عبدالحی،شاہین باغ،
نئی دہلی کتاب نما کی تاریخ اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالنے سے قبل مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی تاریخ پر نظرڈالنا ضروری ہے کیونکہ کتاب نما کے ارتقا اور اس کے رسالے کی شروعات کن محرکات کے تحت ہوئی ان کا جاننا ضروری ہے۔ مکتبہ جامعہ کی شروعات 1922 میں ہوئی تھی۔ شروعاتی دور میں مکتبہ ایک شعبے کے طور پر کام شروع کیا لیکن بعد میں اسے لمیٹڈ کمپنی کادرجہ دے دیاگیا۔ مکتبہ نے اشاعت اورتالیف کا اتنا کام انجام دیا ہے کہ جس کے لیے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کی ترقی میں اس کانام ہمیشہ لیاجاتا رہے گا۔ مکتبہ نے شروع ہونے کے ساتھ ہی ساتھ اردو زبان میں مختلف موضوعات پر کتابیں شائع کرنی شروع کیں۔ جامعہ ملیہ کے دلی منتقل ہونے کے بعد جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکرحسین نے مکتبہ سے دیوان غالب شائع کر وایاتھا۔ مکتبہ جامعہ سے ترجمے کے بھی کئی اہم اورقابل قدر کام انجام دیے گئے ہیں۔ مکتبہ جامعہ نے سستی اور کم قیمت پر کتابوں کی اشاعت کاکام شروع کیا جس سے بہت ساری کارآمد کتابیں منظر عام پر آئیں۔ مکتبہ جامعہ سے 1930 اور 1940 کی دہائی میں شائع ہونے والے اہم قلمکاروں میں مولانا اسلم جیراج پوری،ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عابد حسین، جناب سعید انصاری، ڈاکٹر عبد العلیم مرحوم، ڈاکٹر خالدہ ادیب خانم وغیرہ کانام قابل ذکر ہے۔ مکتبہ جامعہ نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اپنا ماہنامہ رسالہ بھی شروع کیا۔ 1926 میں بچوں کا رسالہ پیام تعلیم شروع کیاگیا تھا۔ 1947 تک مکتبہ جامعہ نے مختلف موضوعات پرتقریبا 500کتابیں شائع کیںتھیں۔ 1947میں ملک کی تقسیم اور ہندوستان کی آزادی کے وقت رونما ہونے والاقہر مکتبہ جامعہ پر بھی نازل ہوا اور اس کا ایک بڑا سرمایہ تباہ ہوگیا۔ مکتبہ کا دوسرا دور 1950 سے شروع ہوتا ہے اسی سال مکتبہ جامعہ کو ایک لمٹیڈ کمپنی کی حیثیت دی گئی۔ 1950 میں مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نے نئے سرے سے تقریبا 300کتابیں مرتب کرکے شائع کردی تھیں۔ مکتبہ جامعہ کے پہلے منیجنگ ایڈیٹر حامد علی خاں تھے۔ انھوں نے مکتبہ جامعہ کو نئی شناخت دینے میں اہم رول ادا کیا۔ حامد علی خاںکے بعد مکتبہ کی ذمے داری غلام ربانی تاباں کو سونپی گئی۔ انھوں نے بچوں کا رسالہ پیام تعلیم دوبارہ نئے جوش کے ساتھ شائع کیا اورایک نیا ادبی علمی رسالہ کتاب نما کے نام سے شروع کیا۔ غلام ربانی تاباں کے بعد شاہد علی خاں نے مکتبہ کی کمان سنبھالی اورتقریبا تیس سال تک اس سے جڑے رہے۔ تیس برسوں میں انھوں نے مکتبہ کو اپنی انتھک کوششوں اپنی سمجھ اورعقل وفراست سے اردوزبان وادب کا ایک عظیم اشاعتی مرکز بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وقت اورحالات کے ساتھ ساتھ مکتبہ بھی نشیب وفراز سے گزرتارہاہے لیکن آج بھی ہرسال تقریبا 100سے زیادہ کتابیں مکتبہ سے شائع ہورہی ہیںشاہد علی خاں نے 2006 میں مکتبہ کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کے بعد مکتبہ جامعہ کی حالت تھوڑی خراب تو ہوئی ہے لیکن اب بھی یہ ایک اہم اشاعتی ادارہ ہے۔ مکتبہ کی خستہ حالت پر ایک سمینار میں ڈاکٹر انوار احمد پاشا نے کہا کہ ایک ایسا اشاعتی ادارہ جس نے آزادی سے قبل اور اس کے بعد اردو زبان وادب اوردوسرے موضوعات پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد شائع کی ہے اس کی ایسی حالت کیوں ہوئی اور ان حالات کے لیے کیا وجوہات ہیں اور مکتبہ کی حالت کو درست کیسے کیا جائے۔ ان تمام معاملات پر آگے بڑھ کر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد مکتبہ کو نئے سرے سے فعال بنانے کی کوشش کی جائے۔ مکتبہ جامعہ کو اور بہتر بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں اورآنے والے وقت میں مکتبہ جامعہ یقینا اپنی پرانی شناخت حاصل کرلے گا۔ ماہنامہ کتاب نما کی شروعات یوں تو آزادی سے قبل ہوئی تھی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر اس رسالے کو بند کردیاگیا تھا۔ اس رسالے کی دوبارہ شروعات جون1960 سے ہوئی تھی۔ اس کے پہلے مدیر ریحان احمد عباسی تھی اورنگراں غلام ربانی تاباں تھے۔ کتاب نما کے آزادی سے قبل شروع ہونے اور اس کے دوسرے دور کے بارے میں مارچ 1965 کے شمارے کے اداریے میں بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔جنوری 1964 تک کتاب نما کا اداریہ بغیر عنوان کے شائع ہوتا رہالیکن فروری 1964 میں اداریے کو اشاریے کے نام سے لکھا جانے لگا۔ ماہنامہ کتاب نما کی شروعات خالصتاً ادب کی خدمت کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اس رسالے کے صفحات سب کے لیے یکساں طور پر وقف تھے۔ ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ ساتھ جدید تر رجحانات سے متاثر قلمکاروں کی نگارشات بھی کتاب نما کاحصہ بنتی رہی ہیں۔ کتاب نما میں سب سے زیادہ توجہ مکتبہ جامعہ اور جامعہ ملیہ سے متعلق خبروں کو دی جاتی تھی۔ کتاب نما میں شروع کے اداریوں کو دیکھنے سے ظاہرہوتا ہے کہ زیادہ تر اداریوں میں کوئی نہ کوئی اطلاع دی گئی ہے۔ مئی 1964 میں غلام ربانی تاباں کتاب نما کے منیجنگ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل ان کانام کتاب نما میں بطور نگراں شائع ہوتا تھا۔ ماہنامہ کتاب نما دوسرے تمام رسائل کے برخلاف چھوٹے کتابی سائز میںشائع ہوتا تھا لیکن اس چھوٹے سائز میں بھی یہ رسالہ دوسرے رسالوں سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا۔ اس رسالے کے موجودہ مدیر اور مکتبہ کے ڈائرکٹر نے اس رسالے کے سائز کو بڑھا کر عام رسالوں جیسا کردیا ہے۔ 1971میں ادارت کی ذمے داری ولی شاہجہاں پوری نے سنبھالی اور منیجنگ ایڈیٹر شاہد علی خاں مقرر ہوئے۔ شاہد علی خاں اس سے قبل ممبئی میں مکتبہ جامعہ کی شاخ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ کتاب نما کے خاص نمبروں کی اپنی الگ شناخت رہی ہے۔ کتاب نما نے خاص نمبر اس طرح مرتب کیے ہیں کہ وہ کوئی رسالہ نہ بن کر ایک مخصوص موضوع یا شخصیت پر مکمل کتاب یا دستاویز بن گئی ہے۔ کتاب نماکے خاص نمبروں میں گو پی چندنا رنگ نمبر،مولانا عبدالوحید صدیقی نمبر اور خلیق انجم نمبر وغیرہ قابل ذکرہیں۔ مئی 1976 میں’’ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اردوتحقیق ‘‘پرایک خاص شمارہ شائع ہواتھا۔ یہ شمارہ اپنے موضوع کے اعتبارسے بالکل منفردتھا۔ اس شمارے میں ہندوستان میںتمام اہم یو نیورسٹیوںمیںاردو تحقیق اوران کے موضوعات کی پوری تفصیل دی گئی ہے۔ یہ شمارہ سیدفرحت حسین سے مرتب کیاتھا۔ اس ضخیم اور منفر د خصوصی نمبرکے اداریے میں سیدفرحت حسین نے اس نمبرکی ضرورت اورمقاصد پرروشنی ڈالی ہے۔ انھوںنے اس بات پرگفتگو کی ہے کہ ہندوستان کی یونیورسیٹیوں میں ہونے والی تحقیق کا کیامعیار ہے اور یہ کہاں تک اردو ادب اورزبان کی ترقی میں معاون ثابت ہورہی ہیں۔ اگست 1976 کاشمارہ خواتین کے افسانوں پر مشتمل خصوصی نمبر تھا جسے صغریٰ مہدی نے مرتب کیاتھا۔ یہ شمارہ 100صفحات کاتھا۔ کتاب نما نے آغاز سے ہی نئی ٹکنالوجی اور آفسٹ مشینوں کا استعمال شروع کردیا تھا۔ جنوری 1965 کے اداریے میں لبرٹی آرٹ پریس کے افتتاح اور اس کی افادیت پر اداریہ لکھاگیا تھا۔ اس آر ٹ پریس کو مکتبہ جامعہ نے خریداتھا اور اس میں ایک آٹومیٹک آفسٹ مشین کا اضافہ بھی ہواتھا۔ افسوس کامقام یہ ہے کہ اب یہ آفسٹ مشین بند پڑی ہے اور وہاںمکتبہ جامعہ کا کام نہیں ہوتا۔ کتاب نما میں جائزے کے عنوان سے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ ادبی خبریں کالم کے تحت مختلف ادبی سرگرمیوں کے تعلق سے دی جاتی ہیں۔شروعاتی دور میں ادبی خبریں ظل عباس عباسی مرتب کرتے تھے۔ کتاب نما کے مختلف شمارے مشترکہ بھی شائع ہوئے ہیں۔ جیسے اکتوبر نومبر 1979 کاشمارہ مشترکہ شائع ہوا ہے اس سے قبل ستمبر اکتوبر 1969 کا شمارہ بھی مشترکہ شمارہ تھا۔ کتاب نما نے فروری 1979 میں نہرو نمبر شائع کیا ہے۔ اس سے قبل مارچ 1969 میں غالب سے متعلق دستیاب کتابوں پر مشتمل ایک شمارہ شائع ہواتھا۔ جنوری 1976 میں مولانا مہر محمد خاں شباب مالیر کوٹلوی نمبرشائع ہواتھا۔ اپریل 1978 میں’اردوادب 1976-77 میں‘ شائع ہواتھا۔ جسے محمو د عالم نے مرتب کیا تھا۔1981 میں دھنپت رائے نواب پریم چندنمبر شائع ہوا۔ مرتب کردہ پروفیسر عبدالقوی دسنوی۔ 1981 میں ہی ڈاکٹر سید عابد حسین نمبر شائع ہواتھا۔ جسے ڈاکٹر صغریٰ مہدی نے مرتب کیا تھا۔ کتاب نما میں کبھی کبھی اشاریہ بھی شائع ہوتارہاہے۔ جیسے اپریل 1978 میں اگست 1976 سے دسمبر 1977 تک شائع کیے گئے کتاب نما کے مضامین کا اشاریہ شائع کیاگیا ہے۔ جولائی 1978 میں مشرقی علوم والسنہ پر تحقیق مرتب ڈاکٹر سید حامد حسین،1978میں ہی ایک خصوصی شمارہ شائع ہواتھا۔ جس کا موضوع تھا اقبال جامعہ کے مصنّفین کی نظرمیں۔ اسے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے مرتب کیا تھا۔ ستمبر 1977 میں مرزا دبیر نمبر شائع ہواتھا۔یوں تو کتاب نما کے خصوصی نمبر بے مثال ہیں لیکن کتاب نما کے خصوصی گوشوں کا بھی جواب نہیں۔ دسمبر 1988 میں گوشہ انورسدید شائع ہوا، جنوری 1990 میں گوشہ مرزا ادیب، فروری 1990 میںگوشہ وامق جونپوری شائع ہواتھا۔اگرخاص نمبروں کی بات کریںتو نومبر 1990 میںعلی سردار جعفری نمبر۔ جون 1991 میں ڈاکٹر خلیق انجم نمبرشائع ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ کتاب نما کے اہم خصوصی نمبروں میں، وہاب اشرفی نمبر، مولانا عبدالوحید صدیقی نمبر،ڈاکٹر عابد حسین نمبر، قرۃ العین حیدر نمبر، گوپی چند نارنگ نمبر، پروفیسر آل احمد سرور نمبر، پروفیسر نثاراحمد فاروقی نمبر، خواجہ حسن نظامی نمبر، عابد علی نمبر، خواجہ احمد فاروقی نمبر قابل ذکر ہیں۔ جیسا کہ پہلے لکھاجاچکا ہے کہ کتاب نما کے صفحات ہرطرح کے قارئین کے لیے کھلے رہتے تھے اور قاری اپنی رائے بلا جھجک دیتاتھا اور اسے من وعن شائع کیا جاتاتھا۔ کتاب نما اس معاملے میں بھی منفرد ہے کہ اس میں کافی نئے نئے کالموں کو وقت اورحالات کی مناسبت سے شروع کیا جاتارہاہے۔ جون 1971 سے ایک نیا کالم حاصل مطالعہ شروع کیاگیا تھا۔کتاب نما کا یہ کالم حاصل مطالعہ اپنی منفرد رایوں اور تجزیوں کی وجہ سے کافی مقبول ہوا ۔ کتاب نما میں کبھی کبھی اداریے بھی نہیں شائع ہوئے ہیں پہلے پہل اداریہ بلاعنوان شائع ہوتاتھا بعد میں اسے اشاریے کانام دیاگیا۔ شاہدعلی خان کے ادارت سنھالنے کے بعد اسے اپنی بات کے عنوان سے لکھا جانے لگا ماہنامہ افکار کراچی کے مہمان اداریے کی طرز پر دسمبر 1987 سے ایک بالکل نیا اور اچھوتا طریقہ اپنایا گیا اور اس شمارے سے اداریہ مہمان مدیر ترتیب دینے لگا۔ بطور مہمان مدیر ماہنامہ کتاب نما کا پہلا اداریہ پروفیسر آل احمد سرور نے لکھاتھا اور پہلا اداریہ اردو زبان اور اردو ادب کے موضوع پر تحریر کیاگیاتھا۔ ماہنامہ کتاب نما کے مہمان مدیر کا اداریہ اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ صرف اس اداریے کو پڑھنے کے لیے لوگ کتاب نما کے خریدار بنے۔ کتاب نما میں بطور مہمان مدیر اداریہ لکھنے کے لیے ہرمکتبہ فکر اور اردو ادب وزبان تعلیم وصحافت کی قابل قدر شخصیات کی نگارشات حاصل کی گئیں اورانھیں کتاب نما کے صفحات میں جگہ دی گئی۔ ماہنامہ کتاب نما نے مہمان مدیر کا اداریہ شروع کرکے ایک نئی روش قائم کی اور اس سے ایک ہی جیسی تحریروں اورموضوعات سے لوگوں کو چھٹکارا ملا۔ مہمان مدیر کے اداریے میں اردو تعلیم،تعلیم نسواں،اردو ادب اورزبان، اردو صحافت، اردو اخبارات کے مسائل، اردو رسائل کے مسائل، جیسے اہم موضوعات پر اداریے تحریر کیے گئے۔ماہنامہ کتاب نما کے سرورق پر 1978 سے یہ جملہ شائع ہونے لگا نظریاتی تنازعوں کے دور میں ایک غیر جانب دارانہ روایت کا یقین۔ ا س کے علاوہ اس دور کے کچھ شماروں کے سرورق پر کتاب نما کے موضوعات کے عنوانات شائع کیے جاتے تھے۔ تنقیدیں، تجزیے، سفرنامے، انشائیے، تبصرے، کہانیاں اور ادبی خبریں۔ کتاب نما کے شمارے دیکھنے سے ایک بات اور سامنے آئی کہ کبھی کبھی اداریہ شمارے کے آخر میں شائع ہوا ہے۔ جیسا کہ مارچ 1988 کے شمارے میں اداریہ شمارے کے آخر میں صفحہ 95پر شائع کیاگیا ہے۔ جون 1988کے اداریے اپنی بات میں مدیر کتاب نما جناب شاہد علی خاں کتاب نما کی کامیابی پر یوںرقم طراز ہیں:’’ہم اس واقعے پر خوش بھی ہیں اورحیران بھی کہ کتاب نما کی مقبولیت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے پچھلے شمارے مئی 1988 کی کاپیاں اسٹالز پر پہنچتے ہی ختم ہوگئیں۔ ہمارے ایجنٹ مزید کاپیوں کے لیے لکھتے رہے براہ راست دفتر کو پڑھنے والوں کے خطوط ملتے رہے ہم نے کسی نہ کسی طرح ان فرمائشوں کی تکمیل کی۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہمیں بعض قارئین سے معذرت کرنی پڑی۔ ہم کرتے بھی کیا دفتر کے ریکارڈ میں جوکاپیاں محفوظ رکھی جاتی ہیں ہمارے لیے انھیں بچائے رکھنا بھی ممکن نہ رہ گیا۔بہر نوع ہم اپنے پڑھنے والوں کاشکریہ اور اللہ کا شکر اداکرتے ہیں۔‘‘ کتاب نما میں بطور مہمان مدیر اداریہ لکھنے والوں میں پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، منوررانا، جہانگیررضاوارثی، مظہر مہدی، صدیق الرحمن قدوائی، سردار جعفری، جگن ناتھ آزاد، سراج اجملی، آل احمد سرور، سہیل انجم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مہمان مدیر کے طور پر کئی قلمکاروں نے دو دفعہ بھی اداریہ تحریر کیا ہے۔ شاہد علی خاں 2006 میںریٹائر ہوگئے اوران کے بعد ہمایوں ظفر زیدی نے ادارت سنبھالی۔جناب شاہد علی خاں نے ایک طویل عرصے تک کتاب نما میں بطور منیجر اور بطور مدیر خدمات انجام دی۔ ستمبر 2006 کے شمارے میں شاہد علی خان نے کتاب نما اور پیام تعلیم کے محترم قارئین کو الوداعی سلام کے عنوان سے اپنی سبکدوشی کی اطلاع دی ہے۔ انھوں نے اس اعلان میں اپنی خدمات اور کتاب نما کی ترقی اور کامیابی پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ مذکورہ شمارے میں لکھتے ہیں:’’ کتاب نما اورپیام تعلیم کے محترم قارئین کو الوداعی سلام۔ کتاب نما ستمبر 2006مکتبہ جامعہ لمیٹڈ اور اس کے ذیلی اداروں کتاب نما اور پیام تعلیم سے میرے تعلق کی روداد بہت طویل ہے مکتبہ جامعہ کی دہلی اور ممبئی شاخ میں تقریباً اٹھارہ برس گزارنے کے بعد مکتبہ کے مرکزی دفاتر، جامعہ نگر نئی دہلی کی نگرانی کا فریضہ 1970 میں میرے سپرد کیا گیا۔ اس وقت تک پیام تعلیم نے تو ارد و خواں بچوں کے حلقے میں اپنی ایک مستقل حیثیت بنالی تھی اور یہ مختصر سارسالہ اردو میں بچوں کے ادب کا ایک سرگرم ترجمان بن چکا تھا۔ لیکن کتاب نما کی صورت ماہ بہ ماہ شائع کی جانے والی صرف ایک فہرست کتب کی تھی اور اس نے کسی ادبی رسالے کا انداز اختیار نہیں کیاتھا۔ 1976 سے میری ان حقیر کوششوں کا آغاز ہوا جن کے نتیجے میں کتاب نما کو ایک باقاعدہ علمی وادبی رسالے کی شکل ملی۔ شروع سے میری توجہ اس امر پر مرکوز رہی کہ کتاب نما کسی ایک حلقے یاگروہ یا مکتب فکر یانظریے کی اشاعت وتشہیر کا ذریعہ بن کر نہ رہ جائے۔ اس غیر جانب دارانہ رویے کے باعث بہت جلد کتاب نما کو اردو کی علمی اورادبی روایت سے شغف رکھنے والے عام اورخاص قارئین میں قبولیت حاصل ہوگئی اورہرسطح، ہرحلقے کے اردو قارئین اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ کتاب نما کو اردودنیا اور اردو کلچر کے ایک نقیب کے طور پر جانا جانے لگا۔ مکتبہ جامعہ، کتاب نما اور پیام تعلیم کے تعلق سے میرے عملی رابطوں کا سلسلہ آئندہ شمارے کے ساتھ ختم ہورہاہے اور میں اب مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی ذمے داریوں سے سبکدوش ہورہاہوں۔ اس ادارے سے میرا وسیع اور طویل رشتہ میری اپنی زندگی کا حامل رہا ہے۔ اس رشتے کے طفیل مجھے پوری اردودنیا کی محبت اور خلوص کا لازوال تحفہ ملا اور اپنی بساط بھر میں نے اردو کی علمی، ادبی روایت اور اردو تہذیب وثقافت کے فروغ میں اپنا حقیر رول بھی ادا کیا۔ یہ سعادت میرے لیے معمولی نہیں اور اس کی قیمت کا احساس میرے شعور میں ہمیشہ جاگزیں رہے گا۔ رخصت کی اس گھڑی میں میرا دل مکتبہ جامعہ لمٹیڈ کے سرپرستوں اور کتاب نما اورپیام تعلیم کے قدرشناسوں کے لیے شکر کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ ادارہ اور اردو کے یہ رسالے اس نعمت الطاف سے بھی محروم نہ ہوں۔ میں ان تمام رفقائے کار کا بھی ممنون و متشکر ہوں جن سے میرا تعارف مکتبہ جامعہ کے واسطے سے ہوا۔ شاہد علی خاں۔مدیر۔‘‘ اس شمارے سے قبل اگست 2006 کے شمارہ میں مجلس ادارت (صدر) کے کالم میں صدیق الرحمن قدوائی کانام شائع ہونے لگا۔ اس سے پہلے جولائی 2006 میں یہ کالم خالی تھا اورصرف شاہد علی خاں اور محفوظ عالم کا نام مدیر اور معاون مدیر کے کالم میںشائع ہوتا تھا۔ نومبر 2006 میں ہمایوں ظفرزیدی نے ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔ دسمبر 2006 میں اداریہ مہمان مدیر نے نہیں بلکہ خود مدیر نے تحریر کیا ہے کتاب نما کے حوالے سے میں نے جناب شاہد علی خاں سے ملاقات کی تھی۔جناب شاہد علی خاں اب کافی ضعیف ہوچکے ہیں اور انھیں سماعت کا بھی عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ پھر بھی انھوں نے مجھ سے کتاب نما کے تعلق سے کافی تفصیلی گفتگو کی انھوں نے کہا کہ کتاب نما کسی تحریک یاکسی بھی اِزم سے وابستہ نہیں رہا ہے اور اس میں ترقی پسندوں کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات کے شعرا اورتخلیق کاروں کی نگارشات شائع ہوتی رہی ہیں۔ اپنے منفرد گیٹ اپ اوراعلیٰ معیار کے لیے یہ رسالہ آغاز سے مقبول رہا ہے۔ جناب شاہد علی خاں جو اب نئی کتاب پبلشر کے نام سے اپنا اشاعتی کاروبار دیکھتے ہیں کتاب نما کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتاب نما ایسے وقت میں جاری ہواتھا جب ترقی پسندی اور جدیدیت میں جیسے ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ ہمارامقصد ایسے وقت میں نہایت واضح تھا۔ ہمیں کسی سے بیر نہیںتھا اور ہم بس اردو زبان وادب کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور ہم نے شروع سے ہی یہ اعلان کیاتھا کہ کتاب نما کے صفحات سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں اور جب ہم نے مہمان مدیر کا کالم شروع کیا تو اس کی زبردست پذیرائی ہوئی اور یہ اداریہ آج بھی موضوع بحث ہے اس کے لکھنے والوں میں یونیورسٹیوں کے پروفیسر،معروف صحافی، قلم کار، اہم سماجی وادبی شخصیات شامل رہی ہیں۔ شاہد علی خاںکی مذکورہ بالا باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں کتاب نما سے کتنا لگائو رہاہے اور وہ آج بھی اس کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ آج بھی کتاب نما کسی تحریک یا نظریے سے قطع نظر خالصتاً ادب کی خدمت کرنے میں مصروف ہے۔ غلام ربانی تاباں اور بعد میں شاہد علی خاں نے اس رسالے کو بلندیوں پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رسالے میں افسانوں، تنقیدی مضامین، غزلوں، نظموں کتابوں پرتبصرے، قارئین کی آراء وغیرہ شائع کی جاتی ہیں، اس کے موضوعات سے غیر جانب داری جھلکتی ہے۔ ترقی پسند ادبا کی تحریروں کے ساتھ ساتھ جدید ادب کے شعرا وادبا کی تحریروں کو بھی یکساں طور پر جگہ ملتی رہی ہے اور یہ رسالہ اردو ادب کے فروغ میں اپنی بے لوث خدمات کے لیے یاد کیاجاتا ہے۔ شاہد علی خان کی ادبی صحافت کا دوسرا دور سہ ماہی نئی کتاب سے شروع ہوتا ہے۔ اس رسالے کا پہلا شمارہ اپریل، مئی، جون 2007میں منظر عام پر آیاتھا۔ اس رسالے کے مدیر شاہد علی خاں اورجوائنٹ ایڈیٹر ایس اے رحمن ہیں۔شاہد علی خاں نے اپنی عمر کا ایک بڑاحصہ کتاب نما کی ادارت کرتے ہوئے اوربطور جنرل منیجر گزارا ہے۔ انھیں ادارت کا کافی طویل تجربہ ہے۔ انھوں نے اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی کتاب کی شروعات کی ۔ یہ رسالہ کافی جاذب نظر ہے اس کے مشمولات مجموعی طورپر متاثر کن ہیں۔میں نے شاہد علی خاں سے ملاقات کرکے اس رسالے کی غرض وغایت پر گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ رسالہ دوسرے رسالوں سے کسی حد تک منفرد ہے۔ اس میں سبھی طرح کی تخلیقات کو جگہ دی جاتی ہے۔اس رسالے کا مقصد ہے کہ نئے لکھنے والے قلمکاروں کو پرانے اور بڑے ادیبوں کے درمیان متعارف کرایا جائے۔پہلے شمارے کی مجلس ادارت کے صدر شمس الرحمان فاروقی تھے انھوں نے پہلے شمارے کا اداریہ بھی تحریر کیا ہے۔وہ اس رسالے کے نکالنے کا مقصد کچھ اس طرح بیاں کرتے ہیں: جب اردو میں اتنے بہت سے اور اتنے بہت سے رنگوں کے رسالے نکل رہے ہیں تو پھر ایک رسالہ اور نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے یہاں جہاں ایک رسالہ نکلتا ہے وہاں ایک بند بھی ہوتا ہے اور کم سے کم ایک رسالہ ہر دم جان کندنی میں بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا ممکن ہے ہمارا رسالہ بظاہر غیر ضروری ہونے کے باوجود کسی کمی کو پورا کر رہا ہو یا کسی خلا کو بھرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ لیکن یہ جواب ایک طرح کا الزامی جواب ہے اور یہ تمام معاملات کا احاطہ بھی نہیں کرتا۔ لہٰذا پہلی بات تو یہ کہ ہم یہ رسالہ اس لیے نکال رہے ہیں کہ نہے لکھنے والوں کو ایک جگہ مل سکے جہاں وہ اپنے قدم جما سکیں اور یہ جگہ ایسی ہو جہاں ان کو شائع کرنے کے لیے کسی کو برا کہنا یا کسی کی قصیدہ گوئی کرنا غیر ضروری ہو۔ ملحوظ رہے کہ نئے کے ساتھ ہم سچے لکھنے والوں کی شرط بھی لگا سکتے تھے۔لیکن یہ شرط ہماری نظر میں غیر ضروری ہے کیوں کہ سچے لکھنے والے کی پہچان ہی ہماری نظر میں یہ ہے کہ وہ کسی کی توصیف کا حتیٰ کہ خود مدیر کی توصیف کرنے کا سہارا نہیں لیتا، نہ ہی وہ کسی کی برائی کر کے مدیر کا دل جیتنے کا منصوبہ بناتا ہے۔(نئی کتاب شمارہ ایک) اس پہلے شمارے میں شاہد علی خان نے رسالے میں تنوع کا خاص خیال رکھا ہے۔ اس میں جہاں، شمس الرحمان فاروقی، شکیل الرحمان، عبدالحق، احمد صغیر صدیقی،عبدالستار دلوی، شمیم طارق، رفیعہ شبنم عابدی، اعجاز علی ارشد کے معیاری مضامین ہیں وہیں مجتبیٰ حسین اور اسد رضا نے طنز مزاح کے کالم میں اپنے قلم کی شگفتگی بکھیری ہے۔مظفر حنفی، مخمور سعیدی جیسے شاعروں کی نظمیں غزلیں ہیں تو قیصر تمکین، آصف فرخی وغیرہ کے افسانے ہیں ۔ یاد رفتگاں کے کالم میں انور سدید اور کشمیری لال ذاکر کے مضامین ہیں جو انھوں نے مشفق خواجہ اور احمد ندیم قاسمی کی اموات پر تحریر کیے تھے۔رسالے میں تبصرے اور ادبی خبروں کا بھی کالم ہے۔کل ملاکر نئی کتاب کا پہلا شمارہ ہی لائق توجہ ہے اور اس رسالے میں شاہد علی خاں کی محنت واضح طور پر جھلکتی ہے۔ نئی کتاب کا دوسرا شمارہ جولائی ۔ستمبر 2007 کا تھا جس میں اداریہ رسالے کے مدیر شاہد علی خاں نے خود لکھا ہے۔جس میں انھوں نے مجلس ادارت کا صدر فاروقی صاحب کو بنانے کا جواز پیش کیا ہے ساتھ ہی رسالے کے پہلے شمارے کی مقبولیت اور ڈھیر سارے مضامین کی فراہمی کا بھی تذکرہ ہے۔ انھوں نے کتاب نما کے پہلے شمارے کی کامیابی کا سہرا فاروقی صاحب کے سر باندھا ہے جن کے مضمون اور اداریے نے رسالے کو معروف و مقبول بنادیا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے رسالے کے لیے اپنی نگارشات ارسال کیں۔نئی کتاب کے دوسرے شمارے میں پہلے شمارے کی بابت تقریباً 35 خطوط شائع ہوئے ہیں جن سے نئی کتاب کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔دوسرا شمارہ بھی بہت معیاری ہے۔نئی کتاب کے تقریباً بیس شمارے میری نظروں سے گذرے ہیں اگر سب پر تفصیلی تبصرہ کرنے بیٹھوں تو ایک علیٰحدہ سے تفصیلی مضمون تیار ہو جائے گا۔ شاہد علی خاں عمر کے اس پڑائو پر بھی اردو کتابوں اور رسائل کی ترویج و اشاعت کے لیے جو جذبہ رکھتے ہیں وہ ہمارے نوجوانوں میں مفقود ہے۔ وہ روزانہ اوکھلا ہیڈ سے تکونا پارک(جامعہ نگر،نئی دہلی) کو جانے والی سڑک پر واقع نئی کتاب پبلشرز کے دفتر پر بیٹھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اردو زبان سے محبت رکھنے والا کوئی دیوانہ ضرور آئے گا اور ان سے باتیں کرے گا ۔ کچھ اپنی سنائے گا اور کچھ ان کی سنے گا۔ان کی شاپ پر آپ جائیں گے تو وہ بہت خندہ پیشانی سے ملیں گے اور آپ کی اردو دوستی کی حوصلہ افزائی کریں گے۔شاہد علی خاں آج بھی فعال ہیں اور اردو کتابوں کی ترویج و اشاعت میں جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔