گھریلوں تشدد ، اغواکاری ، چھیڑ چھاڑ اورفقرہ بازی معمول کی بات
کے این ایس
سرینگر؍؍وادی میں صنف نازک کے خلاف جرائم کے ارتکاب کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ 60گھنٹوں کے دوران ایک خاتون کی عصمت ریزی اور یومیہ2خواتین کی اغوا کاری کے کیس درج ہوتے ہیں۔ اس صورتحال نے جہاں صنف نازک کے تحفظ اور تقدس پر سوالیہ نشان لگا دیا،وہی سال2018کے دوران کشمیر میں بنت حوا کو نشانہ بنانے کے چونکا دینے والے اعداد شمار کا انکشاف ہوا ہے۔کشمیر نیوز سروس کے مطابق وادی میںجہاں چادر اور چار دیواری کو پامال کرنا ایک معمول سی بات بن گئی ہے اور گزشتہ برس 8خواتین بندوق سے لقمہ اجل ہوئیں،وہی سماجی سطح پر خواتین کے خلاف جرائم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔خواتین کے خلاف جرائم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر صوبہ میں فی60گھنٹوں کے دوران ایک خاتون کی عصمت ریزی اور یومیہ2خواتین کی اغوا کاری ،جبکہ دو دنوں میں ایک خاتون کو گھریلوں تشدد کا نشانہ بنانے کے کیس درج ہوتے ہیں۔ وادی میں خواتین کے خلاف جرائم کے اعداد شمار چونکا دینے والے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق سال گزشتہ میں مجموعی طور پر وادی معہ لداخ میں صنف نازک کے خلاف مجموعی طور پر987جرائم سے متعلق کیسوں کا انداج کیا گیا۔ دستیاب اعداد شمار کے مطابق خواتین کی آبرو ریزی سے متعلق142کیس گزشتہ برس درج کئے گئے،جبکہ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کیسوں میں82 فیصد شرح کے حساب سے116کیسوں کو نپٹایا گیا،جبکہ مزید26کیس بھی زیر تحقیقات ہیں۔ ان اعداد شمار کے مطابق وادی میں امسال خواتین کی اغوا کاری کے گراف سے متعلق جو اعداد شمار سامنے آئے ہیں وہ بھی تسلی بخش نہیں ہے اور ہر دن ایک خاتون کی اغوا کاری کا واقعہ سامنے آیا ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ2018 میںصنف نازک کے667اغوا کاری کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ذرائع نے مزید کہا ’’ ان کیسوں میں417کیسوں کو نپٹایا گیا،جبکہ250کیس ابھی بھی زیر التواء ہے۔‘‘ گزشتہ سال لڑکیوں پر فقرے کسنے کے35واقعات بھی پیش آئے اور کیسوں کا انداراج عمل میں لایا گیا،جن میں سے ذرائع کے مطابق30 کیسوں کو نپٹایا گیا اور5 تاہنوز زیر تحقیقات ہے۔‘‘ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ خواتین کو گھریلوں سطح اور سسرال والوں کی طرف سے تشدد کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے اور اس دوران مبینہ طور پر کئی خواتین اس تشدد کی بھینٹ بھی چڑ گئی۔دستیاب اعداد شمار کے مطابق2018میں وادی میں گھریلوں تشدد سے متعلق143کیسوں کا اندارج عمل میں لایا گیا،جن میں سے89کیسوں کو اگر چہ نپٹایا گیا،تاہم54کیس فی الوقت زیر تحقیقات ہے۔ وادی ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کے گراف میں اضافہ نظر آرہا ہیں۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق سال2017میں ریاست میں مجموعی طور پر صنف نازک کے خلاف جرائم سے متعلق3363کیسوں کا اندراج عمل میں لایا گیا،جبکہ سال2016میں انکی تعداد2929تھی۔اعداد شمار کے مطابق2017میں جموں کشمیر میں خواتین کی آبروریزی سے متعلق314کیس درج کئے گئے،تاہم2016میں انکی تعداد262تھی۔دستیاب اعداد شمار کے مطابق2017میں اغوا کاری کے960کیسوں کے مقابلے میں2016میں ریاست میں خواتین کی اغوا کاری کے775کیس درج ہوئے تھے۔ سرکاری اعداد شمار میں مزید کہا گیا ہے کہ سال2016میں جہاں خواتین کے ساتھ دست درازی کے جہاں1233کیس درج ہوئے وہی2017میں ان میں بھی اضافہ ہوا اور سال بھر1422کیس درج ہوئے۔ خواتین کی خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا اور سال2016میں144خود کشی کے واقعات میں2017میں153خواتین کے خود کشی کے واقعات سامنے آئے۔ سسرال والوں کی طرف سے خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے سے متعلق342واقعات کے کیس سال2016میں درج کئے گئے،جن میں سال2017میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر ریاست میں375کیس درج کئے گئے۔ خواتین کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کیلئے سرکاروں کو سخت پالیسی مرتب کرنی کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا’’ فیملی اور فاسٹ ٹریک بنیادوں پر عدالتیں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرہ خواتین کو انصاف فرہم ہو،تاہم مسلسل حکومتیں اس معاملے میں غیر سنجیدہ ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ خواتین کمیشن کو بھی بھر پور اختیار ات دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت خواتین کی تحفظ کیلئے جو قوانین ہیں انہیں بھی زمینی سطح پر سختی کے ساتھ نافذ العمل بنانے کی ضرورت ہیں تاکہ صنف نازک کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں کمی واقع ہو۔