کہا حکومت یا اس کی مشینری حقیقی وجوہات کی بناء پر آسامیاں نہ بھرنے کے آپشن کا انتخاب کرسکتی ہے
یواین آئی
نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے آج کہا کہ کسی عہدے کے لیے اشتہار جاری ہونے کے بعد بھرتی کے عمل کو درمیان میں نہیں بدلا جا سکتا ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس رشی کیش رائے، پی ایس نرسمہا، پنکج مٹھل اور منوج مشرا کی آئینی بنچ نے ‘تیج پرکاش پاٹھک بمقابلہ راجستھان ہائی کورٹ’ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امیدواروں کو حیران کرنے کے لیے ضابطوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔
https://www.livelaw.in/
جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ بھرتی کے عمل کے آغاز میں مطلع کردہ انتخابی فہرست میں شامل کرنے کے لیے اہلیت کے معیار کو درمیان میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ موجودہ ضابطے یا اشتہار (جو موجودہ قانون کے خلاف ہو) اس کی اجازت نہ دیں۔جسٹس مشرا نے بنچ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سلیکشن لسٹ میں شامل ہونے کے بعد مذکورہ عہدہ کے امیدوار کو تقرری کا ناقابل تنسیخ حق نہیں ملتا، لیکن حکومت یا اس کی مشینری حقیقی وجوہات کی بناء پر آسامیاں نہ بھرنے کے آپشن کا انتخاب کرسکتی ہے۔
تاہم، اگر آسامیاں موجود ہیں، تو حکومت یا اس کی مشینری سلیکشن لسٹ میں زیر غور علاقے سے کسی شخص کو مقرر کرنے سے من مانی طور پر انکار نہیں کر سکتی۔یہ معاملہ ‘تیج پرکاش پاٹھک اور دیگر بمقابلہ راجستھان ہائی کورٹ اور دیگر’ (2013) میں تین ججوں کی بنچ نے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا، جس نے اس معاملے کو پانچ ججوں کے آئین کے پاس بھیج دیا۔ بنچ نے ‘منجوشری بمقابلہ ریاست آندھرا پردیش اور دیگر’ (2008) میں کیس کے سابقہ فیصلے پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔ اس معاملے میں کہا گیا تھا کہ سلیکشن کے معیار کو درمیان میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔آئینی بنچ نے جولائی میں سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔