نسیم خانم صباؔکی کائنات شاعری:ایک جائزہ 

0
0

از:۔واجد اختر صدیقی9739501549:
(علاقائی صدر مسلم گورنمنٹ ایمپلائز اسوسی ایشن محکمہ تعلیمات عامہ ،گلبرگہ) ریاست کرناٹک میں خوا تین شاعرات کی اگر فہرست سازی کی جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت کم خواتین نے شاعری میں کمال دکھایا ہے ۔ سرزمین کپل سے ابھرنے والی جواں سال شاعرہ ان دنوں شعری افق پر اپنی چمک اور دمک کے ذریعہ ایک انوکھی اور منفرد شناخت بنائی ہے عام طور پر خواتین قلم کار اپنے خول کے حصار میں مقید پائی گئی ہیں لیکن نسیم خانم صبا کپل کے ہاں ان کے شعری سرمایہ میں متنوع موضوعات کی آمد و رفت کا ہم مشاہد ہ کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ نسیم صبا اپنے اظہاریہ کو دلیری اور بے باکانہ انداز میں پیش کر تی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر دلی جذبات و کیفیات کا ایسا اتھاہ سمندر موجود ہے جو کسی طوفان یا بھنور سے خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ مقابلہ آرائی کے لئے تڑپتا اور مچلتا بھی ہے۔ نسیم خانم صبا درس و تدریس سے وابستہ ہیں اسی لیے ان کی شاعری میں سنجیدگی اور صالح افکار ونظریات کار فرما ہیں ان کی شاعری اپنے اندر کسی ایک زاویے نظر کو لئے ہوئے نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے اورشاعری کی زبان میں وہ اپنے موضوعات کے ساتھ انصاف بھی کرتی ہیں۔انہوںنے تقدیسی شاعری بھی کی ہے غزلیں بھی لکھی ہیں، تہنیت کے اشعار بھی کہے ہیں، انقلابی کلام بھی پیش کیا ہے، اور مختلف مواقع پر اپنے جذبات کا اظہار بھی شاعرانہ زبان میں کیا ہے۔ ان کی تقدیسی شاعری میں فکر کی شگفتی اور والہانہ جذبات اور اپنی بندگی وغلامی کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ عظمت ورفعت کا اعتراف بھی خوب ہے۔نعت کے یہ چند اشعار دیکھیں جس میں کتنی مہارت سے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے خوبصورت جذبات کا اظہار کیا گیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کس قدر مناسب الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو روح میں وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں یہ نسیم خانم صبا ؔکے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے والہانہ لگاؤ کا نتیجہ ہے۔ساقیِ کوثر, شافعی محشر, ذاتِ مکرم صلے علیٰ صاحبِ قرآں, جلوہِ یذداں, رحمت ِعالم صّلّے علیٰ. آپ کی ذاتِ اقدس کو یہ ساری دنیا کہتی ہے درد کا درماں, غم کا مداویٰ, زخم کا مرہم صلّے علیٰ. آپ مُعطّر, آپ مُطہر   آپ مُنوّر,ہیں, بے شک نورِ مُفصل, مظہرِ اوّل, مرسلِ خاتم صلّے علیٰآپ شفیعِ روزِ جزا ہیں, آپ کے احسان ہیں بے حد آپ ہیں محسن,  آپ مسیحیٰ,خیرِ مجسم صلّے علیٰکرتے ہیں اقرار سبھی یہ, سارے نبیوں میں ہیں ‘صبا  سب سے مُؤخر, سب سے مُعظم, سب سے مُقدم صلّے علیٰ سارے اشعار پڑھ ڈالیے تسلسل خیالات، اظہار پاکیزگی اور صفات نبوی کا ایک جہاں آباد ہے اور ساتھ ہی اپنے عقائد کا بہترین اظہاریہ بھی ہے صرف اس کلام میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے کتنے القاب لائے گئے ہیں جو ان کے وسعت مطالعہ کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔1۔ساقی کوثر 2۔شافع محشر 3۔صاحب قرآن 4۔جلوہ یزداں 5۔رحمت عالم 6۔درد کا درماں 7۔غم کا مداوا 8۔مرہم زخم 9۔معطر 10۔مطہر 11۔منور 12۔نور مفصل 13۔مظہر اول 14۔مرسل خاتم 15۔محسن 16۔مسیح 17۔خیر مجسم 18۔موخر 19۔معظم 20۔مقدم ایک ہی نعت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے 20 القاب وآداب کا استعمال کیا جانا حیرت کا سبب ہے۔ نسیم خانم صبا صالح فکر کی حامل خاتون ہیں اس لیے انہوںنے اپنے اشعار میں پاکیزہ عنوانات کو جگہ دی ہے اوران کے کلا میں اصلاح امت کا پہلو غالب ہے انہوں نے ”ماں ”بنت حوا” ”علم” ”بہار رحمت””روزہ”جیسے عنوانات پر بھی کلام لکھا ہے اور وہیں اردگان اور اقبال جیسی شخصتیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے جس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نسیم خانم صبا کے یہاں موضوعات ان کے فکر کی وسعت اور حساس دل کی موجودگی کا نتیجہ ہے اور شاعرانہ کمال ان کے پاس خدا کا بہترین عطیہ ہے کہ جو آنکھیں دیکھتی ہیں اور وقت جو تقاضہ کرتا ہے وہ اسے الفاظ کا جامہ پہنا کر شعری قالب میں ڈھال دیتی ہیں۔ نسیم خانم صبا ایمانی جذبہ کی حامل خاتون ہیں ان کی شاعری میں جہاں اسلامی فکر نمایاں ہے وہیں پر وہ سراپا اپنے عمل کے ذریعہ اسلام پر مستقل قائم رہنے کا جذبہ بھی پیش کر تی ہیں ایمانی قوت کی اسی تازگی کے باوصف اسی سال وہ عمرہ جیسی سعادت سے متصف ہو چکی ہیں اور مسجد نبوی میں بیٹھ کر انہوں نے خوبصورت نعت کہی تھی جس کا ایک شعر پیش ہے جس سے حبِ نبوی کی مثالی کیفیت سامنے آتی ہے ۔  ؎ مدینہ کا سفر ہے اور دل لبریز الفت ہے  مدینہ تیری گلیوں سے محبت ہے محبت ہے  ماں کے عنوان پر لکھا گیا ان کا کلام ان کے خوبصورت جذبات واحساسات اور رشتوں کی قدر اور ماں کے بچھڑنے پر ایک پرنم آنکھوں کی بہترین کیفیت کا ادراک فراہم کرتاہے ۔
وہ دن بھی آگیا دیکھتے دیکھتے ہوگئی ماں جدا دیکھتے دیکھتے دل تڑپ ہی گیا آنکھ پرنم ہوئی اپنی ماں کی قضا دیکھتے دیکھتے نسیم خانم صباؔ کی نظر سماج و معاشرے پر بہت گہری ہے اور وہ ہر ایک کی ذمہ داریوں کو جانتی ہیں اور اسلامی احکام کے تحت زندگی جینا بھی جانتی ہیں اور ااسی احکام کے تحت اپنے سماج و معاشرہ کو دیکھنا بھی چاپتی ہیں لیکن عصری علوم اور فیشن زدہ ماحول نے جو بنت حوا کا حال کیا ہے وہ اس سے دکھی ہیں اور ان کی اصلاح چاہتی ہیں اور اپنے کلام کے ذریعہ بنت حوا کو بیدار کرتی ہیں اور انہیں ان کا سبق پڑھا کر اسلام کے سایہ میں لانا چاہتی ہیں۔بنت حوا بتا فکر تیری ہے کیا اپنے ایمان کا جائزہ لے ذرا ہوکے ملبوس عریاں نظر آؤ تم اور ناز وادا سب کو دکھلاؤ تم یہ سبب ہے عائشہ تم نہیں یہ سبب ہے کہ اب فاطمہ تم نہیں نسیم خانم صباؔ اپنی قوم کے نونہالوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہوتی ہیں کہ اگر قوم کے نونہال چاہیں تو وہ زبر دست انقلاب سکتے ہیں۔انقلاب نو کسی بھی طور لانا ہے تمہیں بن کے سورج علم کا اب جگمگانا ہے تمہیں توڑ کر اب ذہن ودل پہ چھائے سناٹے سبھی ساز دل پر نغمہ توحید گانا ہے تمہیں کرلو روشن مشعل عزم مصمم تم صبا اب جہالت کے اندھیروں کو مناٹا ہے تمہیں  نسیم خانم صباؔ نے مختلف شخصیات کو بھی اپنے کلام کے ذریعہ خراج تحسین پیش کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نسیم خانم صبا کی نظریں انقلابی شخصیات کے کام اور کارناموں پر ہیں اور ان شخصیات کے حوالے سے انہوں نے بڑا مطالعہ کیا ہے اور شاید ایسی ہی شخصیات کے مطالوں نے ان کی زندگی اور شاعری سبھی کو انقلابی ذہن وفکر بخشا ہے۔نسیم خانم صبا نے کامیاب غزلیں بھی کہی ہیں ان کی غزلوں کا وصف رنگ تغزل ہے اور ان کی غزلوں میں یاسیت کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ ہم ہیں خزاں نصیب خزاں ہے ہمارے ساتھدیکھے نہیں ہیں ہم نے کچھ دن بہار کے سچ پوچھیے تو تارے نہیں ہیں فلک  پر دراصل ہیں یہ ٹکڑے دل داغدار کے  نسیم خانم صباؔ اس یاسیت میں بہت زیادہ دیر نہیں رہتیں ۔وہ ایک باحوصلہ اور باسلیقہ وباشعور خاتون ہیں وہ بہت جلد اس ماحول سے نکل جاتی ہیں۔ تاریکیاں کہاں ہیں میرے رہ گزار میں روشن دئیے ہیں اب بھی تیرے انتظار کے  وہ اپنی اپنے غزلوں میں رنگ تغزل کا نرالا انداز پیدا کرتی ہیں اور راہ عشق ووفا کی ابتدا سے خوب واقف ہیںجیسےاپنا جلوہ دکھا گئیں آنکھیں خوب محفل سجا گئیں آنکھیں کچھ نہ کہنے کو رہ گیا باقی سارا قصہ سنا گئیں آنکھیں اے صبا تو نہ پاسکی جلوہ ہوکے نا کام آگئیں آنکھیں نسیم خانم صباؔ اپنی ذات پر مکمل بھروسہ رکھتی ہیں وہ اپنے اعمال کو اپنا سہارا سمجھتی ہیں اور حاسدوں کا بھرپور جواب دیتی ہیں۔دھواں ہمیشہ اگلتے ہیں حاسدوں کے چراغجلائے رکھے ہیں ہم نے بھی حوصلوں کے چراغصبا یقین نہیں تھا مگر مدد کے لیے نکل کے آئے ہیں دریا سے نیکیوں کے چراغنسیم خانم صبا جس انداز میں لکھ رہی ہیں ان کا مستقبل بہت روشن نظر آتا ہے اور امید ہے کہ ان کی ذات آنے والی نسلوں کیلئے نمونہ ثابت ہوگی اور ان کا کلام حوصلہ افزاہوگا۔٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا