ملک میں ہماری ملی قیادت

0
39

محمد اعظم شاہد

سال 1986 ،بنگلور میں معروف صحافی، مدیر ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘دہلی جناب شاہد صدیقی سے میں نے ایک انٹرویو کیا تھا۔مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ ملک میں مسلم قیادت کا شدید بحران ہے۔ملت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے ۔باہمی اعتماد اور اتحاد ہم سے دور ہوگئے ہیں۔اسی لیے کوئی ایک بھی ایسی شخصیت ہمارے درمیان نہیں ہے ،جو ہماری قیادت کرے،ہماری رہنمائی کرے ۔اب بھی یعنی 38 سال گزرجانے کے بعد بھی ملک میں حالات ایسے ہیں کہ مسلم قیادت کا بحران اپنی جگہ پر قائم ہے۔

https://minorityrights.org/communities/muslims-2/

مجھے یاد ہے جناب شاہد صدیقی نے مشورہ دیا تھا کہ اُردو اخبارات کو ملی قیادت کا فرض ادا کرنا ہوگا کیونکہ اخبارات نہ صرف ترسیل وابلاغ کا موثر ذریعہ رہے ہیں بلکہ یہ ہمارے شعورکو بیدارکرنے Conscience Keeper کا وسیلہ بھی رہے ہیں ۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کم وبیش ملک بھر میں شائع ہونے والے اردو اخبارات نے مسلم قیادت کا کردار بخوبی نبھایا ہے ۔یہ روش آج بھی قائم ہے ۔ ان اخبارات میں گذرتے حالات وواقعات کی خبروں کے ساتھ ہی قارئین کی ذہن سازی کے لیے مضامین، تبصرے اور تجزیئے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو اخبارات پڑھنے والے ہمارے قارئین کی تعداد لگاتار گھٹتی ہی جارہی ہے ۔سوشیل میڈیا پلاٹ فارمس پر بھی ذہن سازی کا سلسلہ رواں دواں ہے۔ٹیکنالوجی میں تبدیلیوں کے زیر اثر انٹرنیٹ،موبائل فون، یوٹیوب، فیس بک اور واٹس ایپ پر بھی حالات سے آگہی حاصل کرنے کا چلن زور پکڑتا جارہا ہے۔ جہاں اچھے نتائج سامنے ہیں وہیں خرافات اور جذباتی معاملات میں الجھانے والے ویڈیوز اورپوسٹس نے خصوصی طورپر فیس بک اور واٹس ایپ پرشورمچایا ہوا ہے۔ اندھا دھند لوگ کثرت سے بیکار کی چیزیں شیئر کرنے میں آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات سے فیض مند استفادہ کرنے پر بہت کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔

 

 

 

مسلم قیادت کے بحران کی جو صورتحال اب بھی برقرار ہے اس پر غورکریں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم خود ہی وجہ Cause ہیں اور ہم ہی حاصل Effect ہیں ۔یعنی مسلم معاشرے میں لیڈر شپ کو پروان چڑھانے (قیادت سازی) کے رجحان کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔اپنی اپنی ذات کے حصار میں قید احباب اپنے مفادات کے حصول اور اقتدار کی انفرادی نعمتوں سے سرفراز ہونے کے متمنی رہے ہیں، جو ہمارے نام نہاد قائدین (جبکہ منتخب سیاسی نمائندوں کو جنہیں قیادت سے کوئی سرورکار نہیں ہے) ہیں اکثریت ان میں ایسے کرم فرماؤں کی ہے جن کے پاس ملی کاذ کی پاسداری اور مسائل کی یکسوئی کے لیے نہ کوئی بصیرت ہے اورنہ ہی جستجو۔وہ اجتماعی فلاح کے جذبے سے بیزار اوربے نیاز ثابت ہوتے رہے ہیں۔یہی اہم وجہ رہی ہے کہ ملک میں قومی سطح پر ہمارا کوئی اپنا ہماری قیادت کیلئے ابھر کر آیا ہی نہیں۔البتہ ملک کی چند ریاستوں میں قابل مسلم نمائندے اُبھرے جنہوں نے نمائندگی کا حق ادا کیا اور ان کی احسن کارکردگی کے باعث قومی سطح پر بھی ان کی سیاسی شناخت قائم ہوئی۔ مگر خود ان کے ہی سیاسی پارٹیوں میں ان کے سرکردہ سینئر مسلم رہنماؤں نے ان کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹیں پیدا کردیں ۔ اناپرستی اورذاتی کینہ پروری کے باعث خود ہمارے احباب ہی ہمارے اپنوں کی سرخروئی کی راہوں میں کانٹے بچھاتے رہے۔ اب ایسی صورتحال ہے تو سیاسی پارٹی جو بھی ہو وہ کس طرح مخالفتوں کے ماحول میں اپنے مسلم سیاسی کارکنان کو بڑھاوا دے گی۔
اسی آپسی خلفشار کے چلتے ہماری مسلم قیادت خانوں میں بٹ کر رہ گئی ہے ۔ ہماری مسلم نمائندے ریاستوں میں ہوں یا پھر قومی سطح پر جزیروں میں بٹ گئے ہیں ۔ دوسری جانب ملک کے مسلمان مسلم قیادت کے بحران سے مایوس ہوکر اپنی اپنی ریاستوں میں سیکولر سیاسی پارٹیوں میں قابل مسلم اُمیدوار ہوں تو انہیں یا پھر دیگر مذاہب کے سیاسی نمائندوں کی تائید کرنے میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں۔یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ ملک کے مسلمانوں میں عام طورپر بہت کم ہی ایسے افراد ہوں گے جو صالح سیاسی شعور کے حامل ہوں گے۔ اورایسے بھی ہیں جو الگ الگ سیاسی جماعتوں (پارٹیوں) کی شطرنج کی بساط پر مہرے بن کر کام کرتے ہیں ۔پہلے سے زیادہ اب حکومتوں کی فیصلہ سازی میں ہمارے نمائندوں کی ضرورت ہے۔ایوان اقتدار میں ہماری تعداد ہماری غلط اورناقص حکمت عملی کے باعث گھٹتی چلی جارہی ہے ۔ روشن خیال علمائے کرام وقتاً فوقتاً ملک کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔مگر مختلف جماعتوں کے زیر اثر اس شعبہ میں بھی اتفاق رائے اورحکمت عملی کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملک میں مسلم دانشوروں ،سیاستدانوں اور علمائے کرام اور دیگر Stake holders ذمہ دار احباب میں باہمی مشاورت اور حکمت عملی کے لیے آپسی مسلط کردہ فاصلے واقع ہیں جو کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جاتے ہیں ۔ اجتماعیت کو انفرادیت پر فوقیت دینے کا رجحان جو بنیادی طورپر ہمارے ذمہ داروں، کے اذہان وقلوب کو جب چھولے گا تب اُمید ہے کہ حالات کچھ تو بدلیں گے۔
[email protected]

cell: 9986831777

https://lazawal.com/?cat=14

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا