ہندوستان میں نوخیز بالغوں میں غذائیت کی کمی پر نئے حقائق عملی اقدام کی دعوت دیتے ہیں
لازوال ڈیسک
نئی دہلی: ہندوستان کے نوعمر (10 سے 19 سال عمر ) لڑکے اور لڑکیوں کی نصف تعداد میں تقریبا 63 ملین لڑکیاں اور 81 ملین لڑکے دبلے یا موٹے ، کوتاہ قد اور زیادہ وزن والے ہیں ۔ یہ حقائق ایک جائزہ رپورٹ میں بیان کئے گئے ہیں جس کا اجراء آج نیتی آیوگ کے دفتر میں منعقدہ ایک اعلی سطحی اجلاس میں یونیسیف انڈیا اور نیتی آیوگ نے مشترکہ طور پر کیا ۔ اس رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ نو خیز لڑکے لڑکیاں ’مخفی بھوک‘ ، یعنی ان میں ایک یا ایک سے زیادہ مائکروونیوٹرینٹ (غذائی اکائی) کی کمی جیسے فولاد ، ، فولیٹ، زنک، وٹامن اے، وٹامن بی 12 اور وٹامن ڈی کا فقدان سے دوچار ہیں ۔ یہ رپورٹ حال ہی میں جاری کی گئی جامع قومی تغذیہ سروے (سی این این ایس) کے نتائج پر مبنی ہے۔جس کا عنوان ہے ’’ نوجوان ، خوراک اور تغذیہ: تغیر پذیر دنیا میں بہتر نشوونما ‘۔سی این این ایس کے جائزہ سے دس سے انیس سال کے بالغوں کے بارے میں بے نظیر حقائق معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں ناقص تغذیہ کی تمام قسمیں یعنی میکرو نیوٹرینٹ، مائیکرونیوٹرینٹ ، غذائی عادات، ذاتی صلاحیتیں ، عوامی خدمات(اسکول، صحت اور تغذیہ) تک رسائی اور جسمانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ اور یہ معلومات لڑکیوں اور لڑکوں دونوں سے متعلق ہیں۔یہ سی این این ایس کے اعداد وشمار پر مبنی پہلا موضوعاتی تجزیہ ہے جو ہندوستان میں بالغوں کی زندگیوں کے بارے میں روشنی فر اہم کرتا ہے۔نئی رپورٹ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ہندوستان میں اس عمر گروپ کے تقریبا تمام لڑکے اور لڑکیوں کی خوراک غیر صحت مند اور غیر معیاری ہے۔ ان کے ناقص تغذیہ کا شکار ہونے کی اہم وجہ یہی ہے ۔ بالغوں میں غیر معیاری غذائی عادات کے بارے میں اہم حقائق یہ ہیں: ٭ 10 فیصد سے کم لڑکے اور لڑکیاں پھل اور انڈے روزانہ کھاتی ہیں۔ ٭ 25 فیصد کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہفتہ میں ایک بار بھی پتوں والی سبزیاں نہیں کھاتے ہیں۔ ٭صرف 50 فی صد روزانہ دودھ کی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ آمدنی میں اضافہ اور کھانوں پر زیادہ خرچ کرنے کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ تلی ہوئی چیزوں، جنک فوڈ، میٹھی چیزیں اور کاربونیٹیڈ مشروبات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ چنانچہ آج ہندوستان کی ہر ریاست میں اس عمر گروپ کے لڑکوں اور لڑکیوں میں ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ خاص طور سے نوعمر لڑکیاں متعدد نوع کی قوت بخش غذائوں سے محروم رہتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق:٭کوتاہ قدی کا شکار لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیاں زیادہوتی ہیں۔٭ 40 فیصد لڑکیاں خون کی کمی یا انیمیا کا شکار ہوتی ہیں اور عمر بڑھنے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں صرف 18 فی صد لڑکے خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ سی این این ایس کے جائزہ نے پہلی مرتبہ وہ بنیادیں فراہم کی ہیں جس کے ذریعہ اس عمر گروپ میں ناقص تغذیہ کے مسئلہ کو حل کرنے کے انتہائی موثر نوعیت کے اعلی و ارفع پروگرام پوری قوت اور باقاعدگی سے چلائے جاسکتے ہیں۔ بعض اہم حقائق یہ ہیں : ٭بالغ لڑکیوں کے ماں بننے سے پہلے ان پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی اہم ہے جس کے ذریعہ ہندوستان میں نسل در نسل چلے آرہے ناقص تغذیہ یا غذائیت کی کمی کے سلسلہ کو توڑا جاسکتا ہے ۔ پوشن ابھیان ( نیشنل نیوٹریشن مشن) کے ا ہداف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انیمیا کی شکار نوخیز لڑکیوں کی تعداد ہر سال 3 فیصد کم کی جائے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ اسکول اور کمیونٹی کے ذریعہ اس پروگرام کو ہر ایک تک پہنچایا جائے ۔٭ سی این این ایس نے اسکولوں پر مبنی خدمات کو مضبوط بنانے کے لئے اچھے رموز بتائے ہیں ۔ اسکول ایک ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں پر ہر طبقہ کے بچے ہوتے ہیں جس کے ذ ریعہ مقوی غذائیت، خدمات اور بہتر طرز عمل سے وغیرہ امور کو حل کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات اس لحاظ سے بھی بڑی اہم ہے کہ سن بلوغت کی ابتدائی عمر ( دس سے چودہ سال ) کے 85 فیصد بچے اسکول میں ہوتے ہیں ۔٭جائزہ میں یہ بھی معلوم ہوا کہ تقریبا 25 فیصد لڑکیاں اور لڑکے اسکول کے لئے مختص چار اسکیموں (دوپہر کا کھانا، دو سالہ صحت سے متعلق چیک اپ ، دو سال پر پیٹ کے کیڑے مارنے کی دوا اور ہفتہ وار آئرن فولک ایسڈ کی گولیاں) سے محروم رہتے ہیں ۔اس تفریق کو ختم کرنا نوخیز بالغوں میں غذائیت سے بھرپور خوراک کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے نہایت اہم ہے۔٭رپورٹ میں گھر پر بننے والے کھانوں اور ناشتہ کی چیزوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ وہ غذائیت سے بھرپور ہونا چاہیے ۔ قوت بخش اور صحتمند کھانوں کے سلسلہ میں چلائی جارہی مہموں میں ہر کھانے کی رکابی میں انواع و اقسام کے غذائیں ہونی چاہیے اس نکتہ کو فروغ دینا چاہئے۔٭غیر متعدی بیماریوں کے خطرات بچپن اور جوانی میں لاحق ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیابیطس، قلبی امراض اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ اس عمر گروپ کے بچوں میں بڑھ رہا ہے ۔ زندگی کا دوسرا دہہ (10 سے 19 سال) اس نوع کی بیماریوں کے روک تھام میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔٭تمام لڑکیاں اور لڑکے یومیہ 60 منٹ کی کھلے میدان میں تجویز کردہ ورزش اور کھیلوں میں حصہ نہیں لیتے ۔ اس عمر کی لڑکیاں کھیل کود میں اوسطاروزانہ صرف 10 منٹ صرف کرتی ہیں۔ بہر حال لڑکے نسبتاً زیادہ اس میں وقت صرف کرتے ہیں جو روزانہ 40 سے 50 منٹ تک ورزش کرتے ہیں ۔٭رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ غذائیت کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے لڑکوں کو بھی متحرک کیا جائے اور انہیں ان مہموں میں شامل کیا جائے تاکہ صحیح غذا کے پیغام پر مبنی پروگرام ’جن اندولن‘ کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکے ۔پوشن ابھیان اب دوسرے سال میں داخل ہوگیا ہے اور یہ وقت مناسب ہے کہ ’’مستقبل کے ماں اور باپ ‘‘ میں نسل در نسل سے چلے آرہے ناقص تغذیہ کے مسئلہ کو ختم کیا جائے۔ سی این این ایس کے جائزہ سے حاصل کردہ نتائج اور اعداد و شمار کی بنیاد پر نوخیز بالغوں کے بارے میں پہلی مرتبہ جو قومی سطح پر تجزیہ کیا گیا ہے وہ وزارت صحت اور خاندانی بہبود اور متل خاندان کی فیاضی سے ممکن ہوپایا ہے ۔ یہ کام ہندوستان میں لاکھوں لاکھ نوخیرلڑکوں اورلڑکیوں کو ’’ صحتمند جسم اور صحتمند ذہن ‘‘ ‘Solid Body, Smart Mind’. بنانے کی جہت میں سنگ میل ثابت ہوگا ۔