بڑھتی ہوئی آبادی اور بچوں کو پڑھانے کے رحجان کی جہ سے گا ئو ں کے لوگو ں نے قصبہ جات وشہروںکا رخ کیااور قصبے کی آبادی میںدن بدن اضافہ ہواجو صرف عوام نے صرف تعمیرات تک سوچ محدود رکھی لیکن عوام اور احکام دونوں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ مرنے والے افراد کی رہائش بھی ہوتی ہے جسے قبرستان کہتے ہیں۔بچوں کی نشونما کیلئے تفریح اور تازہ ہوا کے حصول کے لئے پارک کی بھی ضرورت ہے ۔عوام روزانہ کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ گنجان آبادی میں تبدیل ہوچکے قصبہ جات کی حدود میں گاڑیوں کی پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے عام انسان کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ آبادی لاکھوں نفوس سے تجاوز کر چکی ہے بظاہر جہاں اتنی آبادی ہو تو وہاں گاڑیوں تعداد میں اضافہ ہونا ممکنہ عمل ہے ،جموں صوبہ کے ہرعلاقہ میں وذیلی خطے میں ایک سی صورتحال ہے،کشتواڑ، بھدرواہ، ڈوڈہ، رام بن، بانہال، گول، درماڑی، راجوری، بدھل، سرنکوٹ، پونچھ شہرکے ملحقہ علاقہ جات ، مینڈھر،جیسے علاقے بڑے شہروگنجان آبادی والے علاقوں میں تبدیل ہوچکے ہیں،ہرجگہ سب چھوٹی بڑی گاڑیوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے ،بنکوں کی مہربانی سے ہرکوئی حیثیت سے بڑھ کربھی گاڑی خریدنے میں پیچھے نہیں رہتا، قرضہ جات اورآسان اقساط پر گاڑٹی لے لیتے ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ ہرقصبہ میںگاڑیوں کی تعداد میں ہمہ وقت اضافہ ہوتارہتا ہے یہاں تک کے اگر کسی بیمار کو بغرض علاج ہسپتال لے جانا مطلوب ہو تو شہر کی حدود میں گاڑیوں کے جام اور غیر ضروری پارکنگ کی وجہ سے گھنٹوں کا وقت ضائع ہو جاتے ہے جس کی وجہ سے بیمار انسان اور سکول جانے والے طلبہ کو بیحد پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے،گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان قصبہ جات کی حدود میںمتبادل سڑکیںتعمیرہوناانتہائی لازمی ہو گیا ہے تاکہ جام کی وجہ سے عام انسان کی زندگی میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیںاور عوام اپنی ضروریات زندگی کو باا ٓسانی پورا کر سکیں۔بے ہنگم تعمیرات کے سلسلے پربریک لگنی چاہئے باضابطہ منصوبہ بنایاجاناچاہئے، نقشے وغیرہ بناکرکسی علاقے میں تعمیرات کاسلسلہ ہوناچاہئے تاکہ آنے والے وقت میں لوگوں کوسہولیات بہم پہنچانے میں اوراپنی زندگی بہترماحول میں گزارنے میں کوئی مشکل نہ آئے، اس پرجہاں انتظامیہ وہیں عام لوگوں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔