دین دیال اوپادھیائے اسکیم کے نام پردیہی نوجوانوں کیساتھ کھلواڑ

0
0

مفت تربیت کے بعد روزگارکے وعدے اور پھر یہ ’غنڈہ گردی‘ ،کئی طلبانااُمیدہوکراپنے گھروں کولوٹ رہے ہیں
چوہدری اویس

جموں؍؍مرکزی حکومت نے 25ستمبر2014کو دین دیال اوبادھیائے گرامین کوشلییایوجناکاآغازکیاجسے تب کے مرکزی وزرأ نتن گڈکری اور ونیکیانائیڈونے پنڈت دین دیال اوپادھیائے کے 98ویں یومِ پیدائش کے موقع پر متعارف کرایاگیا۔اس اسکیم کانظریہ اورمقصد دیہی غریب نوجوانوں کو معاشی طور پر آزاد اور عالمی سطح پر متعلقہ افرادی قوت میں تبدیل کرناہے۔اس کا مقصد 15سے35برس کی عمر کے نوجوانوں کو اس کاحصہ بناناتھا۔ڈی ڈی یو – جی کے وائی ، دیہی غریب خاندانوں کی آمدنی میں تنوع کو شامل کرنے اور دیہی نوجوانوں کے کیریئر کی امنگوں کی تکمیل کے دوہری مقاصد کے ساتھ کام کرنے والی قومی دیہی ذریعہ معاش مشن (این آر ایل ایم) کا ایک حصہ ہے۔ 1500 کروڑ روپے کے اس ادارہ دیہی نوجوانوں کی ملازمت کے مواقع پیداکرناتھا۔ اس پروگرام کے تحت ، حکومت کے ہنرمندی کی ترقی کے اقدام کے حصے کے طور پر براہ راست طالب علم کے بینک اکاؤنٹ میں ڈیجیٹل واؤچر کے ذریعہ رقوم کی فراہمی کی جائے گی۔تازہ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق 2022تک کا اس کانشانہ28لاکھ14ہزار195نوجوانوں کاہے،جن میں سے اب تک 8لاکھ77ہزار865کو تربیت دی جاچکی ہے جبکہ 4لاکھ74ہزار379کو ملازمت مہیاکرائی گئی ہے۔اعدادوشمارکے مطابق5,70,632کی تشخیص واندازہ لگایاگیاہے،اور4لاکھ10ہزار639کو اسناددی گئی ہیں،یہ اعداد شمار سرکاری ویب سائٹ http://ddugky.gov.in/کے مطابق ہیں۔تاہم جموں وکشمیرمیں اس اسکیم کی عمل آوری کے نام پر نوجوان نسل کو اندھیرے میں دھکیلاجارہاہے، نجی اِداروں نے اس اسکیم کی عمل آوری کیلئے نیشنل لولی ہُڈمیشن کے ذریعے اندراج اورشراکت پائی ہے لیکن تربیت وروزگارکے نام پر یہ اِدارے سادہ لوح دیہی نوجوانوں کیساتھ کھلواڑکررہے ہیں، اس طرح کی شکایات پہلے بھی موصول ہوتی رہی ہیں لیکن تازہ واقع جموں کے ہانڈا کالج کے مرکزمیں زیر تربیت نوجوانوں نے سامنے لایاہے جس میں اُنہوں نے مرکزکے حکام پر شدیدنوعیت کے الزامات عائدکئے ہیں۔ان نوجوانوں کے ایک گروپ نے لازوال کیساتھ بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کیساتھ بدسلوکی ، ما ر پیٹ اور دھمکی آمیز رویہ اختیارکرتے ہوئے انہیں گھرکاراستہ دکھایاجارہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ دیہات سے ان اِداروں کے متعلقین انہیں بڑی اُمیدیں بندھواکرلاتے ہیں کہ انہیں مفت تربیت ، رہائش کیساتھ ساتھ تربیت مکمل ہونے کے بعد روزگارمہیاکرایاجائیگا اوریہ اسکیم مرکزی حکومت کی ہے۔سرکاری اسکیم ہونے اور اس طرح کی سہولیات کی یقین دہانیوں پراعتمادرکھتے ہوئے یہ نوجوان شہروں میں آتے ہیں اور ان اِداروں میں داخلہ لیتے ہیں لیکن ان کی تربیت تک بھی مکمل نہیں ہونے دی جاتی، روزگار کاخواب توان کا شرمندۂ تعبیرہونے سے رہا۔بھلیسہ،کشمیر ودیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان اپناسب کچھ چھوڑ کر جموں میں تربیت کیلئے آئے ہیں لیکن ان کیساتھ کالج میں تعینات اُساتذہ ودیگر منیجروغیرہ کے ہاتھوں مار پیٹ اور انہیں طرح طرح سے ہراساں کرنے کے واقعات کے بعد کئی طلبااپنے گھروںکوواپس لوٹ چکے ہیں۔اس طرح اپنے کیریئر ،اپنے مستقبل کوتاریکی میں دھکیل کر نااُمیدی کیساتھ یہ نوجوان واپس جارہے ہیں، حکومت کی جانب سے ان اِداروں کی کارکردگی وان کے کام کاج پرکوئی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل کوتباہی کے دہانے پر پہنچایاجارہاہے،نجی اِدارے اسکیم کی عمل آوری کے نام پر حکومت سے بھاری رقومات بٹور رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھررہے ہیں لیکن سینکڑوں طلباکیساتھ کھلواڑکیاجارہاہے۔ ان طلبانے الزام عائدکیاکہ کالج میں قائم اس اِدارے میں قریب200طلباتھے جن میں سے اب بہت سارے اپنی تربیت بیچ میں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔اس طرح کی حرکات سے معلوم ہوتاہے کہ بچوں کااندراج کیاجاتاہے،ان کے نام سے حکومت سے رقومات بٹوری جاتی ہیں اور بچوں کو اِدارے سے بیچ میں ہی نکلنے کیلئے دبائوڈالاجارہاہے۔ان طلبان نے بتایاکہ جن جن طلباکوپیٹ پیٹ کرنکالاگیاوہ واپس ہی نہیں آئے۔واضح رہے کہ جموں وکشمیرمیں اس اسکیم کی عمل آوری سٹیٹ لیولی ہُڈ مِشن کے ذریعے ہورہی ہے لیکن ان کے اندازسے لگتاہے کہ وہ محض اِن اِداروں کے کھاتوں میں رقومات منتقل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کررہا۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا