عارف نقوی ایک ڈائنامک شخصیت کے مالک تھے: پروفیسر صغیر افراہیم عارف نقوی کی تخلیقات کا گہرا ئی سے مطالعہ کرنا چا ہئے: پروفیسرمحمد کاظم
عارف نقوی نے اپنی شاعری کے ذریعے عوام کو بیدار کیا:پروفیسراسلم جمشید پوری
لازوال ڈیسک
جموں؍؍بر لن میں بیٹھ کر عارف نقوی نے جس طرح کیرم کو متعارف کرایا اور کہانیاں لکھیں یہ ان کا ہی کار نامہ تھا۔عارف نقوی ایک ڈائنامک شخصیت کے مالک تھے۔عارف نقوی ادب اور تہذیب کے لیے جو کام کیا اس کو آسانی سے نہیں بھلایا جاسکتا۔آج کے دور میں ایسے سچے اور کھرے انسان کہاں ملتے ہیں۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Arif_Naqvi
وہ پوری ایک تہذیب تھے۔یہ الفاظ تھے معروف ناقداور سابق صدر شعبہ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پرو فیسر صغیر افراہیم کے جو شعبہء اردو اور آیوسا کے ذریعے منعقد معروف ادیب و شاعر’’عارف نقوی کی تخلیقات‘‘ موضوع پراپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے چھوڑے ہوئے ادبی سر مائے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس سے فیض یاب بھی ہو نا چاہئے۔ایماندار، محنت اور لگن سے کیا، کیا جاسکتا ہے،یہ عارف نقوی نے ہم کو سکھایا۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز سعید احمد سہارنپوری نے کیا۔ ہدیہ نعت فرحت اختر نے پیش کیا۔ پروگرام کی سر پرستی معروف ادیب و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پو ری نے فر مائی اور صدارت کے فرا ئض معروف نقاد پروفیسر صغیر افرا ہیم ]سابق صدر شعبہء اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی[نے انجام دیے۔مقرر کے بطور پروفیسر محمد کاظم ]دہلی یونیورسٹی[ نے شرکت فرمائی اورمقالہ نگار کے بطور شفا علی، علما نصیب، نزہت اختراورشہناز پروین نے شر کت کی۔ استقبالیہ کلمات ڈا کٹر الکا وششٹھ اور نظا مت کے فرا ئض ریسرچ اسکالر عظمیٰ سحر نے بحسن و خوبی انجام دیے۔
موضوع کا تعارف کراتے ہوئے ڈا کٹر ارشاد سیانوی نے کہا کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی اردو ادب میں عارف نقوی محتاج تعارف نہیں ہیں۔ آپ نے بی۔ اے اور ایم۔ اے کی تعلیمات لکھنؤ سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ ہمبولٹ یو نیورسٹی،جرمنی چلے گئے جہاں تقریباً چالیس سا ل درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔مگر لکھنؤ یو نیورسٹی نے آپ کی ایسی تربیت کی تھی کہ آگے چل کر آپ ترقی پسند تحریک کے اہم رکن بن گئے تھے۔ آپ ایسے ترقی پسند بنے کہ سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر جیسی اہم شخصیات نے آپ کے اس جذبے کو خوب سراہتے ہوئے ان کی خوب حوصلہ افزا ئی کی۔آپ کو بہت سے اداروں اور سوسائٹیوں نے اعزاز و اکرام سے نوازا۔ آپ افسا نہ نگار، ڈراما نگار،سفر نامہ نگار، ناقد،محقق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔اور آپ انگریزی کے ایک اچھے مضمون نگار بھی تھے۔ آپ کی تقریباً پچیس کتابیں منظر عام پرآ کر داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ جہاں تک عارف نقوی صاحب کی تخلیقات کی بات ہے تو آپ نے بہت سے افسا نوی مجمو عے ہمیں دیے۔ عارف نقوی نے اپنی شاعری کے ذریعے عوام کو بے دار کیا۔ آپ نے جو تخلیقات چھوڑی ہیں ان میں ’’بارود اور کونپل‘‘ میں افسا نے اور افسا نچے چونکانے کاکام کرتے ہیں۔ ان کا ناولٹ’’بجھتے جلتے چراغ‘‘ نے بھی قارئین کو خو ب چونکایا۔ان کا نظریہ ترقی پسند تھا۔ انہوں نے کامیاب سفر نامے بھی لکھے اور ان کے سفر ناموں نے ادب پر بڑا اثر چھوڑا ہے۔ ان کا جانا یقینا ادب کا بڑا خسارہ ہے۔
ڈاکٹر آ صف علی نے کہا کہ عارف نقوی نے مختلف موضوعات پر خوب الکھا۔ آپ کی درجنوں کتابیں یقینا ہمارے لیے مشعل راہ ثا بت ہو ں گی۔آپ ادیب تو بڑے تھے ہی لیکن انسان بھی بہت اعلیٰ پائے کے تھے۔نہ صرف آپ رشتے بناتے بلکہ بڑے خلوص سے انہیں نبھاتے بھی تھے۔ان کی انکساری، شگفتگی، نرم لہجہ، انسان دوستی کمال کی تھی۔ دنیا میں بہت کم انسان اتنے اعلیٰ ظرف کے ہوتے ہیں۔
پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ عارف نقوی نے داستانیں بھی لکھیں۔وہ میرے استاد شارب رودولوی کے گہرے دوست تھے۔ ہر سال ان سے لکھنؤ میں ملاقات ہو تی تھی۔ ترقی پسند ادب، جرمن اور بہت سی تنظیموں کے حوالے سے ہونے والے کاموں کو عارف نقوی نے دل جمعی کے ساتھ کیے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ کیرم کے اوپر بھی آپ نے بہت سی کہا نیاں لکھیں۔ عارف نقوی کی تخلیقات کا گہرا ئی سے مطالعہ کرنا چا ہئے۔ ان پر تحقیقی کام بھی ہونا چاہئے۔ ان کا جو مقام ہے اسے منظر عام پر لایا جائے ساتھ ہی ان کے فن اور فن پا روں پر ایک بڑا سیمینار ہونا چاہئے۔
پروگرام میں شفا علی نے’’عارف نقوی کا سفر نامہ: ایک مطالعہ‘‘،علما نصیب’’عارف نقوی کی شعری خدمات ایک جائزہ،، نزہت اختر نے ’’عارف نقوی کی ادبی خدمات:ایک جائزہ‘‘ اور شہناز پروین نے’’مشاہیر ادب کے خطوط عارف نقوی کے نام‘‘ عنوانات سے مقالات پیش کیے۔پروگرام سے ڈاکٹر شاداب علیم،محمد شمشاد، لائبہ، سائرہ اسلم، مدیحہ اسلم اور دیگر طلبہ و طالبات جڑے رہے۔
https://lazawal.com/?page_id=179131