش نہیں ہے تہہِ خاشاکِ طرب
سانس لیتا ہے ابھی شہرِ فسردہ میرا
شعلۂ درد اِسی خطۂ بنجر سے اُٹھے
روشنی دے رہا ہے شہر کو صحرا میرا
چل پڑا قافلۂ عشق کہیں تو سرِ عرش
خود بہ خود زخم شبِ تار میں نکلا میرا
وہ جہاں خواب کے ٹیلے ہیں وہاں سے کچھ دور
نائو سوتی ہے مگر بہتا ہے دریا میرا
یوسفِ وقت ترے غم کی زلیخائوں کو
کون سا چین ملا توڑ کے چرخا میرا
کیوں صدا آرہی ہے دور کناروں سے چراغؔ
کیا کسی موڑ پہ اب رُک گیا دریا میرا
٭٭٭