موریشس
اردو کا عالمی تناظر ‘اور موریشس کے سفرنامے
قسط اول
۱ جنت نظیر جزیرئہ موریشس
پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین
جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی
۷ صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ پروفیسر اکرام الدین کی قلبی روداد معلوم ہوتی ہے۔ سفرنامے کا آغاز انہوں نے مارک ٹوین کے مشہور قول سے کیا جس کے مطابق ’ خدا نے پہلے موریشس بنایا ، پھر اسی کے طرز پر جنت بنائی۔‘ ((163 اعداد و شمارے، تاریخ اور دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ یہ سفرنامہ ان کے ذاتی تجربے پر بھی مشتمل ہے۔ ایک ایک لفظ ان کے دل سے نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے جس سے ان کی شخصیت بھی سامنے آتی ہے۔
وہ موریشس کی خوبصورتی، بالخصوص ساحلِ سمندر اور جنگل جن میں ’سانپ، بچھو بالکل نہیں اور نہ کوئی درندہ جانور ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ ، سے حددرجہ متاثر نظر آتے ہیں۔ جذئیات نگاری کا سہارا لیتے ہوئے وہ کامیابی سے فطرت کی رنگینیوں کو قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
’پانی کا رنگ بھی کہیں گہرا نیلا تو کہیں بالکل سبز، کہیں پتھریلے ساحل کنارے ہیں تو کہیں ساحل پر ریت کی خوبصورت چادریں بچھی ہوئی ہیں۔‘ (163)
2040 مربع کیلومیٹر پر محیط جزیرئہ موریشس کے قدرتی نظارے، آب و ہوا، بولیاں، تہذیبی وراثت، ثقافتی شناخت، معیشت ،مذاہب اور اقتصادی قوت کا اس سفرنامے میں ذکر کیا گیا ہے۔ اپنے کئی دوروں کے باعث پروفیسر اکرام الدین موریشس کے طرزِ زندگی، سڑکوں کے نظام، اشیاء خوردنی کی دستیابی اور الیکٹرسٹی کی فراوانی جیسی باریکیوںپر اپنے خیالات پیش کرپائے۔ موریشس کی دردناک تاریخ بھی اس سفرنامے کا حصّہ ہے اور اردو کے فروغ اور مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ جیسے معتبر اداروں کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ہندوستان اور موریشس کے باہمی ربط کو پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے ’گھر اور آنگن‘ سے تشبیہ دی ہے۔ اپنی روداد میں وہ کسی کو نہیں بھولے اور اس طرح ان کی انسان دوستی کی فطرت سامنے آتی ہے۔ اہلِ موریشس کے بارے میں وہ رفرماتے ہیں:
’نہایت انکساری اور تواضع سے ملنا جلنا اور ایک دم میں اجنبیت کا مانوسیت میں تبدیل ہوجانا یہاں کی خاصیت ہے۔‘ (163)
اپنی شوخئی تحریر سے وہ قاری کی دلچسپی کو شروع سے آخر تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور واقعات اور کہانیوں کے بیان سے پڑھنے کا لطف دوبالا ہوتا ہے۔ گھر آنگن کے رشتے کی نشاندہی وہ یوں کرتے ہیں۔
’ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ موریشس جاتے ہوئے تمام تیاریاں کر لیں۔ گھر سے نکل بھی گیا۔ راستے میں یاد آیا کہ میں نے پاسپورٹ تولیا ہی نہیں۔‘ (165)
اس سفرنامے میںمنظرکشی کی عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملا جس سے ذہن کے اچانک اس جگہ منتقل ہونے کا گمان ہوتاہے۔ صاف اور رواں زبان کا استعمال بھی اس ضمن میںمعاون و مددگار ثابت ہوا۔
’سورج ڈھل رہا تھا۔ سنہری دھوپ اس منظر کو اور بھی خوشگوار بنا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سورج سمندر میں ڈوبنے والا ہے۔ یہ ساحل کا وہ حصّہ تھا جہاں ایک جانب ریت تھی تو کچھ ہی دوری پر چھوٹے بڑے پتھروں پر ساحلی کنارہ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پتھروں کو بڑے سلیقے سے سجایا گیا ہو۔ ‘(166)
پروفیسر اکرام الدین نے اس سفرنامے میں بطورر بیرون ممتحن اپنا تجربہ بھی شامل کیا ہے اور کانفرنس کی رودادکا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں خواجہ اکرام الدین کی ملنسار شخصیت سامنے آتی ہے۔ آپ لوگوں کے نام نہیں بھولتے، احباب کی صحبت سے لطف اٹھاتے ہیں۔ کہیں کہیں ا ن میں طفلانہ جوش واشتیاق بھی ابھرتا ہے جو قدرت کے قریب رہنے سے انسانی روح پر حیرت انگیز اثرات کے نتیجے سے وارد ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سفرنامہ حقیقت نگاری کا بھی آئینہ دار ہے۔
۲ سر سبز جزیرے میں سات دن
پروفیسر تحسین فراقی
پنجاب یونیورسٹی لاہور ،پاکستان
۲۱ صفحات پر مشتمل پاکستان سے ڈاکٹر تحسین فرفاقی کا سفرنامہ دستاویزی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا سفرنامہ موریشس آنے سے پہلے کی تیاریوں سے شروع ہو جاتا ہے ،جب پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے انہیں فون کے ذریعے کانفرنس کی اطلاع دی۔ ان کی بیٹی حمیرا بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھی۔
پروفیسر تحسین فراقی نے امارات ایرلائنز سے ٹکٹ کا خریدنا، موریشس ہائی کمیشن اسلام آباد میں ویزے کی درخواست اور سفیر سے ملاقات کے مراحل شامل کر کے اپنے سفرنامے کو حقیقت نگاری کا جامہ پہنایا ہے۔ انہوں نے اعداد و شمارے سے منطقی نقطئہ نظر کا سہارا لیا۔ کہیں وہ مارک ٹوین کے قول کو شامل کرتے ہیںتو کہیں اقبال کے اشعارتو کہیں فارسی ضرب الامثال سے اپنے کلام کو زیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ان کے وسیع مطالعے کی دلیل پیش کرتے ہیں۔
رختِ سفر باندھنے سے پہلے وہ جوزف اسٹک لٹز کی کتاب The great divide میں ’موریشس کا معجزہ‘ سے موسوم باب سے استفادہ کر کے موریشس کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لے پائے۔
’۔۔۔براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل میں واقع ماریشس نہ تو امیر ہے نہ معاشی تباہی کے دہانے پر لیکن اس نے پچھلے کئی دہوں سے اپنی متنوع معیشت، اپنے جمہوری سیاسی نظام اور مضبوط معاشرتی تحفظ کا سروسامان کر رکھا ہے جس سے بقول مصنف اور ملکوں کے علاوہ امریکہ بھی سبق لے سکتا ہے! ۔‘ یہاں ستاسی فیصد لوگ اپنا اپنا گھر رکھتے ہیں۔ تیل اور معدونی ذخائر کے بغیر قومی آمدنی۵ فیصد سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ آزادی کے وقت چار سو ڈالر فی کس آمدنی کے مقابلے اب چھ ہزار سات سو ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔‘ گنے کی کاشت پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ’اب وہ سیاحت، سرمایہ کاری، تیکسٹائل اور ترقی یافتہ ٹکنالوجی کے میدان میں قدم زن ہیں۔‘(171)
یہاں کا سرمایہ ان کے لوگ ہیں جو متنوع نسلوں کے باوجود متحد ہیں۔ تعلیم موریشس کے باشندوں کا ہتھیار ہے۔ قومی آمدنی کا تیرہ فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ تیرہ لاکھ کی آبادی کے لئے یونیورسٹی تک کے لئے مفت تعلیم ہے اور اسکول کے بچوں کے لئے ٹرانسپورٹ کا مفت انتظام ہے۔ صحت کی سہولتوں میں جن میں ہارٹ سرجری بھی مفت ہے۔ پروفیسر تحسین فراقی نے ان صورتِ حال کا موازنہ پاکستان میں رائج ناخواندگی، بدنظمی اور ہسپتالوں اور اسکولوں کے بڑھتے ہوئے مسائل سے کیا جس سے ان کی قوتِ مشاہدہ سامنے آتی ہے۔
اس کے بعد و ہ تاریخ و جغرافیہ کی طرف قاری کو متوجہ کرتے ہیں۔ موریشس کو عرب کے جہازراں احمدبن مجید نے دریافت کیا۔ پھر پرتگیزیوں نے راست امید اور ہندوستان کے سفر کے دوران ایک استراحت گاہ کے طور پر استعمال کیا۔
’سولھویں صدی کے آخری دو سالوں میں ولندیزی (ڈچ) یہاں قدم زن ہوئے اور موریشس کے جنوب مشرق کے عالاقے میں اترے۔‘ (172)
آبادکاری، گنے کی کاشت، آبنوس کے قیمتی جنگلوں کو تجارت کی غرض سے ڈچ ایسٹ اندیا کمپنی مڈغاسکر سے غلام لائے۔ جنوب مشرق ایشیا سے سزا یافتہ قیدیوں کو بھی یہاں لانے کا آغاز کیا۔ قزاقوں کے حملوں اور اپنی نااہلی کے سبب اس جزیرے سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔
اس کے بعد فرانسسی استعمار نے جزیرے کا نام ایل دے فرانس رکھا۔ جنگل صاف کئے گئے اور مڈغاسکر اور افریقہ سے ہزاروں غلام لائے گئے۔ برطانیہ نے ۱۸۱۰ئ میں موریشس پر قبضہ کر لیا۔ انگریزی سرکاری زبان بنادی گئی۔ پانچ لاکھ ہندی لائے گئے۔ اس سفرنامے میں مزدوروں پر وحشت، ظلم، بربریت، طویل بغاوتِ کار اور کم اجرت پر ان سے کام کروائے جانے کی بھی تفصیلات ہیں۔
پروفیسر تحسین فراقی جگہ جگہ اپنے آراء سے قاری کو نوازتے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کے خیالات کی بلندی جھلکتی رہتی ہے۔
’ میں سوچنے لگا ولندیزی، فرانسسی اور برطانوی استعمار نے اپنی اپنی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے ذریعے ثقافتی برتری اور وسائل کی لوٹ مار کے لئے باہم پیکار کا جو کھیل بر عظیم میں کھیلا، اسی کھیل کی آماجگاہ خود ماریشس بھی تو رہا۔‘ (173)
اس کے علاوہ مقامی ناول نگار جناب عنایت حسین عیدن کے حوالے سے بھی تاریخی تفصیلات فراہم کی گئیں ہیں۔ آزادی کی تحریک ۱۹۶۸ئ کی آزادی کی ہرتالیں اور جزیرہ چاگوس جو پچاس برس کے لئے امریکہ کو ٹھیکے پر دے دیا گیا اور چاگوس کے جلاوطنوں کو موریشس میں پھینکا جانے کا بھی ذکر ہے۔
جذئیات نگاری اس سفرنامے کا طرئہ امتیاز ہے۔
’پاکستان سے دوبئی اور دوبئی سے ماریشس کی مسافت سات ہزار کلومیٹر ہے۔ دوبئی سے ماریشس کی مسافت پانچ ہزار ایک سو کلومیٹر ہے اور سفر تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔‘
’۔۔۔ جہاز ساڑھے چار بجے سہ پہر رام غلام بین الاقوامی ایرپورٹ پر اترا۔‘
جگہ جگہ شوخی و ظرافت کا بھی سہارا لیا گیا۔
ڈاکٹر شاداب احسانی، معروف گلوکار اور اردو دوست جناب عدیل برکی کی ملاقات پر فرماتے ہیں:
’گویا پاکستان سے ہم چار درویش تھے۔ سوچا ایک ہفتہ اچھا گزرے گا۔‘
پروفیسر تحسین فراقی متجسس نگاہوں سے ہر چیز پر غور کرتے ہیں۔
’ہر طرف سبزہ ہی سبزہ۔ صاف ستھری کشادہ سڑکیں۔‘ (174)
وہ ایک سیاح کی نگاہ سے چیزوں پر غور کرتے ہیں اور حیرت انگیز مسرت سے اپنے نئے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں۔
’نومبر سے موسمِ گرما کا آغاز ہوتا ہے اور اپریل تک رہتا ہے۔ مئی سے اکتوبر تک سردیوں کا موسم ہوتا ہے۔ یا للعجب درجہء حرارت ۱۷ سے ۲۳ سنٹی گریٹ تک رہتا ہے۔‘ (175)
مکالموں کی مدد سے تحریر میں جان آگئی ہے۔ آپ طرح طرح کے جذبات و احساسات سے قاری کو روشناس کراتے ہیں جن میں ادبی حلقوں سے ملنے کا اشتیاق بھی ہے۔ انہیں بات سے بات نکالنے کا ہنر آتا ہے۔
’۔۔۔علاقے کا نام قاتربون ہے۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ یہ نام سنا سنا ہے۔ پھر یاد آیا کہ ماریشس کے اخباری سائز کے ماہنامے ’صدائے اردو‘ میں اس علاقے کا ذکر کئی دفعہ پڑھا تھا۔ یہ ماہنامہ ایک زمانے میں میرے نام آیا کرتا تھا۔ اسی میں ماریشس کی متحرک ادبی اور علمی تنظیم اردو اسپیکنگ یونین کا ذکر پڑھا کرتا تھا جس کی دعوت پر اس وقت ہم ماریشس میں موجود تھے۔‘ (175)
پروفیسر تحسین فراقی ہر چیز کا حق ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’یونین کے سابقہ اور موجودہ وابستگان خصوصاً شہزاد عبد اللہ صاحب کے لئے دل سے دعا نکلی جنھوں نے اس دور دراز قریے میں اردو سے محبت کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔ یونین کے تحت عید میلاد، یومِ اقبال اور اردو کے مسائل، امتیازات اور امکانات پر عالمی سطح کی کانفرنسیں اور مسلسل ادبی و علمی اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔ آج کی تیسری عالمی اردو کانفرنس بھی اسی روایت کا حصّہ تھی اور اس کا مرکزی عنوان بڑا ہی فکر افروز تھا: ’عالمگیریت کی موجودہ صورتِ حال اور اردو کی معنویت۔‘ (176)
موریشس کے تکثیری معاشرے کی نشاندہی سینٹ جارج کا چرچ، نیو اپوسٹولک چرچ، مہاکالی درگا ماتا مندر اور ایک نہایت بلند مینار، سبز اور سفید رنگوں میں لپٹی خوبصورت جامع مسجد سے کرتے ہیں ۔
’قابلِ مبارکباد ہے وہ قریہ جہاں ہر رنگ، نسل، عقیدہ اور ایقان کے لوگ اپنے اپنے مذہبی عقائد سے پوری وابستگی کے باوجود صرف ایک وحدت کے قائل ہیں: احترامِ انسانیت۔‘ (176)
کانفرنس کی روداد بیان کرتے ہوئے سفرنامے پر رپورٹ اور رپورتاز کا گہرا رنگ چڑھتا ہے۔ تمام تفصیلات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تمام مندوبین، رضاکاروںکے نام، مقالوں کے عنوانات اور کانفرنس کی کاروائیاں بیان کی گئی ہیں۔ کئی جگہوں پر تقابلی جائزے بھی ہوئے۔
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ برِعظیم میں سو سے زائدمقالے پڑھے جاتے ہیں۔ مقالہ خواں کو پانچ پانچ، سات سات منٹ کا وقت دیا جاتا ہے اور بحث ومباحثہ کے لئے تسلی بخش وقت نہیں رہتا۔ لیکن موریشس کی کانفرنس میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔
اس کے بعد پروفیسر تحسین فراقی نے چنندہ مقالوں کا ذکر کیا جو ان کو قابلِ سائش لگے۔ ان میں ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین اور ڈاکٹر شافع قدوائی کی جدید ٹکنالوجی پر نقطئہ نظر تھے۔ موریشس میں اردو کے آغاز و ارتقاء پر مبنی ڈاکٹر ریاض گوکھل کے مقالے کا خلاصہ شامل ہوا۔ اردو مدرسے سے نکل کر اب پی۔ ایچ۔ڈی تک پڑھائی جاتی ہے اور یہاں ڈرامے، افسانے اور ناول بھی لکھے جاتے ہیں۔ حاضرین کی شرکت شروع سے آخر تک رہی۔ پروفیسر تحسین فراقی نے اپنے مقالے میں زور دیا کہ علومِ فطری، علومِ انسانی اور علومِ مہندسی کی تعلیم اردو میں دی جانی چاہئے۔
شام کو ثقافتی پروگراموں کی روداد بھی پیش کی گئی اور مشاعرے میں پڑھے جانے والے اپنے اشعار کو سفرنامے میں جگہ دے کر اس کو ایک منفرد رنگ بخشا۔
یہ کیسی یاد ہے بھاتی بھی ہے رلاتی بھی ہے
ہوا دیے کو جلاتی بھی ہے بجھاتی بھی ہے
(182)
نیز انہوں نے یہاں کے ماحول سے متاثر ہوکر اپنی ’ پہلی اور شایدآخری‘ نثری نظم بعنوان ’پرندے کتنے اچھے ہیں‘ تحریر کی۔
سفرنامے میں کئی یادگار لمحات مقید ہیں۔ جناب رئوف بندھن کا ذکر احترام سے کیاگیا جنھوں نے اختتامی تقریب میں خطاب کی اورآزادی کی تقریب میں بھی شرکت کی۔ مشہور ہندی مصنف ابھی منیو اننت کے ناول ’لال پسینہ‘ کا بھی تذکرہ ہوا۔
کانفرنس کے بعد اہم اداروں کی سیر کا ذکر کیا گیا جن میں مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ، ماریشس یونیورسٹی، اسلامک کلچرل سینٹر اور ساحلوں کی سیر اور ایم۔ جی۔آئی کے آرکائیو جس میں لاکھوں مزدوروں اور غلاموں کے کوائف کا ریکارڈ محفوظ ہے۔
ماحولیات پر اپنی فکر پیش کرتے ہوئے سفرنامہ الگ رخ لیتا ہے۔ سفرنامے میں بحرِ ہند کی مچھلیاں، ویل جو لمبا سفر طے کر کے ماریش کے گرم پانیوں میں سکونت اختیار کرتی ہیں اور یہاں آکر بچے دیتی ہے، بحری کھیرا اور سمندری کائی جو دنیا بھر کے تمام درختوں سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتی ہے، کی تفصیلات درج ہیں۔ ایسی معلومات سے سفرنامہ پرکشش بن گیا ہے۔ نیز وہ معدوم شجرکاری کا ماتم مناتے ہیں۔ پرندوں کا ذکر بھی ہوا ہے: شکرا، سبز رنگ پاراکیٹ، چمگادڑ، سبز رنگ کا بگلا اور بلبل۔ سبز رنگ بگلا کو دعا دیتے ہوئے کلام میں شوخی و ظرافت پیدا کرتے ہیں۔
’خدا اسے حفاظت سے رکھے، لمبی عمر دے اور پوتوں، نواسوں کی صورت میں اس کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے۔‘(187)
ولندیزیوں کی وجہ سے معدوم ہونے والے پرندے کے بارے میں طنز و مزاح کا نمونہ پیش کرتے ہیں:
’اس زمانے میں ماریشس کے جنگلوں میں کوئی سلمنگ سنٹر بھی تو نہیں تھا لہٰذا موصوف کا وزن بڑھتے بڑھتے تیئس چوبیس کلو ہوگیا تھا۔ ولندیزیوں کی رال ٹپکی تو اس سرزمیں آتے ہی وہ اس بے پرواز مخلوق پر پل پڑے۔ رہی سہی کسر ان کے ساتھ آئے ہوئے کتّوں، بندروں اور چوہوں نے نکال دی۔‘(186)
سفرنامے میں خونصورت ذخیرئہ الفاظ کے برجستہ استعمال سے فکر وخیال کے کئی علمی، ثقافتی اور نفسیاتی نکتے عمدگی سے پیش کئے گئے۔ کہیں کہیں کہانیوں کی مدد سے اپنی بات قاری کے دماغ پر ثبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گنگا تلائو کی کہانی اور سید جلال شاہ کے دفن ہونے کا قصّہ سفرنامے کے محاسن میں اضافہ کرتا ہے۔
سفرنامہ ’سرسبز جزیرے میں سات دن‘ پروفیسر تحسین فراقی کے لئے ایک خوشگوار خواب تھا۔ مقامی اور بین الاقوامی ماہرین سے حسین ملاقاتیں، موریشس کی تاریخ و جغرافیہ، یہاں مسلمانوں کے طرزِ زندگی اور پروفیسر تحسین فراقی کے تاثرات، احساسات اور نظریات دلچسپی کا سامان مہیا کرتے ہیںاور وہ بحسن و خوبی ان تمام محسوسات کو قاری کے ذہن میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
’دل و دماغ کو تازگی اور تازہ کاری کی غذا ملی۔ اردو کے عظیم زبان ہونے کا نقش دل پر اور گہرا ہوا۔‘ (189)