مین اسٹریم سیاسی لیڈران کی نظر بندی پر ہنگامہ آرائی ڈاکٹر فاروق عبداللہ احتیاطی حراست میں: مسعودی، سابق وزیر اعلیٰ کی نظر بندی غیر آئینی : کانگریس
سرینگر؍ :کے این ایس / پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے روز ہنگامہ آرائی اورشور شرابہ کے بیچ اپوزیشن جماعتوں نے سابق وزیر اعلیٰ اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نظر بندی کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ایوان چاہ میں احتجاج کیا ۔ نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمنٹ جسٹس ( ر) حسنین مسعودی نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ جوڈیشل حراست میں نہیں بلکہ احتیاطی حراست میں ہیں جبکہ اسپیکر کے ایک آرڈر سے ان کی نظر بندی ختم ہوسکتی ہے ۔ ادھر کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یورپی پارلیمانی وفد کو کشمیر جانے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن بھارتی پارلیمان کے ممبران کیلئے کشمیر شجر ممنوع قرار دیا جاتا ہے ۔ کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہی روز جموں و کشمیر کی صورتحال اور مین اسٹریم لیڈران کی نظر بندی پر لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں ہنگامہ آرائی اورشور شرابہ ہوا ، جس دوران اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران نے ایوان چاہ میں کود کر صدائے احتجاج بلند کی ۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق سوموار کو جوں ہی پارلیمانی اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کے ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور کشمیر میں مین اسٹریم لیڈران کی نظر بندی اور موجودہ صورتحال کا معاملہ اٹھانے کی کوشش کی ، تاہم اسپیکر اوم برلا نے ممبران کو یہ کہہ کر اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت دی کہ نومنتخب ممبران پارلیمنٹ کو پہلے حلف اٹھانے دیا جائے ۔ اسپیکر کی اس ہدایت کے بعد ایوان لوک سبھا میں اپوزیشن کی آوازیں خاموش ہوئی اور نو منتخب ممبران پارلیمنٹ نے اپنی نئی ذمہ داریوں کا حلف لیا ۔ اس دوران اسپیکر نے فوت ہوئے ممبران پارلیمنٹ کو خراج عقیدت بھی پیش کیا ۔ فوت ہوئے ارکان پارلیمان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی رسمی تقریب ختم ہونے کے ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران اپنی نشستوں سے دوبارہ کھڑے ہوئے جنہوں نے ممبر پارلیمنٹ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نظر بندی کا معاملہ اٹھایا ۔ کانگریس ، نیشنل کانفرنس اور ڈی ایم کے ، کے اراکین پارلیمنٹ ایوان چاہ میں کود پڑے جس دوران مذکورہ اراکین نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نظر بندی کا معاملہ اٹھایا ۔ اپوزیشن کے ممبران ’’ تانا شاہی نہیں چلے گی ، اپوزیشن پر حملہ کرنا بند کرو ‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے ، جس دوران پورے ایوان میں شور شرابہ بھپا ہوا ۔ اس سے قبل لوک سبھا نے سابق ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی ، سابق وزیر خارجہ سشما سوراج ، سی پی آئی لیڈر گروداس داس گپتا اور رام جیٹھ ملانی کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ سرمائی پارلیمانی اجلاس کے پہلے روز 4 نو منتخب ارکان پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریوں کا حلف اٹھایا ، جن میں پرنس راج ، ہمدادری سنگھ ، سرینواس ، دادا صاحب پٹیلاور ڈی ایم خاتر آنند شامل ہیں ۔ اس دوران اپوزیشن ممبران نے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نظر بندی پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ایک طرف اپوزیشن سے تعاون طلب کر رہی ہے لیکن دوسری جانب نظر بندی عمل میں لاکر اپوزیشن کی آواز دبا رہی ہے ۔ اس دوران اپوزیشن ممبران نے ارکان پارلیمنٹ کو جموں و کشمیر جانے سے روکنے کا معاملہ بھی اٹھایا ۔ کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے بتایا کہ حکومت نے یورپی پارلیمان کے وفد کو کشمیر جانے کی اجازت دی لیکن دوسری جانب ہمارے لیڈر راہل گاندھی کو متعدد ممبران پارلیمنٹ کے ہمراہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام سبھی ممبران پارلیمان کی توہین کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ 106 روز سے اپنی رہائشگاہ پر نظر بند ہے جبکہ سرمائی پارلیمانی اجلاس میں ان کی شرکت ، ان کا آئینی حق ہے ۔ کانگریس لیڈر نے ان خیالات کا اظہار وقفہ صفر کے دوران کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کو لوک سبھا کی کارروائی میں شرکت کرنے سے روکنا ظلم ہے ۔ اس دوران اسپیکر نے کہا کہ گزشتہ اجلاس کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی پارلیمان میں عدم موجودگی کے حوالے سے جو بیان دیا وہ صحیح تھا کیونکہ اس وقت ڈاکٹر فاروق عبداللہ نظر بند نہیں تھے اور لوک سبھا سیکریٹریٹ کو ان کی نظر بندی کے حوالے سے بعد ازاں تحریری طور جانکاری دی گئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ امیت شاہ نے اب تحریری طور پر یہ کہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ زیر حراست ہیں ۔ ڈی ایم کے لیڈر ٹی آر بالو نے لوک سبھا اسپیکر سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ ایوان کے کسٹوڈین ہیں لہٰذا ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ غیر قانونی ہے ۔ انہوں نے اسپیکر سے مخاطب ہوکر کہا ’’ آپ اس ہائوس کے کسٹوڈین ہیں لہٰذا آپ اس معاملے میں مداخلت کریں ‘‘ ۔ انہوں نے ایوان پارلیمنٹ میں پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی نظر بندی کے معاملے کو بھی اٹھایا ۔ نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمنٹ حسنین مسعودی نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نظر بندی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ احتیاطی حراست میں ہیں نہ کہ عدالتی حراست میں ہیں لہٰذا اسپیکر کے ایک حکم نامے سے ان کی نظر بندی کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ حسنین مسعودی نے بتایا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سرینگر کے 20 لاکھ افراد کی نمائندگی کر رہے ہیں لہٰذا اس ایوان میں ان کی آواز کو سنا جانا چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا ’’میرے پاس ثبوت ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ جوڈیشل حراست میں نہیں ہیں اور وہ احتیاطی حراست میں ہیں ، آپ کا ایک آرڈر ان کی نظر بندی کو ختم کر سکتا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نظر بندی پر ٹی ایم سی لیڈران نے بھی ایوان چاہ میں احتجاج کیا ۔