سریش سنگھ
رام بن ،جموں
آج کا دور تعلیم کے فروغ کا دور ہے، جہاں ہر والدین اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلانے کے لیے بے حد کوشش کرتے ہیں۔ معاشرہ تعلیم کو کامیابی کی ضمانت سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر بچے کو اسکول میں داخل کیا جاتا ہے تاکہ وہ بہتر مستقبل کے خوابوں کی تعبیر حاصل کر سکے۔ لیکن کیا ہم اس عمل میں کچھ اہم چیزیں بھولتے جا رہے ہیں؟ کیا ہمارا تعلیم یافتہ معاشرہ بچوں سے ان کا بچپن چھین رہا ہے؟
تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن جب تعلیم کا مطلب صرف کتابی علم اور امتحانات کی دوڑ رہ جائے، تو اس کا نتیجہ بچوں پر بے پناہ دباؤ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کی توقعات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بچوں کے پاس کھیلنے، ہنسنے، اور اپنی عمر کے مطابق زندگی گزارنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ بچوں کو صرف نمبر حاصل کرنے والی ایک مشین بنا دیا گیا ہے۔یہ صورت حال اس وقت اور سنگین ہو جاتی ہے جب بچوں کے لیے تعلیمی اداروں کی سخت روایات اور ضوابط ان پر ذہنی اور جسمانی دباؤ ڈالتی ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ جو بچے کو شعور دینے کے دعوے کرتا ہے، وہی بچپن کی معصومیت اور آزادی کو چھین لیتا ہے۔ نتیجتاً، بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر ڈپریشن، انزائٹی اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسی ہی میری کہانی ہے۔ میرا نام سریش سنگھ ہے ،میںخطہ جموں کے تحت ضلع رام بن کے گاؤں پوگل پریستان کا رہنے والا ہوں۔ میں ملک کے ان تمام والدین سے مخاطب ہوں جو پڑھائی کے نام پر یا کسی بھی اور غرض سے اپنے نونہالوں کو، اپنے جگر کے ٹکروں کو دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں ، والدین یہ سوچ کر ان کے ساتھ روانہ کر دیتے ہیں کہ میرا بچہ ان کی نگرانی میں رہ کر ، پڑھ جائے گا اور ایک اچھا شہری بنے گا۔
لیکن اکثرحقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔اس لئے آپ خداکے لئے ایسا ہر گز نہ کریں۔ آپ اپنے بچوں کو اپنے ہی گھر میں رکھیں، کسی کے گھر مت بھیجیں۔جی ہاںمیںصرف 12 سال کا تھا، جب جموں شہر میں ایک ڈاکٹرکے گھر پڑھنے کے لیے آیا تھا ۔ ان کی اہلیہ اسکول کی پرنسپل تھی۔مجھے وہاں تھوڑا کام بھی کرناتھا، مگر کچھ دنوں بعد مجھ سے اتنا کام کروایا گیا کہ میں ایک طالب علم سے محض ایک نوکر بن کر رہ گیا۔یہ ساری باتیں کہتے ہوئے میرا جسم کانپ جاتا ہے کہ کس طرح مجھے صبح چار بجے اٹھایا جاتا تھا ،پھر دو تین گاڑیاں صاف کروائی جاتی تھی، پھر گھر کی صاف، صفائی کے کام کے علاوہ جھاڑو، برتن، کپڑے دھونا سب طرح کا کام کروایا جاتا تھا۔ کپڑے دھونے کے لیے واشنگ مشین بھی تھی مگر اس میں کپڑے نہیں دھلتے تھے ،میرے سے ہی سارا کام کروایا جاتا تھا ۔ ایک دن ہمت کرکے مالکن( میڈم جی) سے میں نے کہا کہ مجھے اپنے گھر جانا ہے ،مگر میری ایک بھی نہیں سنی گئی۔کچھ دنوں بعد پھرسے ایک روز میں نے میڈم جی سے کہا کہ مجھے گھر کی یاد آرہی ہے ،مجھے میرے ماں باپ سے بات کروائی جائے۔ مگر مجھے روز نہیں بلکہ ہفتے میں یا دس دن میں ایک بار ہی فون پہ اپنے سامنے صرف دو منٹ کے لیے بات کرنے کی اجازت دی جاتی تھی ۔ آخر گاؤں کا ایک لڑکا جو ہمیشہ آزاد رہتا تھا، پورے گاؤں میں گھومتا رہتا تھا ،کھیلتا رہتا تھا، کس طرح ایک گھر میں کئی مہینوں تک بند رہ سکتا تھا۔ وہ ساری باتیں بیان کرتے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بہر کیف! جب اسکول جانے کا وقت ہوتا تو ہمیشہ میں نو بجے کے بجائے ساڑھے نو بجے اسکول پہنچتا تھا، مگر کوئی بھی اُستاد مجھے پوچھتا نہیں تھا کہ اتنی دیر سے کیوں آیا ہے؟ کیونکہ جن کے گھر سے میں آتا تھا وہ اسی اسکول کی پرنسپل صاحبہ تھی، جس کی وجہ سے مجھے کوئی کچھ نہیں بولتا تھا ۔ اسکول میں سب کے لئے دو بجے چھٹی ہوتی تھی، مگر مجھے 12 بجے یا ایک بجے ہی اسکول سے گھر کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا اورمجھے کسی بھی کھیل کود کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
کئی دنوں تک اپنے ماں باپ سے بات نہ کرنے کی وجہ سے اکثر اپنے گاؤں کی یاد آتی رہتی تھی ، جب یا د ناقابلِ برداشت ہوجاتی توچھت پر ریل گاڑی دیکھنے کے بہانے جاتا اور خوب روتا ،کچھ دیر رونے کے بعد من ہلکا ہوتا تھا ،توپھر نیچے آتا اور پھرسے اپنے کام میں مصروف ہوجایاکرتاتھا، مجھ سے صبح چار بجے سے لیکر رات کو 12 بجے تک کام کرایا جاتا تھا۔ ایک دن میری بہن اوشا دیوی، میرے سے ملنے آئی تو اس کو دیکھ کر مجھے رونا آگیا ،جس سے میری بہن کو بہت بُرا محسوس ہوا، میری آنکھوں کے آنسوں نے وہ سب کہہ دیا جو زبان نہیں کہہ پارہی تھی ۔میری بہن نے میرے بہنوئی سے بات کی،اور کچھ دنوں بعد اپنے گھربلالیا ۔ تب سے لیکر آج تک میں اپنی بہن کے گھر رہتا ہوں اور خوب محنت سے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھے ہوا ہوں ۔ ایک سال اس ڈاکٹر کے گھر گزارنے کے بعد میں اپنی بہن کے گھر آیا جہاں مجھے ہر طرح کا عیش و آرام ملا۔وہ کہاوت ہے نہ ’’جگر ،جگر است‘‘ اپنے تو اپنے ہی ہوتے ہیں ،یہ بات مجھے تب معلوم ہوئی جب بہن کے گھر رہنے کا موقع ملا۔در حقیقت اپنے، اپنے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے بہن کے گھر رہنے کیلئے آشیانہ تو مل گیا ، مگرمیرے والد صاحب اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ مجھے پڑھا سکیں۔ اس لئے میں نے کچھ روزگار ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مجھے ایسی نوکری بھی مل گئی ، جہاں سے مجھے کچھ پیسے ملنے لگے ۔جن سے میری ضرورتیں پوری ہونے لگی۔ دن بھرا سکول میں پڑھتا تھا اور پھر دو بجے چھٹی ہوتی تو دُکان پر کام کرنے آ جاتا تھا،جہاں سے میری آمدنی 12ہزار تک مہینہ پہنچ گئی ۔انہیں پیسوں سے میں نے خود کا کاروبار شروع کیا۔ اور آج جہاں میں گریجویشن کا طالب علم ہوں ۔وہیں اپنا ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ بھی چلا رہا ہوں ، اب میںبہت خوش ہوں ۔اپنی محنت کے پیسوں سے میں نے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی ہے۔
لیکن میری طرح نہ جانے کتنے بچے اب بھی معاشرے کے تعلیم یافتہ لوگوں کے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے نام پر اپنے بچپن کو قیدخانہ میں گزار رہے ہیں۔ اس مضمون کے ذریعے میں ان تمام ماں باپ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی اپنی اولاد کو کسی کے گھر نہ بھیجے تاکہ میرے بچپن کی طرح کسی اور بچے کا بچپن برباد ہونے سے بچ جائے۔بہرحال، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا صرف تعلیم کا مقصد بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانا ہے یا ان کی زندگی میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے؟کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ بچوں کو اپنی فطری خوشیوں سے دور کر کے انہیں خودغرضانہ خوابوں کی پیروی میں دھکیل رہا ہے؟تعلیم کا مقصد صرف امتحانات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بچوں کو عملی زندگی کی تربیت دینا اور انہیں ایک صحت مند اور خوشحال زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ بچوں کو ان کے خوابوں کی پرواز کرنے دیں اور ان کی بچپن کی خوشیوں کو زندگی بھر کے لیے یادگار بنائیں، کیونکہ یہی وقت ان کے لیے سب سے قیمتی چیز ہے۔یہ معاشرے کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک بچہ کس طرح تعلیم یافتہ ہوگا؟ کیا وہ آزاد ماحول میں تعلیم حاصل کرے گا یا پھر تعلیم حاصل کرنے کے نام کسی کے گھربچہ مزدور بن کرزندگی گزارنے پر مجبور ہوگا؟(چرخہ فیچرس)