20برسوں میں6میٹرک ٹن کی تنزلی ، 27سو ہیکٹر اراضی سکڑ گئی
سرینگر؍ 18 ، نومبر :کے این ایس / وادی میں بے وقت برفباری نے زعفران کی پیدوار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے،جبکہ گل چینی سے قبل برفانی طوفان نے کاشت کاروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔اس دوران وادی میں 20برسوں کے دوران زعفران کی پیدوار میں قریب6میٹرک ٹن کی تنزلی واقع ہونے کا جہاں انکشاف ہوا ہے وہی زعفران کی کاشت کیلئے مخصوص اراضی2700ہیکٹرسکڑ گئی،تاہم ماہرین پیداوار میں کمی کو غیر متوازن درجہ حرات کے ساتھ جوڑتے ہیں۔کشمیر نیوز سروس(کے این ایس)کے مطابق وادی میں زعفران کے کاشت کاروں کو جہاں ایک دہائی کے بعد زعفران کے فصل کی اچھی پیدوار کی امید تھی،اور بروقت بارشوں نے انکی امیدوں اور توقعات میں اضافہ کیا تھا،تاہم برفباری نے انکی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کاشتکاروں کے مطابق زعفران کے گل برف کے نیچے دب گئے اور انہیں نا قابل تلافی نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔ریاست کی زراعی اراضی کو بین الاقوامی شناخت حاصل ہیں،جبکہ دنیا کے بہترین زعفران کی پیدوار جو کہ قریب مجموعی پیداوار کا7 فیصد ہیں وادی کے پلوامہ اور بڈگام اضلاع میں ہی کاشت ہوتی ہے۔ کشمیر کے زعفران نے سالہا سال بین الاقوامی بازاروں میں راج کیا،تاہم اب یہ زوال پذئر ہو رہا ہے۔جموں کشمیر میں قریب4ہزار496ہیکٹر اراضی بالخصوص زعفران کی کاشت کیلئے مخصوص رکھی گئی ہے۔ماہرین کا مانے تو ریاست میں زعفران کی اوسط پیدوار شرح ،کاشت میں سال در سال کمی واقع ہورہی ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ وادی میں1996-97سے زعفران کی پیدوار میں کمی واقع ہوری ہے،جبکہ1996-97 میں5700ہیکٹر اراضی سے2007-8میں یہ3000ہیکٹر تک پہنچ چکی ہے۔ان ماہرین کے مطابق پیدوار میں بھی2003-4 میں3.72کلو فی ہیکٹرسے یہ2.52کلو فی ہیکٹر تک پہنچ چکی ہے۔محکمہ مال کی طرف سے جمع کئے گئے اعداد شمار کے مطابق1996-97میں15.95میٹرک ٹن زعفران کی جہاں پیدوار ہوئی،وہی2010-11میں اس کے گراف میں تنزلی ہوئی اور یہ9.85میٹرک ٹن تک پہنچ گیا۔ سال2015-16تک کے عرصے میں اس میں مزید10ٹن کی کمی واقع ہوئی۔ وادی میں پانپور کا قصبہ زعفران کی کاشت کیلئے مشہور ہیں،جہاں نواحی علاقوں سمیت قریب2100کلو گرام کی شرح سے زعفران کی پیدور ہوتی ہے،تاہم اس کی پیدوار2.5کلو فی ہیکٹر کو عبور نہ کرسکی۔ سرینگر ضلع میں2016-17سے2017-18تک زعفران کی پیدوار 5.5کلو سے2.20کلو فی ہیکٹر تک پہنچ گئی،جبکہ ضلع پلوامہ ہیں اس عرصے میں5.50کلو فی ہیکٹر سے1.64فی ہیکٹر تک پہنچ گئی،ضلع بڈگام کا بھی یہی حال ہے جہاں بھی پیدوار میں تنزلی دیکھنے کو ملی۔ مرکزی حکومت کی طرف سے سال2010میں زعفران کی کاشت کو فروغ دینے کیلئے قومی زعفران مشن شروع کیا گیا،تاہم اگر چہ سال2015میں اس پروجیکٹ کی مدت میں توسئع بھی کی گئی تاہم ،یہ مشن بھی خاطر خواہ نتائب برآمد کرنے میں کاناک ثابت ہوا۔ قومی زعفران مشن کو371کروڑ روپے کے ساتھ شروع کیا گیا،جس کو بعد میں400کروڑ روپے تک پہنچایا گیا۔ محکمہ مال ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مشن کے دوران زعفران کی کاشت میں اراضی ہی سکڑ گئی ۔محکمہ کے اندروانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر اراضی میں تبدیلی،زمین کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر نذر انداز کی گئی،جبکہ2014کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ان کاشت کاروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پرا،جن کا سال بھر کا روزگار اسی زعفران کی کاشت پر منحصر تھی۔ محکمانہ ذرائع نے مزید کہا کہ جہاں چند سال قبل19ہزار کنبے زعفران کی کاشت پر منحصر تھے،وہی اب ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی اور وہ16ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ قریب7ہزار کنبوں نے سال2012میں قومی زعفران مشن کے تحت اپنی اراضی زعفران کی پیدوار میں اضافے کیلئے پیش کی تھی، تاہم یہ شکایتیں سامنے آئے کہ اصل مقصد کے برعکس زعفران کی کاشت کے تحت اراضی سکڑ گئی،بلکہ فصل کی فی ہیکٹر شرح پیدوار مین بھی کمی واقع ہوئی۔ مقامی کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں پھیلائو کی وجہ سے زعفران کی کاشت کیلئے مخصوص اراضی سکڑ گئی،جس سے پیدوار میں بھی تنزلی ہوئی،تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آبپاشی کا ہے۔اس دوران زعفران کی پیدوار میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ پیدوار میں کمی کیلئے وجوہات کارفرما ہے،تاہم موسم کی وابستگی بالخصوص بارشوں میں کمی ایک اہم وجہ ہے۔ ماہر زراعت ڈاکٹر فرحین ملک کا کہنا ہے’’ زعفران کی پیدوار میں درجہ حرارت اہم کردار ادا کرتی ہے،جبکہ زعفران کی پیدوار کیلئے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت10سے20ڈگری سیلشیس ہوتا ہے،تاہم سخت موسمی تغیر سے عالمی سطح پر درجہ حرارت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے،جس کے نتیجے میں زعفران کی نسبتاً اچھی پیدوار سنگین بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کشمیر میں زعفران کی پیدوار میں کمی کو متوقع درجہ حرارت میں عدم توازن کو اہم وجہ قرار دیا۔