کشمیر میں غیر اعلانیہ ہڑتال کا 94 واں دن، معمولات زندگی ہنوز متاثر

0
0

یواین آئی

سری نگر؍؍وادی کشمیر میں بدھ کے روز لگاتار 94 ویں دن بھی غیر اعلانیہ ہڑتال کے باعث معمولات زندگی متاثر رہے۔ تاہم سرکاری دفاتر و بنکوں میں کام کاج معمول کے مطابق جاری رہا اور سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہی۔ بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کو ختم کرنے اور اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں گزشتہ تین ماہ سے غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے گوشہ وکنار میں بدھ کے روز بھی بازار دن میں بند رہے اور دیگر تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر رہیں اگرچہ سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل جاری رہی لیکن پبلک ٹرانسپورٹ میں سے بڑی بسیں اور منی بسیں لگاتار سڑکوں سے غائب ہیں تاہم بعض سڑکوں پرسومو گاڑیاں چلنا شروع ہوئی ہیں۔شہر سری نگر کے بیشتر علاقہ جات بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں بدھ کے روز بھی ہڑتال رہی اگرچہ صبح کے وقت دکانیں کھل گئیں لیکن ساڑھے گیارہ بجنے سے قبل تمام دکانیں یکایک بند ہوگئیں تاہم گلی کوچوں میں بیشتر دکانیں ادھ کھلی رہیں۔تاہم معروف مہاراجہ بازار بند رہا جہاں دکانداروں نے الزام لگایا کہ پولیس نے تین روز گونی کھن گلی کے داخلی پوائنٹ پر ہونے والے گرینیڈ حملے کے سلسلے میں کچھ دکانداروں کو حراست میں لیا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق سری نگر کی تمام سڑکوں پر بدھ کو بھی نجی گاڑیوں کا بھاری رش جاری رہا تاہم منی گاڑیاں، مٹاڈار وغیرہ سڑکوں سے غائب رہے، بعض علاقوں کے لئے اکا دکا سومو گاڑیاں چل رہی تھیں۔ اس دوران بارشوں کی وجہ سے شہر کی کچھ سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں راہگیروں کو نقل وحرکت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ادھر وادی میں ریل سروس گزشتہ تین ماہ سے بدستور معطل ہے جس کے باعث لوگوں کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ متعلقہ محکمہ کو بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریل سروس کو لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے لئے احتیاطی طور پر معطل رکھا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریل سروس بند رہنے کے باعث محکمے کو گزشتہ تین ماہ میں قریب 3 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی بدھ کے روز بھی معمولات زندگی متاثر رہے سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل جاری رہی اور اکا دکا سومو گاڑیوں کی نقل وحمل بھی دیکھی گئی تاہم بڑی بسوں اور منی بسوں کی نقل وحمل لگاتار بند ہے۔عینی شاہدین کے مطابق بعض ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں دن کے تین بجے سے ہی رفتہ رفتہ بازار کھلنے لگے اور شام تک بازاروں میں گہماگہمی عروج پر پہچ گئی۔ وادی میں سرکاری دفاتر اور بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہورہا ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی امتحانات شروع ہونے کے باعث طلبا کی آمد رفت بڑھ گئی ہے۔تاہم یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے وادی کے تعلیمی اداروں میں پانچ اگست کے بعد تدریسی سرگرمیاں بحال نہ ہوسکیں۔ سٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات 29 اور 30 اکتوبر سے بالترتیب شروع ہوئے ہیں۔اگرچہ مواصلاتی ذرائع پر عائد پابندی کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے اور لینڈ لائن سروس کے بعد پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بحال کیا گیا ہے لیکن انٹرنیٹ سروس اور مسیج سروس مسلسل معطل ہے جس کے باعث لوگ متنوع مشکلات سے دوچار ہیں۔ انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی صحافیوں اور طلبا کے لئے سخت پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ موبائیل فونوں پر ایس ایم ایس سروس بند رہنے سے طلبا و تجار خاص طور پر پریشان ہیں۔ طلبا کہا کہنا ہے کہ وہ ایس ایم ایس سروس کی معطلی کے باعث اسکالرشپ فارم ، داخلہ فارم وغیرہ جمع کرنے سے قاصر ہیں جبکہ تجار کا کہنا ہے کہ وہ بیرون ریاست جانے کے لئے ہوائی ٹکٹ نہیں نکال سکتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ موجودہ صورتحال کے اگرچہ وادی میں بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات منعقد ہوئے لیکن بیشتر مین اسٹریم لیڈران پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں جن میں سے نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنی رہائش گاہ پر ہی پی ایس اے کے تحت بند ہیں جبکہ ان کے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہری نواسن میں ایک اسیری کاٹ رہے ہیں اور پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بھی بند ہیں۔مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا