ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کی تصنیف ’’سچ ہی تو ہے‘‘ کی رسم رونمائی۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، مجتبیٰ حسین، فاطمہ بیگم پروین کی تقاریر
حیدرآباد(یو این این)سچ صحافت کی اصل روح ہے۔ سچ کے بے غیر صحافت کا تصور بھی احمقانہ ہے۔ سچ کے راستے پر چلنے وا لوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ منزل تک پہنچ کر رہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مختلف دانشوروں نے ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کے ادارتی مضامین کا مجموعہ ’’سچ ہی تو ہے‘‘ کی تقریب رسم رونمائی کے موقع پر کیا۔ میڈیا پلس آڈیٹوریم میں منعقدہ اس باوقار تقریب میں ڈائرکٹر این سی پی یو ایل ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور کتاب کی رسم اجراء انجام دی۔ جناب رحیم الدین انصاری صدر نشین تلنگانہ اردو اکیڈیمی نے صدارت کی۔ مہمانان اعزازی کے طور پر جناب احمد ابوسعید خادم قرآن، جناب افتخار شریف فرسٹ اوورسیز سٹیزن شکاگو، پروفیسر فاروق بخشی صدر تلنگانہ پروگریسیو رائٹرس اسوسی ایشن، ڈاکٹر محمد افتخارالدین ڈائرکٹر میسکو الیف، ڈاکٹر حافظ احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عامہ، پروفیسر فاطمہ بیگم پروین سابق وائس پرنسپل و صدر شعبہ اردو آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی، محمد شجاعت علی ریٹائرڈ جوائنٹ ڈائرکٹر دوردرشن نیوز موجود تھے۔ جبکہ پدم شری مجتبیٰ حسین، تسنیم جوہر، رفیعہ نوشین، نفیسہ خان، رفیع الدین فاروقی، ڈاکٹر مختار احمد فردین، باقر مرزا، حافظ جیلانی صاحب کے علاوہ کئی سرکردہ شخصیات موجود تھیں۔ جناب شیخ ڈاکٹر عقیل احمد نے ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کو ان کے ادارتی مضامین کے مجموعہ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت اپنے اداریوں کے لئے پہچانی جاتی ہے۔ اس کا وقار بلند ہے۔ انہوں نے حیدرآباد کو این سی پی یو ایل کا دل قرار دیا۔ اور اعلان کیا کہ وہ اس شہر کے شعرائ، ادیبوں اور اردو سے وابستہ ہستیوں کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور کریںگے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ سماج کو آئینہ ہی نہیں دکگاتی بلکہ حکومتوں کو بناتی اور بگاڑتی بھی ہے ۔ فاضل لائق تحسین ہیں جنہوں نے نہ صرف بیباک اداریے تخلیق کئے بلکہ میڈیا پلس کو اردو کا مرکز بنایا۔ انہوں نے کہا کہ من موہن سنگھ کے دور حکومت کے آخری 5 سالوں میں NCPUL کو 146 کروڑ روپئے ملے تھے جبکہ مودی کے دورحکومت کے آخری پانچ سالوں میں 316 کروڑ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت اردو دوست ہے۔ادب کے اعتبار سے حیدرآباد کی سر زمین معیاری ہے۔ کونسل کے لائق جو بھی خدمت ہے۔ بتائیں میں اس کے لئے ہر دم تیار ہوں۔ ممتاز مزاحیہ نگار جناب مجتبیٰ حسین نے کہا کہ وہ فاضل حسین پرویز کے اداریوں سے متاثر ہیں ان کے اخبار کی قاری ہیں‘ بعض اہم مسائل پر وہ اپنا قلم خوب چلاتے ہیں۔کٹھن راستوں سے گزر کر اکثر گواہ معافی یافتہ بن جاتے ہیں مگر یہ نہیں بنے جس کے لئے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ جناب رحیم الدین انصاری نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا کہ میں فاضل حسین پرویز کے اداریوں سے وہ بہت متاثر ہیں۔ دو باتیں ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں ایک تو مہارت اور دوسری مقصد حیات کیونکہ جب صحافی مقصد حیات کو سامنے رکھیں گے تو پھر سچ کے علاوہ کوئی بات نہیں نکلتی۔ عزم اور حوصلے بلند ہوتے ہیں جو کامیابی کی دلیل ہیں۔ محترمہ فاطمہ بیگم پروین نے کہا کہ دور حاضر میں صحافت میں سچ کو پیش کرناجوئے شیر لانے سے کم نہیں اس کے باوجود فاضل کے اداریوں میں سچ کی قوس قزح کے سارے رنگ ملیں گے۔ سماجی‘ تہذیبی مذہبی ،سیاسی، تمدنی وغیرہ وغیرہ یہ اداریے اردو صحافت کی ایسی روشنی ہے جس کو پوری دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔جناب فاروق بخشی نے کہا کہ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں عقیدے دم توڑ رہے ہیں۔ سیاسی نظریات نہ جانے کس سمت میں بہہ رہے ہیں۔ مشکل وقت میں سچ کہنا ایک آزمائش ہے۔ ان حالات میں فاضل حسین پرویز جیسے صحافی نے سچائی کو منظر عام پر لانے کابیڑا اٹھایا ہے جس کے لئے وہ قابل مبارکباد ہے۔جناب افتخار شریف نے فاضل حسین پرویز کو ان کی چھٹی کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دی اور کہا کہ ہم دنیا کے چاہے کسی بھی حصہ میں کیوں نہ رہیں ہمیں اردو بولنا چاہئے اور فخر سے بولنا چاہئے کہ یہی ہماری مادری زبان ہے۔جناب شجاعت علی شجیع نے کہا کہ فاضل پرویز نے آج یہ بات ثابت کر دی کہ اصولوں، عقائد اور سچائی سے سمجھوتہ کئے بغیر بھی بلندیوں کی انتہا کو پہنچا جا سکتا ہے۔انہوں نے مصنف سے اپنے دیرینہ روابط کا بھی ذکر کیا۔ جناب احمد ابوسعید خادم قرآن نے کہا کہ آج کل دنیا میں جو کام ہو رہے ہیں سچ کے بغیر ہو رہے ہیںجبکہ قرآن کریم میں سچ پر قائم رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔گو کہ سچ پر قائم رہتے ہوئے کام کرنا بہت ہی مشکل کام ہے اور یہ مشکل کام کر رہے ہیں فاضل صاحب۔اللہ ان کے کام کو قبول کرے- آمین ڈاکٹر حافظ احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب نے کہا کہ کسی بھی اخبار کا معیار اس کے اداریہ کی فکر سے ہوتا ہے۔ انہوں نے ’سچ ہی تو ہے‘ میں شامل ادارتی مضامین کا حوالہ دیا جو فکر انگیرز ہے۔ڈاکٹر محمد افتخار الدین نے کہا کہ میسکو اور گواہ کے درمیان ایک خوشگوار تعلق ہے۔ فاضل کی کوششیں اردو کے لئے جاری ہیں ۔مجھے امید ہے کہ اس کتاب سے اردو دان طبقہ بھرپور فائدہ اٹھائے گا ۔ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ٹیم کے سر باندھا اور کہا کہ ان کے تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی – انہوں نے اپنے اداریوں سے متعلق کہا کہ انہوں نے قرآن اور حدیث کو اپنے لئے مشعل بنایا ہے اور سچ لکھنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے زندگی کے راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں، کئی دوستوں کا ساتھ چھوٹا، رشتے ٹوٹے مگر اللہ پر توکل کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گیا جسے آپ سب کامیابی کہتے ہیں اور الحمدللہ یہ سفر 20سال سے جاری ہے۔ بعض اخبار کے صحافی خود کو کاتب تقدیر سمجھتے ہیں جبکہ ان کا عمل ان کے لئے توشہ آخرت ہے۔ تقریب کا آغاز محمد شعیب رضا خان کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔سید خالد شہباز نے خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ڈاکٹر محمد عبدالرشید جنید نے شکریہ ادا کیا۔