صحافت کی اہمیت کو ہردور میںتسلیم کیا گیا ہے، ہماری سماجی، سیاسی ،معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے رہے ہیں،اس کا بہر حال اعتراف کرنا ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہے، اورواقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا بہتر وسیلہ ہے
https://jgu.edu.in/blog/2024/02/21/what-is-journalism-and-mass-communication/
کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے ، تواریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دیے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عاید کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی ، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی اورلوگوںکومتوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی اورایک وقت ایسا آیا، جب لوگ صبح آنکھ کھلتے ہی اخبارتلاش کرنے لگے۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ صحافت اتنی مؤثر اور طاقتورہے کہ اس کے سامنے تیر، کمان، بندوق اورتوپ بھی بے کارہیں۔ تاریخ کے جانے مانے جرنیل اور اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ کا وہ مشہورمقولہ ہوگا، جس میںاس نے صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ’’لاکھوں سنگینوںسے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘‘۔نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میںانتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لائو لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت کے سامنے کند ہے۔ جو کام صحافت سے لیا جاسکتا ہے،وہ توپ اوربندوقوںسے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما اس کی اہمیت کے معترف اورقائل رہے ہیں۔