جاوید جمال الدین
مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کے درمیان امیدواروں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے اور کئی پارٹیوں میں باغیانہ تیور اور ناراضگی کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔اس درمیان یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اس بار مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کئی محاذ پر لڑے جانے کی توقع ہے،یہ بھی اندازہ ہے کہ سیاسی محاذوں کے ساتھ ساتھ خود پارٹیوں میں بھی آپسی چپقلش ابھرے گی۔
ویسے تو یہ سبھی کو علم ہے کہ مہاراشٹر میں جون 2022 میں، حکومت میں اچانک تبدیلی دیکھنے میں آئی،اور ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں مہاوکاس اگھاڑی ( ایم وی اے) گرادی گئی اور شیوسینا میں بغاوت کے بعد ایکناتھ شندے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں نئے وزیر اعلیٰ بن گئے،پھرنیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی ) میں بھی بغاوت ہوگئی اور شردپوار کے بھتیجے اجیت پوار ایک بار پھر حکومت میں شامل ہوگئے۔اب شندے کی قیادت والی مہایوتی حکومت نے دو سال اور چار ماہ سے اقتدار میں گزار دیئے ہیں اور انتخابات کو اعلان کردیا گیا ہے۔
ادھو ٹھاکرے کی زیرقیادت میں ایم وی اے حکومت، جو 2019 میں ایک غیر معمولی اتحاد کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی، دو سال سے کچھ زیادہ عرصے تک چلی، وبائی امراض اورشیوسینا پارٹی کی اندرونی بغاوت کی وجہ سے گر گئی اور اب بھی شرد پوار اپنی پارٹی کو ‘حقیقی این سی پی’ کے طور پر قائم کرنے کے لیے اپنے بھتیجے اجیت پوار سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ فی الحال معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
اس افسوس ناک حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دھلمل رویے کے سبب ادھو ٹھاکرے اور شردپوار کی اصل پارٹیوں کو سخت مزاحمت کرنا پڑی ہے،سریم کورٹ نے مہاراشٹر میں اقتدار کے لیے کی جانے والی اٹھاپٹک کے بارے میں گورنر اور اسپیکر سبھی کی سرزنش کی،بلکہ شندے حکومت کو غیر قانونی تک قرار دے دیا،لیکن شندے کو وزیراعلی کے عہدے سے ہٹانے کی جسارت نہیں دکھائی اور اس کے بر خلاف ادھو ٹھاکرے سے کہہ دیا کہ ” آپ نے استعفٰی کیوں دیا۔” مرکزی الیکشن کمیشن کا رویہ بھی نہ سمجھے کوئی جیسا رہا،دونوں نے کوئی واضح فیصلہ نہیں سنایا،جس کی وجہ سے بی جے پی کا حوصلہ بڑھ گیااور اس قدم کوحق بجانب قرار دے دیا بلکہ ثابت کیاگیاکہ یہ نظریات اور اصولوں کی لڑائی بتاکر لڑی گئی،اگر مرکز کی بی جے پی حکومت کی حمایت نہ ہوتی تو ایک دن بھی اس حکومت لاچلنا بھی چلنامشکل ہی تھا۔مکمل طورپر جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا۔
مہاراشٹرملک میں اترپردیش کے بعد دوسری بڑی ریاست ہے۔اس مرتبہ کانگریس، بی جے پی ،شیوسینااور این سی پی کے ساتھ ساتھ دو نئی پارٹیاں شیوسینا شندے اور این سی پی،اجیت پوار بھی میدان میں ہیں۔جن کے درمیان کانٹوں کی ٹکر ممکن ہے۔لیکن مہاوکاس اگھاڑی اور مہایوتی کانام دے دیا گیا ہے ،ان نئی پارٹیوں کو اقتدار ضرور مل گیا ہے،لیکن عام آدمی اور ورکروں میں عجیب سی بے چینی نظر آتی ہے۔
شیوسینااور این سی پی کا جہاں تک سوال ہے،اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دونوں دھڑے اپنی بقاء کی جنگ کررہے ہیں،البتہ یہ بھی سچائی ہے کہ آنجہانی بال ٹھاکرے کی حیثیت کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے،بلکہ ایک شیوسیناورکر ان کی مراٹھی مانس کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو بھول نہیں سکتے ہیں،کیونکہ سننکی تحریک نے انہیں برسر روزگار ہی نہیں کیا بلکہ تعلیم یافتہ بنانے میں بھی مدد کی۔شردپوار تو ایک قدآور رہنماء ہیں،ان۔کے مقابلے میں اجیت پوار کاقد بڑھ نہیں سکتا ہے،بدعنوانی اور بدکلامی سن کی شخصیت کو داغدار کرتی ہے۔اس بار یہ طے ہے کہ زمینی سطح پر پارٹی کارکنان میں ایسا جوش نہیں نظرآرہا ہے۔جیسا دوڈھائی سال قبل شیوسینا اور این سی پی کے باغیوں میں دکھ رہا تھا۔شندے گروپ نے لوک سبھا انتخابات میں کچھ اچھا کرکیا،لیکن این سی پی اجیت گروپ کی کارکردگی سے بے چینی سی ہے۔ایک حد کانگریس کی پوزیشن ٹھیک ٹھاک کہی جاسکتی ہے۔جسے فی الحال کسی بڑی بغاوت کاسامنانہیں کرنا پڑا ہے،کیونکہ لوک سبھا الیکشن میں بہتر کارکردگی کے سبب کانگریسیوں کے حوصلے بلند ہیں۔
ویسے اس اسمبلی انتخابات میں کئی خاندانوں کے درمیان مقابلہ آرائی ہوگی ،اجیت پوار، بارامتی اسمبلی سیٹ سے انتخاب لڑ رہے ہیں، ان کا سامنا ان کے اپنے بھتیجے، یوگیندر پوار سے ہے، جو کہ این سی پی (شردپوار) کی طرف سے میدان میں اترے ہیں۔
مہاراشٹر کےاسمبلی انتخابات میں، بہت سی نشستوں پر خاندانی دشمنی دکھائی دیتی ہے جہاں سیاست خون کے رشتوں پر چھائی رہتی ہے۔ باپ بیٹیاں، چچا بھانجے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ باپ اور بیٹے کی طرح بھائی بھائی بھی مخالف جماعتوں کے امیدواروں کے طور پر کھڑے ہوئپے ہیں۔
مہاراشٹر میں پوار بمقابلہ پوار کے ایک نئے دور کے لیے مرحلہ تیار ہے، بارامتی کے لوگوں کے لیے ایک طرح کا عجیب معاملہ ہے،جو گزشتہ مئی میں لوک سبھا انتخابات میں پوار خاندان کے دو افراد کے درمیان تصادم کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اس مقابلے میں شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے کا مقابلہ اجیت پوار کی اہلیہ سنیترا پوار سے ہواتھا، اب ریاست دو سطحوں پر چچا بھتیجے کی دشمنی دیکھے گی۔ شرد پوار اپنی پارٹی کو ‘حقیقی این سی پی’ کے طور پر قائم کرنے کے لیے اپنے بھتیجے اجیت پوار سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، اجیت پوار، بارامتی اسمبلی سیٹ سے انتخاب لڑ رہے ہیں، ان کا سامنا ان کے اپنے بھتیجے، یوگیندر پوار سے ہے، جو این سی پی (ایس پی) کے ذریعہ میدان میں اترے ہیں۔
نہ صرف ماموں اور بھانجے بلکہ ایک باپ بیٹی بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ گڈچرولی ضلع کی اہیری سیٹ پر، چار بار کے ایم ایل اے اور مہایوتی حکومت کے وزیر بابا دھرماراو آترم کو ان کی بیٹی بھاگیہ شری آترم نے چیلنج کیا ہے۔ بابا آتھرام اجیت پوار کی این سی پی کی نمائندگی کرتے ہیں، جب کہ ان کی بیٹی اسی سیٹ سے این سی پی (شردپوار) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہے۔
دیگر مثالوں میں بی جے پی کے سینئر رہنما نارائن رانے کے دو بیٹے مختلف پارٹیوں سے الگ الگ حلقوں میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ چھوٹے بیٹے نتیش کنکاولی سے بی جے پی کے امیدوار ہیں، جب کہ بڑا بیٹا نیلیش، جو حال ہی میں شیو سینا (شندے) میں تبدیل ہوا ہے، کدال سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ اگرچہ دونوں کا تعلق مہایوتی اتحاد سے ہے، لیکن خاندان کے دیگر افراد حریف اتحاد میں رشتہ داروں کے خلاف کھڑے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایرولی کے بی جے پی ایم ایل اے گنیش نائک کا سامنا اپنے چھوٹے بیٹے سندیپ سے ہے، جس نے بی جے پی چھوڑ کر این سی پی (ہوار) میں شمولیت اختیار کی اور بیلاپور سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جب کہ ان کے بڑے بھائی سنجیو نائیک بی جے پی کے ساتھ ہیں۔اسی طرح، چھگن بھجبل، ایک این سی پی مضبوط، ایولا سیٹ سے انتخاب لڑ رہے ہیں، جب کہ ان کے بھتیجے سمیر بھجبل نے این سی پی سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ نندگاؤں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ سمیر نے این سی پی کا ٹکٹ مانگا، لیکن سیٹ شیو سینا (شندے) کو دی گئی، جس نے اپنے موجودہ ایم ایل اے، سوہاس کاندے کو دہرانے کا انتخاب کیا۔گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں رائے دہندگان پر مہاوکاس اگھاڑی کی گرفت مضبوط رہی ہے ۔
مہاراشٹرملک کی ترقی یافتہ اور ممبئی تجارتی راجدھانی کہی جاتی ہے،دوسرے مسائل بے روزگاری ،کسانوں کی خود کشی کے ساتھ ہی دواہم ترین معاملے بھی رائے دہندگان کے رُوبرو ہیں ،جن میں مہاراشٹر کی صنعتوں کے گجرات لے جانے کا معاملہ بھی ہے اور ایک مسئلہ کافی سنگین کہہ سکتے ہیں،دراصل پہلے ہی ذکر کیا جاچکا ہے کہ شرد پوار اور اُدھو ٹھاکرے سیاسی اعتبار سے کافی مضبوط ہیں۔شردپوار کی سیاسی حیثیت اظہر من الشمس ہے ،لیکن ایم وی اے حکومت کی قیادت کرتے ہوئے ادھو ٹھاکرے کی سیاسی سوجھ بوجھ کے سبھی قائل رہے ہیں۔ان دونوں لیڈروں کے خلاف کسی بھی طرح کی سازش کومہاراشٹر کے عوام اچھا خیال نہیں کرتے ہیں اور وہ اس کاثبوت لوک سبھا انdتخابات میں دے چکے ہیں اور اس مرتبہ اسمبلی انتخابات میں ان سے’ غداری’کرنے والوں سے انتقام لینے کا انہیں پورا موقعہ مل گیاہے۔
9867647741