انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات ہنوز معطل
سری نگر (یو این آئی) وادی کشمیر میں 102 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور غیر اعلانیہ ہڑتال کے بیچ معمولات زندگی معمول کی پٹری کی طرف تیزی سے گامزن ہیں تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز پر جاری پابندی سے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا، ای کامرس سے وابستہ لوگوں اور تاجروں کو درپیش مشکلات و مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہورہے ہیں۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی تنسیخ اور جموں وکشمیر کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔وادی کشمیر میں جمعرات کے روز غیر یقینی صورتحال کے بیچ معمولات زندگی کو پٹری کی طرف تیزی سے گامزن ہوتے ہوئے دیکھا گیا، بازاروں میں بعض علاقوں میں بازار صبح کھل کر دن کے ایک بجے تک کھلے رہے جبکہ بعض میں ایک بجے کے بعد کھل کر شام گئے تک کھلے رہے، سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل جاری رہی جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی جزوی طور پر سڑکوں پر دیکھا گیا۔سڑکوں پر اگرچہ منی بسیں نمودار ہونا شروع ہوئی ہیں تاہم بڑی بسیں سڑکوں سے ہنوز غائب ہیں، بڑی بسوں کی اچھی تعداد سیکورٹی فورسز جنہیں پانچ اگست سے قبل ہی بھاری تعداد میں تعینات کیا گیا تھا، کی تحویل میں ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق سیکورٹی فوسز اہلکار ان ہی بسوں کو استعمال کرتے ہیں۔شہر سری نگر کے جملہ علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں صبح کے وقت بازار کھل گئے اور دن کے بارہ بجنے سے قبل بند ہوگئے، گلی کوچوں کے دکان دن بھر کھلے دیکھے گئے، سڑکوں پر ٹریفک کا رش برابر جاری رہا، نجی گاڑیوں کی بھر پور نقل وحمل جاری رہی جبکہ کئی روٹس پر سومو گاڑیوں کے ساتھ ساتھ منی بسوں کی آمدورفت بھی دیکھی گئی۔عینی شاہدین کے مطابق شہر کے تمام علاقوں کی سڑکوں پر چھاپڑی فروش صبح سے شام تک ڈیرا زن ہوکر گرم ملبوسات و دیگر اشیائے ضروریہ کی بکری میں مصروف تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گرم ملبوسات اور جوتے خاص کر بڑے جوتے فروخت کرنے والے دکانوں اور ریڑوں پر لوگوں کی کافی بھیڑ تھی۔وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی جمعرات کو غیر اعلانیہ ہڑتال کے بیچ بازار صبح اور شام کے وقت کھل گئے اور نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل وحمل جاری رہی۔وادی میں اگرچہ مواصلاتی خدمات پر عائد پابندی کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے تاہم ہر قسم کے انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز پر پابندی ہنوز جاری ہے جس کے باعث صحافیوں، طلبا، تاجروں اور ای کامرس سے وابستہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔بتادیں کہ سری نگر نشین صحافیوں نے انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی کے خلاف ‘تنگ آمد بہ جنگ آمد’ کے مصداق گزشتہ دنوں نے احتجاج کیا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں کڑاکی کی سردی میں اپنے دفتروں کے بجائے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں اپنا پیشہ ورانہ کام انجام دینا پڑرہا ہے جہاں بجلی اور انٹرنیٹ کی بار بار معطلی صحافیوں کے سوہان روح بن گئی ہے۔وادی کے سرکاری دفاتر اور بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہوا ہے اور تعلیمی اداروں میں امتحانات شروع ہونے کی وجہ سے طلبا کی چہل پہل بڑھ گئی ہے۔واضح رہے کہ سٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات 29 اور 30 اکتوبر سے بالترتیب شروع ہوئے ہیں تاہم والدین کا کہنا ہے کہ طلبا نے امسال نصاب کا نصف حصہ بھی مکمل نہیں کیا تھا لیکن انتظامیہ نے امتحانات اس لئے منعقد کئے کہ یہاں حالات نارمل ہیں۔دریں اثنا طلبا کا کہنا ہے کہ کڑاکے کی سردی کے بیچ امتحانی سینٹروں میں گرمی کے معقول انتظامات نہیں ہیں جس سے طلبا کو سخت مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ وادی کے مین اسٹریم جماعتوں کے بیشتر لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبدللہ، عمر عبدللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں مسلسل حراست میں ہیں اگرچہ بعض لیڈروں کو رہا کیا گیا ہے تاہم انتظامیہ شدید سردی کے پیش نظر نظر بند لیڈروں کو جموں یا گپکار جہاں ان کی رہائش گاہیں ہیں، میں منتقل کئے جانے پر غور کررہی ہے۔ ادھر مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں