عارف نقوی کے چھوڑے ہوئے ادبی کاموں کو آگے بڑھاناسچا خراج ہوگا: پروفیسر صغیر افراہیم
عارف نقوی نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیشہ نئی نسل کو آگے بڑھایا جائے:پروفیسر ریشما پروین
عارف نقوی کا جانا اردو ادب اور تہذیب کا بڑا نقصان ہے: پروفیسر فاروق بخشی
شعبہئ اردو میں ادب نما کے تحت معروف ادیب و شاعر عارف نقوی کی یاد میں تعزیتی جلسے کا آن لائن و آف لائن انعقاد
میرٹھ
عارف نقوی صاحب کے چھوڑے ہوئے ادبی سرمائے کو مطالعے میں لایا جائے اور ان پر تحقیقی کام کرایا جائے۔یہ ان کے لیے بڑا سچا خراج ہوگا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے اہم ارا کین میں سے ایک تھے۔عارف نقوی جیسے لوگ ادب کی خدمت کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں۔یہ الفاظ تھے معروف ناقد پروفیسر قدوس جاوید کے جو شعبہئ اردو اور آ یوسا کے ذریعے منعقد معروف ادیب و شاعر اور ڈراما نگار عارف نقوی،جرمنی کی یاد میں تعزیتی جلسے میں اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Arif_Naqvi
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز آف لائن صبح ساڑھے گیارہ بجے شعبہئ اردو کے پریم چند سیمینار ہال میں ایم۔ اے سال اول کے طالب علم محمد اکراماللہ نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ ہدیہئ نعت بی۔ اے آنرز کے طالب علم محمد عیسیٰ نے پیش کیا۔اس سیشن کی نظامت کے فرائض شعبے کے استاد ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیے۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق آئی جی آر کے بھٹنا گر نے کہا کہ آج مجھے بڑے فخر کا احساس ہو رہا ہے کہ عارف نقوی صاحب نے جرمنی میں رہ کر ہندوستان کا نام خوب روشن کیا اور وہ92سال کی عمر میں بھی بڑی دلجمعی اور سنجیدگی سے ادب اور سماج کے لیے کام کرتے رہے۔ واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ہمیں اس طرح کے لوگوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔بھارت بھوشن شرما نے کہا کہ عارف نقوی بہت ہی شریف النفس انسان تھے۔ ان کی تخلیقات ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی اور ہما ری خوا ہش ہے کہ ان کے ادبی سرمائے کو ہندی زبان میں بھی منتقل کیا جائے اور ہندی والے بھی ان کے چھوڑے ہوئے سرمائے سے فیض یاب ہوں۔ آفاق احمد نے کہا کہ عارف نقوی لکھنؤ کے تھے اور وہ لکھنوی تہذیب کی بہترین نمائندگی کرتے تھے، ان کی انکساری، شگفتگی، نرم لہجہ، انسان دوستی کمال کی تھی اور ان کا بڑا کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ اسپورٹس میں کیرم بورڈ کو جرمنی میں متعارف کرایا۔باری تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔انل شر ما نے کہا کہ لکھنؤ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جرمن میں اپنا وجود بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر عارف نقوی نے ایسا کر کے ایک شاندار مثال قائم کی کہ محنت، لگن اور ایمانداری سے سب کچھ ممکن ہے۔ انہوں نے ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ ریڈیو، اسٹیج، ہدایت کاری، کیرم بورڈ کا فروغ کے لیے بھی بہت کام کیے۔ ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔
آن لائن پروگرام دو پہر دو بجے سے سعید احمد کی تلا وت کلام پاک سے شروع ہوا۔صدارت کے فرا ئض ایو ساکی صدر پروفیسر ریشما پروین نے انجام دیے۔عارف نقوی کا تعارف ڈاکٹر شاداب علیم، نظا مت عر فان عارف جموں نے اور شکریے کی رسم ڈاکٹر سیدہ مریم الٰہی نے ادا کی۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف ادیب و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ عارف نقوی صاحب کا جانا ادب کا ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کا نقصان ہے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ جو دنیا میں آ یا ہے اس کو جانا ہی ہے مگر ان کا جانا ہم سب کا نقصان ہے۔
پروفیسر فاروق بخشی نے کہا کہ لکھنؤ،دہلی، حیدر آ باد اور میرٹھ میں ان سے کئی بار ملا قاتیں ہوئیں۔ حیدر آ باد سے بھی ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔ ان کا جانا اردو ادب اور تہذیب کا بڑا نقصان ہے۔ اب ایسا کوئی شخص نظر نہیں آ تا جو عارف صاحب کے مقا بل ہو۔انہوں نے ادب اور تہذیب کے لیے جو کام کیا اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ عارف نقوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ہر میدان میں میر کارواں کی حیثیت رکھتے تھے۔میں نے اپنی زندگی میں پروفیسر زماں آزردہ اور عارف نقوی کو ہی ایسا پایا کہ جس محفل میں موجود ہو تے پوری محفل ان کی گرویدہ ہوجاتی اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ شاید اسی مجلس کے لیے موزوں ترین انسان ہیں۔ وہ سنجیدہ ادبی لوگوں میں جہاں دانشور نظر آ تے وہیں وہ بچوں میں بچے۔ حتیٰ کہ وہ غیر تعلیم یافتہ طبقے میں بھی بیٹھ جاتے تھے تو ان کے ہم مزاج نظر آ تے۔ ان کا جانا نہ صرف ادبی دنیا یاہندو جرمن کا ہی نہیں پوری انسانیت کا خسارہ ہے۔معروف افسانہ نگار ارشد منیم نے کہا کہ عارف نقوی کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہے گی۔میرا ان سے ملنا خوش بختی کی علامت تھا جسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔معروف غزل سنگر مکیش تیواری نے کہا کہ عارف نقوی صاحب پر ایک بڑا پروگرام ہونا چاہئے۔ میرٹھ میں میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے پیار اور محبت سے ملے اور میری غزلیں بھی محبت سے سنیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کی یاد میں ایک بڑا جشن ہونا چا ہئے۔معروف افسانہ نگار رقیہ جمال نے کہا کہ ہمیں آج بڑا افسوس ہے کہ ہم نے اردو کی ایک بڑی شخصیت کو کھو دیا ہے۔میں نے اکثر ادب نما کے پرو گرام دیکھے اور سنے ہیں۔وہ بہت ہی محبت سے پروگرام میں شامل رہتے تھے۔ڈاکٹر الکا وششٹھ نے کہا کہ آج کی محفل بڑی اداس لگ رہی ہے۔کیو نکہ آج وہ ہماری محفل میں شریک نہیں ہیں۔ ان کا وجود ہمارے لیے بہت اہم تھا۔ان کی کمی کو کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر شاداب علیم نے کہا کہ ایو سا کے سر پرست اور بابائے اردو عارف نقوی کا جانا ہمارے لیے اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس کمی کو کبھی بھی پورا نہیں کیا جاسکے گا۔
عارف نقوی کی صاحب زادی نرگس عارف نے کہا کہ میں بہت شکر گزار ہوں کہ میرے والد کی یاد میں یہ تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری ہمارے والد کے اچھے دوستوں میں سے تھے۔ میں شعبہئ اردو کے تمام اراکین کی شکر گزار ہوں۔
لندن سے فہیم اختر نے کہا کہ عارف نقوی تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ دیگر مذہبی کاموں کو بھی احسن طریقے سے نجام دیتے تھے۔ عارف نقوی صرف ایک نام ہی نہیں ہے بلکہ ادب کا ایک بڑا مرکز تھے۔ ادب نما کا پلیٹ فارم خالی ہوگیا ہے۔لکھنؤ سے عاصم رضا نے کہا کہ میرے ماموں شارب رودولوی کے بچپن کے دوست تھے۔ ان کے ذریعے کھولے گئے کالج کی بھی عارف نقوی نے بہت مدد کی۔ ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
جرمنی سے عشرت معین نے کہا کہ عارف نقوی اور ان کے خاندان سے ہمارا بڑا قریبی رشتہ رہا ہے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ نئی نسل کو آگے بڑھایا جائے۔ اردو ادب کے سفر میں عارف نقوی ہمیشہ ساتھ رہے۔ان کی خواہش تھی کہ جرمنی میں ادب کے ایک بڑے پروگرام کا انعقاد ہو۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ عارف نقوی کے چھوڑے ہوئے ادبی کاموں کو آگے بڑھانا۔ سچا خراج ہوگا۔اردو کی مقبولیت کے لیے آپ نے جو کام انجام دیے انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ عارف انکل کے جانے کا یقین نہیں ہو تا۔ان کے اندر عاجزی و انکساری اتنی تھی کہ لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ میں ان کو انکل ہی کہا کرتی تھی۔ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ وہ انسان نہیں بلکہ انسان کی شکل میں فرشتہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ترقی پسندی کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی۔ عارف انکل ہمیشہ ہما رے دلوں میں زندہ رہیں گے۔جس طرح سے ادب نما کے تمام پروگراموں کو کامیاب بنانے میں عارف نقوی صاحب نے ہمارا ساتھ دیا۔ اس طرح سے کوئی دوسرا فرد ساتھ نہیں دے سکتا تھا مگر عارف نقوی نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیشہ نئی نسل کو آگے بڑھایا جائے۔ عارف نقوی نے جانے سے قبل ایک نئی نسل کو تیار کیا ہے۔ ہمیں ان کے مقاصد کو سمجھنا چاہئے اور ہمیں چاہئے کہ ہم عارف نقوی کے نام سے ایک ایوارڈ جاری کریں۔
پروگرام سے ڈاکٹر سیدہ خان، عمر فاروق، پروین شجاعت، جہانگیر روش، سفینہ خان،ندھی کنسل،صبیحہ، شہناز، سیدہ مریم الٰہی،علما نصیب،شہناز پروین، عظمیٰ سحر،شاہ زمن، محمد شمشاد،عمائدین شہر اور طلبہ و طالبات جڑے رہے۔