کشمیر میں ہڑتال کا 83 واں دن: غیر یقینی صورتحال ہنوز سایہ فگن

0
0

وادی کے یمین ویسار میں بازار بند ، تجارتی سرگرمیاں متاثر اور پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل مفقود رہنے سے زندگی کی رفتار مدھم
یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں ہفتے کے روز بھی غیر یقینی صورتحال سایہ فگن رہی اور غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ 83 ویں دن میں داخل ہوا جس کے باعث وادی کے یمین ویسار میں بازار بند رہنے، تجارتی سرگرمیاں متاثر رہنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل مفقود رہنے سے زندگی کی رفتار مدھم رہی۔بتادیں کی مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق ہفتے کے روز بھی وادی کے اطراف و اکناف میں بازار بند رہے اور تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں، سڑکوں پر نجی گاڑیوں کو بھاری تعداد میں چلتے ہوئے دیکھا گیا لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل آٹے میں نمک کے برابر ہی نظر آئی۔تاہم سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں علی الصبح بازار کھل گئے اور پھر معمول سے کچھ زیادہ ہی مدت تک کھلے رہے۔ شہر سری نگر کے ساتھ ساتھ وادی کے شمال وجنوب کے تمام ضلع صد ر مقامات و قصبہ جات میں بھی ہفتے کے روز بھی ہڑتال کے باعث معمولات زندگی مفلوج رہنے کی اطلاعات ہیں۔تاہم وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں شام کے وقت تمام بازار کھل گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق بعض علاقوں میں سہ پہر کو ہی بازار کھل جاتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل وحمل بھی شروع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران بازاروں میں لوگوں کی کافی بھیڑ رہی اور انہیں مختلف اشیائے ضروریہ کی خریداری میں مصروف دیکھا گیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب یہاں صبح اور شام کے وقت شاپنگ کرنے کے لئے بازاروں کا رخ کرنا لوگوں کا معمول بن گیا ہے۔ادھر سری نگر میں جہاں ایک طرف نجی ٹریفک میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے شہر کے کئی اہم چوراہوں پر سخت ٹریفک جام ہوتا ہے تو دوسری طرف سڑکوں پر چھاپڑی فروشوں کی تعداد میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ دکان بند رہنے کے باعث کئی دکانداروں نے بھی سڑکوں پر ریڑے لگائے ہیں اور متنوع قسم کا مال بیچ کر گھر کا گزارہ چلاتے ہیں۔اس دوران وادی میں ہفتہ کو ہڑتال کے بیچ بلند پایہ ولی کامل حضرت شیخ نور الدین نورانی المعروف علمدار کشمیر کا سالانہ عرس مبارک عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ تاہم بندشوں کی وجہ سے بہت کم تعداد میں لوگوں نے وسطی ضلع بڈگام کے چرار شریف میں واقع ان کے آستان عالیہ پر حاضری دی۔چرار شریف سے ایک شہری نے یو این آئی اردو کو فون پر بتایا کہ ریاستی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے چرار شریف کی طرف جانے والی سڑکوں کو سیل کیا تھا اور اپنی نجی گاڑیوں کے ذریعے آستان عالیہ پر حاضری دینے کا سفر اختیار کرنے والوں کو بھی یہاں پہنچنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا: ‘پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے۔ کسی بھی ایس آر ٹی سی گاڑی کو زائرین کو یہاں لاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ چرار شریف کو جوڑنے والی سڑکوں پر تعینات ریاستی پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز اہلکاروں نے نجی گاڑی کو بھی یہاں آنے نہیں دیا۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت کم زائرین نے یہاں حاضری دی۔ بعض زائرین ایسے ہیں جو قریب چالیس کلو میٹر کی مسافت پیدل طے کرکے یہاں پہنچے ہیں’۔ دریں اثنا وادی میں ریل سروس اور انٹرنیٹ سروس گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے مسلسل معطل ہیں۔ ریلوے حکام کے مطابق ریل سروس کو لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے تئیں بنا بر احتیاط معطل رکھا گیا ہے۔انٹرنیٹ سروس معطل رہنے سے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں خاص کر طلبا اور صحافیوں کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں محکمہ اطلاعات ورابطہ عامہ کے دفتر میں قائم ‘میڈیا سنٹر’ میں ‘نیوز آپریشن’ چلانا پڑتا ہے جہاں جگہ کی تنگی اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث انہیں گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے انتظامیہ سے کم سے کم میڈیا دفاتر میں انٹر نیٹ بحال کرنے کی اپیل کی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں مواصلاتی نظام پر عائد پابندی کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے لینڈ لائن سروس کی بحالی کے بعد پوسٹ پیڈ موبائیل سروس کو بحال کیا گیا ہے۔وادی کے سرکاری دفاتر و بنکوں میں کام کاج جزوی طور بحال ہوا ہے لیکن انتظامیہ کی طرف سے اعلانات کے باوصف تعلیمی اداروں میں طلاب کی عدم موجودگی کے باعث ہوکا عالم ہی چھایا ہوا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق تعلیمی اداروں میں عملہ موجود ہوتا ہے لیکن درس وتدریس کا عمل معطل ہے تاہم مختلف جماعتوں کے امتحانات کے ڈیٹ شیٹ جاری ہونے کے بعد بچوں نے امتحانی فارم جمع کرنے اور اس سے متعلق دیگر ضروری امور کی انجام دہی کے لئے تعلیمی اداروں میں حاضر ہونا شروع کیا ہے۔دریں اثنا بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات منعقد ہونے کے باوصف علاقائی سیاسی جماعتوں کے لیڈران بدستور نظر بند ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے صدر اور تین بارجموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور دو بار رکن پارلیمان کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر ہی نظر بند ہیں جبکہ ان کے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر وسابق وزیر علیٰ عمر عبداللہ بھی ہری نواس میں زیر حراست ہیں۔ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی نظر بند ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے لیڈارن کی رہائی کا سلسہ شروع ہوا ہے۔ انتظامیہ نے جمعرات کے روز مزید تین سیاسی لیڈروں کو رہا کیا۔علاحدگی پسند لیڈران بھی بدستور خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی حیدر پورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں جبکہ حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نگین میں واقع اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں۔ لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یاسین ملک کئی ماہ سے تہار جیل میں قید کے ایام کاٹ رہے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ غیر یقینی صورتحال کے بیچ ہی وادی میں پہلی باربلاک ترقیاتی کونسل انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں علاقائی سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس و پی ڈی پی اور قومی جماعت کانگریس نے حصہ نہیں لیا تاہم بی جے پی اور آزاد امیدواروں کی اچھی تعداد نے قسمت آزامائی کی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا