کشمیر کی صورتحال اورڈاکٹر فاروق عبدا ﷲکی نظر بندی کے خلاف راجیہ سبھا میں ہنگامہ آرائی اور تو تو میں میں کے مناظر

0
0

انٹرنیٹ بندش سے وادی کشمیر میں تعلیم اور کاروبار بری طرح سے متاثر ہو چکا ہے ، حکومت کشمیر کی صورتحال کو لے کر غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں /غلام نبی آزاد انٹرنیٹ سہولیات کو بہت جلد بحال کیا جائے گا، دفعہ 370کی منسوخی کے بعد وادی میں کسی بھی عام شہری کی جان ضائع نہیں ہوئی /وزیر داخلہ امیت شاہ

سرینگر // کشمیر کی صورتحال اور نیشنل کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ کی نظر بندی کے خلاف راجیہ سبھا میں زبردست ہنگامہ ہوا جس دوران ممبران نے رہا کرو ، رہا کرو کے نعرے بلند کئے۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر نے کہاکہ انٹرنیٹ بندش کے باعث کشمیر میں تعلیمی نظام بُری طرح سے متاثر ہو چکا ہے جبکہ سرکاری دفاتروں میں بھی کام کاج نہیں ہو پا رہا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کو لے کر راجیہ سبھا میں مفصل رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ’’جموںوکشمیر میں جلد انٹرنیٹ سہولیات بحال ہو گئی ‘‘۔ انہوںنے کہاکہ 5اگست کے بعد سے وادی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلی اور نہ ہی کسی عام شہری کی جان ضائع ہوئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ وادی کشمیر میں اخبارات کو آزادانہ طورپر کام کرنے کی اجازت ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ نے بتایا کہ سرکاری دفاتروں میں معمول کے مطابق کام کاج ہو رہا ہے جبکہ اسکولوں اور کالجوں میں بھی درس و تدریس کا کام کاج ہو رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کے مطابق راجیہ سبھا میں اُس وقت ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھنے کوملے جب ممبران نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر ڈاکٹر فارورق عبدا ﷲ کو رہا کرو کے نعرے بلند کئے۔ ممبران کا کہنا تھا کہ حکومت نے غیر قانونی طور پر ممبر پارلیمنٹ کو گھر میں نظر بند کیا ہے جس کی کئی پر نظر نہیں ملتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایک ایسے شخص جو کہ کئی امراض کا شکار ہے اُس کو تین ماہ سے گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے جو جمہوریت اور آئین کے منافی ہے۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ نے کشمیر کی صورتحال پر کہاکہ اگر چہ حکومت کی جانب سے دعوئے کئے جارہے ہیں کہ وادی کشمیر میں حالات معمول پر آئے ہیں تاہم زمینی سطح پر حالات جوں کے توں ہے۔ انہوںنے کہاکہ پچھلے تین ماہ سے وادی کشمیر میں انٹرنیٹ سہولیات منقطع ہے جس کی وجہ سے کاروبار سے جڑے افراد کو کروڑوں روپیہ کا نقصان ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پچھلے تین ماہ سے اسکولوں اور کالجوں کی اور کسی بھی طالب علم نے رخ نہیں کیا۔ انہوںنے کہاکہ حکومت دعوئے کر رہی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں درس وتدریس کا کام کاج ہو رہا ہے جو من گھڑت اور حقیقت سے بعید ہے۔ انہوںنے کہاکہ تین ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا کشمیر وادی میں انٹرنیٹ سہولیات پوری طرح سے بند ہے ۔ غلام نبی آزاد کے مطابق دنیا کے کسی بھی علاقے میں اتنا دیر تک انٹرنیٹ خدمات کو بند نہیں کیا گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت نے تین وزرائے اعلیٰ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا جو حیرا ن کن ہے۔ انہوںنے کہاکہ لیڈران کی نظر بندی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کشمیر کے حوالے سے کنفیویژن کا کا شکار ہو گئی ہے ۔ غلام نبی آزاد نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سبھی نظر بند لیڈران کو فوری طورپر رہا کیا جائے جبکہ انٹرنیٹ سہولیات کو بھی بحال کیا جائے تاکہ لوگوں کو سردی کے ان ایام میں راحت مل سکے۔ غلام نبی آزاد کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کو لے کر دئے گئے بیان کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کشمیر کی صورتحال کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ سپیکر کو پیش کی۔ انہوںنے کہاکہ وادی کشمیر میں بہت جلد انٹرنیٹ خدمات کو بحال کیا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ گفت وشنید کے بعد ہی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کے بارے میں کوئی فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کے بعد لاء اینڈ ر کی صورتحال کو برقرار رکھنے کی خاطرانٹرنیٹ خدمات کو بند کیا گیا ۔ انہوںنے کہاکہ حالات پوری طرح سے معمول پر آگئے ہیں جبکہ لوگ بھی انتظامیہ کو ہر سطح پر تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد اپوزیشن نے کہاکہ تھا کہ وہاں پر ہزار وں لوگ مارے جائینگے تاہم مرکزی حکومت کی سوجھ بوجھ کے نتیجے میں پچھلے تین ماہ کے دوران وادی کشمیر میں ایک بھی عام شہری کی جان ضائع نہیں ہوئی ۔ انہوںنے کہاکہ تین ماہ کے دوران سیکورٹی فورسز نے ایک بھی گولی نہیں چلی اور نئی حکمت عملی کے تحت سیکورٹی فورسز کے اہلکار وادی کشمیر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ غلام نبی آزاد کی جانب سے تعلیمی شعبے کے بارے میں اُٹھائے گئے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ میں یہاں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وادی کشمیر کے سبھی اضلاع میں اسکول اور کالج کام کر رہے ہیں جہاں پر طلبا بھی تعلیم کے نور سے منور ہو رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ دفعہ 144کے تحت عائد کی گئی پابندیوں کو پوری طرح سے ہٹادیا گیا ہے اور وادی کشمیر کے کسی بھی علاقے میں اس وقت پابندی عائد نہیں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت کے فیصلے سے وادی کشمیر کے لوگ کافی خوش نظر آرہے ہیں اور وہ معمول کے مطابق کام کاج میں جٹ گئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دفعہ 370کے بعد سنگباری کے واقعات میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہوئی ۔ انہوںنے کہاکہ سال 2018میں 808خشت باری کے واقعات رونما ہوئے تاہم اس سال صرف 502پتھر بازی کے واقعات رونما ہوئے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کشمیر کے لوگ مرکزی حکومت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ تمام طبی مراکز میں روز مرہ کے طرح کام کاج ہو رہا ہے جہاں پر مریضوں کو ہر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ قومی سلامتی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے اور کشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت کو جو بھی فیصلہ لینا ہے وہ لیا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ پانچ اگست کے بعد وادی کشمیر میں ایک نئی صورتحال اُبھر کر سامنے آرہی ہے۔ امیت شاہ کے مطابق لوگوں نے مقامی سیاستدانوں کو پوری طرح سے مسترد کیا ہے اور وہ ملکی سیاست میں آنا چاہتے ہیں جس کا ہر کسی کو خیر مقدم کرنا چاہئے۔ سیب بیوپاریوں کو راحت دینے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہاکہ اس سال حکومت نے خود بیوپاریوں سے سیب خریدے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس اسکیم کے تحت میوہ بیوپاریوں کے کھاتوں میں سیدھے طورپر رقوم جمع ہونگی ۔ انہوںنے کہا کہ اگر چہ شر پسند عناصر نے اس اسکیم کو ناکام بنانے کی کوشش کی تاہم سیکورٹی فورسز نے اُن کی اس کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ انہوںنے کہاکہ سبھی اضلاع میں سیبوں کی برآمدگی کا سلسلہ جاری ہے اور آئے روز سینکڑوں کی تعداد میں سیب سے لدی گاڑیاں بیرون ریاست پہنچائی جارہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جموںوکشمیر میں حالات کو درہم برہم کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اور جوکوئی بھی حالات میں رخنہ ڈالنے میں ملوث قرار پائے گا اُس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت کشمیر کے حالات پر گہری نظر گزر رکھ رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر حالات کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔انہوںنے کہاکہ آنے والے دنوں کے دوران کشمیر کے حوالے سے کئی اہم فیصلے لئے جارہے ہیں۔ امیت شاہ کے بیان پر راجیہ سبھا ممبران مطمئن نہیں ہوئے اور ویل میں آکر احتجاجی مظاہرئے کئے جس کے بعد ایوان کی کارروائی دوپہر دو بجے تک ملتوی کی گئی ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا