گجربکروال طلباوطالبات کوتعلیم کے نورسے منورکرنے کیلئے حکومت نے تمام اضلاع میں ہوسٹل قائم کئے ہیں، جہاں سینکڑوں طلبا وطالبات زیرتعلیم ہیں،ہزاروں فارغ التحصیل ہوکراعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں، اپنے اپنے وقت کے ہوسٹل وارڈن حضرات نے انتہائی دیانتداری کیساتھ اپنے فرائض انجام دیئے اور ہوسٹلوں کی مقصدیت کو زندہ رکھا، کئی ایسے بھی ان ہوسٹلوں کی ذمہ داریوں پرفائزہوئے جنہوں نے ہوسٹلوں کودھاندلیوں ،خرد برد کااڈہ اور گجربکروال طلباکے مستقبل کو تاریکی میں جھونک دیا،آج ایسے ہی کام چوروارڈن حضرات کی وجہ سے سینکڑوں ایسے نوجوان ہیں جوہوسٹل میں داخلہ پانے کے باوجوف بھی اپنامستقبل سنوارنہ پائے اورمحنت مزدوری پرمجبورہیں،بات اگرگجربکروال ہوسٹل جموں کی کی جائے تویہاں قریب18برس تک اپنی بے لوث خدمات پیش کرنے والی واحد شخصیت عبدالرحمٰن راتھر ہیں جنہوں نے اپنے دورمیں یہاں ایک نسل کو نئی راہ دکھائی، نئی روشنی دکھائی، بچوں کی تعلیم ،کھیل کود، صحت صفائی، خوراک سے لیکرہرایک چیز کا دیانتداری سے خیال رکھتے ہوئے اپنے دورمیں اس ہوسٹل سے ڈاکٹر، انجینئر سے لیکراعلیٰ عہدوں تک بچوں کو پہنچنے کے قابل بنایا، عبدالرحمٰن راتھرکے تبادلے کے بعد سے آج تک یہ دارالخلافائی ہوسٹل آج تک یتیم ہے،لاوارث ہے،راتھرصاحب سرکاری ملازمت سے کئی برس قبل سبکدوش ہوچکے ہیں لیکن آج بھی اگرگجربکروال طبقہ کاکوئی نوجوان سماج میں سراُٹھانے اوراپنی موجودگی ظاہرکرنے کے قابل ہے تواُس کی پرورش اورکامیابی کے پیچھے راتھرحاحب کاہاتھ ہی بتایاجاتاہے،گجر بکروال قوم کی بدنصیبی یہی رہی کہ اس قوم کو مرحوم حاجی بلندخان جیسی قیادت نہ ملی جنہوں نے انتہائی جرٔتمندانہ اندازمیں گجربکروال مشاورتی بورڈکانظام چلایا، اورعبدالرحمٰن راتھر جیسی بحیثیت وارڈن کوئی اور شخصیت نے جنم نہ لیا، آج گجربکروال ہوسٹل ’آشرم‘بن گئے ہیں جہاں داخلہ پانے والے داخل ہوتے ہیں، قیام کرتے ہیں ،جیساکھاناملتاہے کھاتے ہیں اور تعلیم، کھیل کود ودیگر کسی میدان میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دینے کے اہل نہیں ہوتے اور ہوسٹل تک کی تعلیم کاسفریونہی گمنامی میں طے کرجاتے ہیں، گجربکروال پی جی ہوسٹل جموں میں کئی ماہ سے طلباپریشان حال ہیں، ان کیساتھ وارڈن موصوفہ کارویہ مبینہ طورپرایک جیلرکاساہے، دوروزتک یہ بچے بھوک ہڑتال پررہے، سیکریٹری مختار چوہدری کو وہاں پہنچنے میں دودن لگ گئے، ٹال مٹول والی پالیسی اپناتے ہوئے بچوں کے ڈائٹ مینومیں ہورہی گڑبڑگھوٹالہ دورکرنے کی کوئی دیانتدارانہ کوشش نہ ہوئی ،بچوں کیساتھ ٹکرائو کی پالیسی اپنائی جارہی ہے،جوانتہائی شرمناک اور ناقابل قبول ہے، گجربکروال طبقہ کے سرگرم نوجوانوں ،رہنمائوں وآفیسران اپنے ان نوجوانوں کوقوم کامستقبل ہیں،فکرکرنی چاہئے،سامنے آناچاہئے، ان کے مسائل سننے چاہئے،خاموش تماشائی بنارہناافسوسناک ہے، آج چندمتعلقہ آفیسران اگران بچوں کاپیٹ کاٹ کر مبینہ طورپراپنی تجوریاں بھررہے ہیں اورقوم کے نمائندے گاندھی جی کے بندربنے ہیں تو حیراکن کن ہے۔