نریندرمودی
وزیراعظم ،ہند
شری رتن ٹاٹا جی کو ہم سے جدا ہوئے ایک مہینے کا عرصہ گزرا ہے۔ چہل پہل والے شہروں اور قصبات سے لے کر گائوں تک ان کی عدم موجودگی معاشرے کے ہر حصے میں گہرائی سے محسوس کی جارہی ہے۔ معمر صنعت کاران، ابھرتے ہوئے کاروباری اور سخت محنت کرنے والے پیشہ واران ان کے سانحہ ارتحال سے مغموم ہیں جو ماحولیات کو لے کر بیدار ہیں اور انسان دوستی کے لیے وقف ہیں، وہ بھی مساویانہ طور پر غمزدہ ہیں۔ ان کی عدم موجودگی نہ صرف ملک کے اندر بلکہ پوری دنیا میں بڑی گہرائی سے محسوس کی گئی ہے۔
نوجوانوں کے لیے، شری رتن ٹاٹا ایک ترغیب کار تھے، وہ ان کو اس بات کی یاد دلاتے تھے کہ خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے ساتھ ساتھ کوشش اور کامیابیاں حاصل کرنے کا عمل پورے جوش و جذبے کے ساتھ اور انکساری کے ساتھ انجام دیا جا سکتا ہے۔ دیگر افراد کے لیے وہ بھارتی صنعت کی عمدہ ترین روایات کی نمائندگی کرتے تھے اور سالمیت، عمدگی اور خدمت جیسی اقدار کے لیے ان کی عہد بندگی اپنی جگہ محکم تھی۔ ان کی قیادت میں ٹاٹا گروپ نے نئی بلندیاں حاصل کیں۔ احترام، ایمانداری اور پوری دنیا میں معتبریت حاصل کی۔ اس کے باوجود وہ اپنی حصولیابیوں کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں پوری انکساری اور وضع داری کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے۔
شری رتن ٹاٹا دیگر افراد کے خوابوں کو بھی غیر متزلزل حمایت فراہم کرتے تھے، یہ ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک خوبی تھی۔حالیہ برسوں میں، وہ بھارت کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی سرپرستی کرنے، متعدد ترقی پذیر صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے معروف ہوئے تھے۔ وہ نوجوان صنعت کاروں کی امیدوں اور امنگوں کو سمجھتے تھے اور بھارت کے مستقبل کو سنوارنے کے معاملے میں ان کے مضمرات کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ ان کی کوششوں کو تقویت بہم پہنچاکر انہوں نے خواب دیکھنے والوں کی ایک پوری پیڑھی کو بااختیار بنایا تاکہ وہ بے باکانہ طور پر خدشات کا سامنا کر سکیں اور بندھے ٹکے اصولوں سے تجاوز کر سکیں۔ اس سے اختراع اور صنعت کاری کی ایک نئی ثقافت بہم پہنچانے کے معاملے میں دور رَس اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کے بارے میں مجھے پورا یقین ہے کہ اس کا استعمال آنے والی دہائیوں میں بھارت پر اپنے مثبت اثرات مرتب کرتا رہے گا۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Ratan_Tata
انہوں نے لگاتار عمدگی کی علمبرداری کی، بھارتی صنعت کاروں سے گذارش کی کہ وہ عالمی معیارات اور شناخت قائم کریں۔ یہ تصوریت، میرے خیال سے مستقبل کے قائدین کو بھارت کو عالمی درجے کی حامل عمدگی کا مترادف بنا دے گی۔
ان کی عظمت محض بورڈ روم یا اپنے جیسے دیگر انسانوں کی مدد تک ہی محدود نہیں تھی، وہ تمام تر ذی روح کے تئیں فیاضی سے سرشار تھے۔ جانوروں کے تئیں ان کی گہری محبت بہت مشہور تھی اور وہ جانوروں کی فلاح و بہبود پر مرتکز تمام تر ممکنہ کوششوں میں اپنی جانب سے امداد فراہم کیا کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنے کتوں کی تصاویر ساجھا کیا کرتے تھے۔ وہ ان کی زندگی کے اتنے ہی بڑے حصے تھے جیسے کہ ان کی دیگر کاروباری صنعتیں۔ ان کی زندگی ہم سب کو اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ اصل قیادت کا تعین کسی شخص کی اپنی حصولیابیوں سے نہیں بلکہ ازحد خستہ حال لوگوں کی نگہداشت کرنے کی اہلیت سے ظاہر ہوتی ہے۔
کروڑوں بھارتیوں کے لیے شری رتن ٹاٹا کی حب الوطنی نے بحران کے وقت میں روشن ترین علامت کی حیثیت اختیار کی۔ انہوں نے ممبئی میں 26/11 دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد معروف تاج ہوٹل کو بڑی سرعت سے کھولا۔ یہ ملک کے لیے جوش و جذبے کا ایک نعرہ تھا- بھارت متحد ہوکر کھڑا ہے اور دہشت گردی کے آگے ہرگز سر جھکانے والا نہیں ہے۔
ذاتی طور پر مجھے گذشتہ برسوں میں ان سے واقفیت کا فخر حاصل رہا ہے۔ ہم نے گجرات میں بڑے قریب ہو کر کام کیا تھا جہاں انہوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی۔ ان میں ایسے متعدد پروجیکٹس شامل تھے جن کو لے کر وہ ازحد پرجوش تھے۔ محض چند ہفتے قبل، میں اسپین کے صدر جناب پیڈرو سانچیز کے ساتھ وڈودرا میں تھا اور ہم نے مشترکہ طور پر ایک طیارہ کامپلیکس کا افتتاح کیا تھا جہاں بھارت میں سی۔295 طیارے بنائے جائیں گے۔ یہ شری رتن ٹاٹا جی ہی تھے جنہوں نے اس پر کام شروع کیا تھا۔یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شری رتن ٹاٹا کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی جائے گی۔
مجھے یاد ہے کہ شری رتن ٹاٹا جی بڑے دانشور تھے۔ وہ مختلف موضوعات پر اکثر و بیشتر لکھا کرتے تھے خواہ یہ حکمرانی کے موضوعات ہوں، حکومت کے تئیں امداد فراہم کرنے کے معاملے میں ستائش کا اظہار ہو یا انتخابی فتوحات کے بعد مبارکبادی پیغامات ارسال کرنے کا موضوع ہو۔ہمارا قریبی تعلق قائم رہا جب میں مرکز کی جانب منتقل ہوا اور وہ تعمیر قوم کی ہماری کوششوں میں ایک کلی طور پر وقف شراکت دار کے طور پر کارفرما رہے۔ سوَچھ بھارت مشن کے تئیں شری رتن ٹاٹا کی امداد بطور خاص میرے دل میں خاص مقام رکھتی ہے۔ وہ عوامی تحریک کے زبردست علمبردار تھے۔ صفائی ستھرائی، حفظانِ صحت اور شفافیت کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ یہ بھارت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ سوَچھ بھارت کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ماہ اکتوبر کے اوائل میں ان کا دلی جذبات پر مبنی ویڈیو مجھے اب بھی یاد ہے۔ عوامی طور پر منظر عام پر آنے کا یہ ان کا آخری سلسلہ تھا۔
ایک دیگر موضوع جو ان کے دل کے بہت تقریب تھا، وہ تھا حفظانِ صحت خصوصاً کینسر کے خلاف نبرد آزمائی۔ مجھے دو سال قبل آسام میں منعقدہ ایک پروگرام کی یاد آتی ہے جہاں ہم نے مشترکہ طور پر ریاست میں مختلف النوع کینسر ہسپتالوں کو افتتاح کیا تھا۔ اپنے کلمات میں اس وقت انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ وہ اپنے زندگی کے تمامی سالوں کو حفظانِ صحت کے لیے وقف کرنے کے خواہش مند ہیں۔ صحت اور کینسر کے معالجے کو لائق رسائی اور قابل استطاعت بنانے کی ان کی کوششوں کی جڑیں اس گہری دردمندی میں مضمر تھیں جو وہ اس مرض سے جوجھ رہے افراد کے تئیں رکھتے تھے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ ایک مبنی بر انصاف معاشرہ وہ ہوتا ہے جو اپنے سب سے خستہ حال طبقے کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے۔
آج ہم جب انہیں یاد کرتے ہیں تو ہمیں اس معاشرے کی یاد آتی ہے جس کی تصوریت ان کے ذہن میں تھی جہاں کاروبار بھلائی کی ایک قوت کے طور پر خدمت انجام دے۔ جہاں ہر کس و ناکس کے مضمرات کی قدر ہو اور جہاں ترقی کا تعین سب کی خیر و عافیت اور مسرت کے پیمانے پر ممکن ہو۔ وہ ان زندگیوں میں زندہ ہیں جن کو انہوں نے چھوا اور وہ خواب جو انہوں نے دیکھے اور پروان چڑھائے۔ پیڑھیاں ان کے تئیں احسان مند ہوں گی جب وہ یہ محسوس کریں گی کہ انہوں نے بھارت کو بہتر، مبنی بر رحم دلی اور مزید امید کا حامل مقام بنایا۔