کشمیر میں ہڑتال کے بیچ نئی و پرانی گاڑیوں کی خریداری میں بے تحاشا اضافہ
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں زائد از ڈھائی ماہ سے پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہنے سے نجی ٹرانسپورٹ میں ہرگزرتے دن کے ساتھ بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے کیونکہ لوگوں نے گزشتہ دوماہ کے دوران ہزاروں کی تعداد میں دو پہیہ اور چار پہیہ والی گاڑیاں خریدیں جو یہاں آنے والے وقت میں ٹریفک جام کی مصیبت کو مزید پیچیدہ کرکے لوگوں کے لئے سوہان روح بن سکتی ہیں۔بتادیں کہ وادی میں گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے لگاتار غائب ہے جبکہ نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری ہے اور لوگوں کی طرف سے سفری سہولیات کے لئے موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیاں خریدنے کا سلسلہ تیز سے تیز تر ہورہا ہے اور بیرون ریاست جیسے دلی، پنجاب، ہریانہ وغیرہ سے بھی گاڑیاں لائی جارہی ہیں۔ریجنل ٹرانسپورٹ افسر کشمیر اکرام اللہ ٹاک نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ ہڑتال کی وجہ سے سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے نتیجے میں لوگ مجبوراً اپنی دو پہیہ اور چار پہیہ گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘بے شک ہڑتال کے دنوں میں دو پہیہ اور چار پہیہ گاڑیوں کی خریداری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کی مجبوریاں بھی ہیں۔ وہ مجبوراً گاڑیاں بالخصوص دو پہیہ گاڑیاں خرید رہے ہیں’۔ تاہم مسٹر ٹاک کا کہنا ہے کہ نئی گاڑیوں کی خریداری پر روڑ ٹیکس بڑھایا گیا ہے جس سے گاڑیوں کی خریداری میں کمی آسکتی ہے۔انہوں نے کہا: ‘ریاستی حکومت نے نئی گاڑیوں کی خریداری پر روڑ ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ اس ٹیکس کو بڑھا کر 9 فیصد کیا گیا ہے۔ اگر آپ ایک لاکھ روپے کی گاڑی خریدیں گے تو آپ کو 9 ہزار ریاست کو ٹیکس کے طور پر ادا کرنے ہوں گے۔ یہ ایک سخت اقدام ہے۔ امید ہے کہ اس سے گاڑیوں کی خریداری میں بہت کمی آئے گی’۔فیاض احمد نامی ایک شہری نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ نجی ٹرانسپورٹ میں روز افزوں ہورہے اضافے سے آنے والے وقت میں لوگوں کو گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا: ‘یہاں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں روز افزوں کافی اضافہ ہورہا ہے لوگ چھوٹی گاڑیاں اور موٹر سائیکل بڑی تعداد میں خرید رہے ہیں اور بنک بھی انہیں قرضہ دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کررہا ہے، اس سے آنے والے وقت میں لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ سڑکیں وہی ہیں جو مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں تھیں بلکہ وسیع ہونے کے بجائے زیادہ تنگ ہی ہوگئی ہیں جب حالات ٹھیک ہوں گے تو ٹریفک جام مزید پیچیدہ ہوگا جو لوگوں کے لئے سوہان روح بن جائے گا’۔فدا حسین نامی ایک شہری نے کہا کہ لوگوں کی طرف سے چھوٹی گاڑیاں بڑی تعداد میں خریدنے سے سفر کرنا اب آسان ہونے کے بجائے درد سر بن جائے گا۔انہوں نے کہا: ‘لوگ آج کل بڑی تعداد میں چھوٹی گاڑیاں اور موٹر سائیکل خرید رہے ہیں جو کوئی غلط کام تو نہیں ہے لیکن یہاں پہلے ہی ٹریفک جام کا مسئلہ ہے اور جب سڑکوں پر گاڑیوں کا مزید اضافہ ہوگا تو پھر گاڑی میں سفر کرنا پیدل سفر کرنے سے بھی زیادہ باعث کوفت ہوگا’۔فدا حسین نے مزید کہا کہ منٹوں میں طے کی جانے والی مسافت گھنٹوں میں طے ہوگی اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے لوگوں کی ذہنی بیماریوں میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہاں بیرون ریاست جیسے دلی، پنجاب، ہریانہ وغیرہ سے بھی گاڑیاں لائی جارہی ہیں جن سے مشکلات مزید بڑھ جائیں گے۔محمد اشرف نامی ایک شہری نے کہا کہ یہاں جن لوگوں کے پاس گاڑیاں تھیں وہ اب موٹر سائیکل خرید رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹریفک میں ہورہے اضافے سے یہاں ٹریفک جام کا مسئلہ ہی مزید پیچیدہ نہیں ہوگا بلکہ سڑک حادثات میں اضافہ ہوگا کیونکہ یہاں سڑکیں تنگ بھی ہیں اور خستہ بھی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ وادی میں پانچ اگست سے معمولات زندگی بدستور متاثر ہیں اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری ہے۔