محمد شاہ نواز عالم ندوی، موبائل: 9590555851
مسلمانوں کی اکثریت نے آج عموماً یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ حامی وناصر ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا اﷲ کی مدد ونصرت صرف اس بنیاد پر ہوگی کہ اس کے دل میں ایمان ہے (جبکہ وہ ایمان بھی ایمانیات کے تقاضوں سے بالکل خالی ہے) یا اس بنیاد پر کہ وہ نمازوں کے پابند ہیں اور اگر اﷲ نے مال دیا ہے تو زکوٰۃ اداکردیتے ہیں اور ہر سال حج وعمرہ کی ادائیگی کے لئے رخت سفر باندھ لیتے ہیں،رمضاں کے روزے رکھ لیتے ہیں؟ جبکہ تجزیوں اور مشاہدات سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مذکورہ عبادتوں کی پابندی نہیں کرتی ہے اور جو کر بھی رہے ہیں ان کی عبادتیں یونہی سی ہوکر رہ گئی ہیں۔ بہر حال مان بھی لیا جائے کہ عبادتیں ہم مکمل کررہے ہیں اور عبادتوں کے معاملہ میں ہم اﷲ کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔ اس لئے ہم محفوظ ہیں اور اﷲ ہمارا حامی وناصرہے اور ہوگا تو شاید یہ ہماری خام خیالی ہے، کیوں کہ مدد ونصرت صرف عبادتوں اور ایمان کی بنیاد پر نہیں ہواکرتی ہیں۔ توکل گھوڑے باندھ کر کئے جانے چاہئے نہ کہ گھوڑے کو بے لگام چھوڑ کر، دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی متعدد شرطیں ہیں ان میں اہم ترین شرط پہلے اقدام، اعمال اور سعی ہے۔ بغیر اقدام دعائیں نہیں قبول ہوتیں اور یہ توکل علی اﷲ کا غلط مفہوم ہے۔ اس سلسلہ میں سیرت نبویؐ کے ان پہلوؤں کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے کہ نبی اکرمؐ نے توکل علی اﷲ اور دعاؤں کے اہتمام سے قبل تدابیر کی ہیں، اقدامات کئے ہیں۔ اس طرح کی مثالوں سے تاریخ اسلامی بھری ہوئی ہے، جس کے لئے اسلامی تاریخ اور سیرت نبویؐ کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے۔ ہم اپنی بات کے ثبوت کے لئے چند مثالیں پیش کئے دیتے ہیں۔ جنگ بدر: ہجرت مدینہ کے بعدجبکہ ابھی اسلام اور مسلمانوں کو استقلال بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ اسلام اور کفر کی اولین جنگ مقام بدر میں ۱۷ رمضان المبارک سنہ ۳ ہجری میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں نبی اکرمؐ کے ساتھ اسلامی سپاہیوں کاکوئی جم غفیر نہیں تھا صرف313؍ افراد پر مشتمل ایک ایسی فوج تھی جن کے پاس نہ ڈھنگ کے ہتھیار تھے اور نہ ہی ڈھنگ کی سواری۔ لیکن اس کے باوجود نبی کریم، رحمۃ اللعالمینؐ نے اس مٹھی بھر جماعت کو جنگ لڑنے پر آمادہ کردیا، حالانکہ نبی اکرمؐ کو معلوم تھا کفار کی جانب سے میدان جو فوج آرہی ہے وہ اس وقت کے مطابق ایک لشکر جرار ہے، جس کاذکر خود نبی اکرمؐ نے اس موقع پر کی گئی دعا میں کیا ہے۔ ’’اے اﷲ یہ ہماری پوری پونجی ہے جو ہم نے تیرے سامنے ڈال دی ہے، اگر یہ ہلاک ہوگئے تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہوسکے گی۔‘‘ واقعات جنگ بدر سنانا ہمارا مقصد نہیں، ہم تو صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی قلیل تعداد جس کے بارے میں خود نبیؐ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہلاک ہوگئے تو اللہ کی عبادت نہیں ہوپائے گی، اس کے باوجود رسول اکرمؐ نے جنگ میں ان کو پیش کردیا۔ اس کے بعد اللہ پر بھروسہ یا دعاؤں کا اہتمام کیا۔ تاریخ اسلام میں ایک دوسرا واقعہ جنگ خندق کا ہے، پہلے نبیؐ اکرمؐ نے خندق کھدوائی اس کے بعد توکل علی اﷲ کی تعلیم دی۔ بغیر خندق توکل کی تعلیم نہیں دی۔ یہی نہیں اس طرح کے سینکڑوں واقعات سیرت رسول اکرمؐ میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ لیکن آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی حفاظت اور نسلوں کی بقا کے لئے ہر طرح کی کوششوں سے گریزاں صرف دعاؤں کی تلقین کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگر دعاؤں اور توکل علی اﷲ سے ہی کام چل جاتا تو سید المرسلین، امام الأنبیاء کو جنگوں میں کیوں ڈھکیلا جاتا، مکی زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کیوں کرایا جاتا۔ صحابہ کرامؓ کو تکلیفوں سے کیوں گزارا جاتا؟ ہم نے اپنی بقاکے لئے اپنی تمام تر توجہ اس وقت صرف اور صرف دعاؤں اور توکل علی اﷲ پر مرکوز رکھی ہے اور بعد ازاں جب ہم پر کہیں کوئی ظلم ہوتا ہے تو ہم شکوہ کناں ہیں کہ رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پرتدابیر اور اقدمات: دراصل اﷲ کا قانون ارضی یہ ہے کہ رحمتوں اور برکتوں کا مستحق اﷲ اس قوم کو بناتا ہے جس میں انسانوں اور اﷲ کے مخلوق کے تئیں ہمدردی، انسانیت ہوتی ہے۔ جن کے معاملات دوسروں کے ساتھ انتہائی عدل وانصاف پر مبنی ہوتے ہیں۔ دھوکہ دہی کی خوگر، انسانیت دشمن اور عدل وانصاف سے دور قوموں پر رحمتوں کا نزول نہیں ہوتا، علاوہ ازیں مددونصرت بقاء امت کا انحصار ان کی جانب سے کی گئی تدبیروں اور ان کے اقدامات پر ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے۔ عیسائیوں کی تاریخ ہم سے کوئی دور نہیں اگرچہ کہ اس وقت اس کی دھوم ہے۔ لیکن ماضی کی تاریخ میں اس قوم کو ایک فرسودہ نظام اور زوال پستی سے دوچار قوموں کی تاریخ میں یاد کیاگیاہے۔ اس لئے ہمیں اپنے تحفظ اور بقا کے لئے جو مواقع میسر ہیں ان کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں اور تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔شہریت ترمیمی بل اور این آر سی: مذکورہ باتیں ہم نے اس ضمن میں لکھنے کی کوشش کی ہے کہ فی الوقت ملک ووطن کی فضا انتہائی مسموم ہورہی ہے اور کسی حد تک ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم سازش کی جاچکی ہے اور اس پر عمل درآمد تقریباً شروع ہوچکاہے۔ مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور اس ملک سے اس کی شہریت کو کالعدم کرنے کی کوششیں پوری زوروشور کے ساتھ چل رہی ہے۔ لیکن مسلمان غفلت کی انتہائی دبیز چادر تلے گہری نیند سورہے ہیں۔ ان کو جو بدابیر کرنی چاہئے تھیں جو اقدامات کئے جانے چاہئے تھے اس کا شعور تک نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ غور کیا جانا چاہئے کہ وہ کیا سبب ہے جس کی بنا پر ماحول کو مسلم مخالف بنایا جارہاہے اور مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟اس سبب کو ڈھونڈیں اور واقعتا ہم اس ملک کے لئے بوجھ ہیں تو اس خامی کو ختم کریں۔ اور اگر ہمارے ایمان واسلام کی بنا پر آزمائش ہورہی ہے تو استقامت کا مظاہرہ کریں، اور ایمان واسلام کی تجدید کریں۔ بندگان خدا تک پیغام الٰہی کو پہنچانے کی عظیم کوشش وجدوجہد کی جائے۔اقامت وغلبۂ دین کی اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ اپوزیشن اور حکمران طبقہ دونوں ہمارے مدعوہیں کسی ایک کے ساتھ بھی امتیازی سلوک داعیانہ کردار کو بے فیض اور ختم کرسکتاہے۔ دونوں کو مخاطب کریں۔ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو بکھرنے نہ دیا جائے، تفرقہ وانتشار کے خاتمہ کی کوشش کی جائے۔ ان تدابیر سے مسائل حل نہ ہوتے نظر آئیں تو اسوۂ نبویؐ اور تعلیمات قرآنی ’’اعدوا لھم مااستعطعتم…‘‘ اور’’ أذن للذین یقاتلون بأنھم ظلموا‘‘کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے اور مزید غور کیاجائے۔(یو این این)