محبت و الفت کی دوکان میں بھی نفرت و عداوت کے سوداگر ہیں

0
53

(مفتی)شفیع احمد قاسمی جامعہ ابن عباس احمد آباد
چند سالوں سے ہمارا ملک بھارت ایک سنگین بیماری سے جوج رہا ہے وہ نفرت و عداوت اور فرقہ پرستی کی بیماری ہے، یہ مرض خوب پنپتا جارہا ہے ،ہر آنے والے دن میں سابقہ دنوں سے زیادہ فرقہ پرستی و عداوت دیکھنے کو مل رہی ہے، یہ باہمی نفرت کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لیتی ، سوشل میڈیا کے توسط سے آئے دن اس کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ،

https://www.thehindu.com/news/national/west-bengal/rising-mob-lynching-incidents-in-west-bengal-symptom-of-a-bigger-social-issue/article68396632.ece

میرا خیال ہے کہ فرقہ پرستی و عداوت کا یہ مرض مہا ماری کرونا سے زیادہ خطرناک و ہولناک ہے جو اس ملک عزیز بھارت کو لگ گئی ہے اور گھن کی طرح اسے کھائے جا رہی ہے، جس سے ملک کھوکھلا ہو رہا ہے اس کی جڑیں کمزور سے کمزور تر ہوئی جاتی ہیں ، یقینا آج بھی اس ملک میں نفرت کے سوداگروں کی تعداد نسبتاکم ہے، لیکن بدقسمتی کہیے کہ آج وہی لوگ کرسی اقتدار پر قابض ہیں، اور اپنے زور قوت و چالاکی سے ہر محکمے تک اپنے ہم خیال افراد کو بیٹھا رکھا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف اقتدار کے کلیدی منصبوں پر وہ لوگ فائز ہیں بلکہ اوپر سے نیچے تک نفرت کے سوداگر بھرے پڑے ہیں اسی بنا پر وہ اقلیتوں سے ایسا جارحانہ برتاؤ کر رہےہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا ، اور ان کے گھروں پر بلڈوز کر رہے ہیں بلکہ آپسی محبت و الفت اور بھائی چارگی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اس نفرت و عداوت کی گھٹا ٹوپ اندھیاری میں کہیں کہیں محبت کی دیا جلتی دکھائی دیتی ہے اس فرقہ پرستی کے طوفان میں محبت کے چراغ جلانے والے کچھ لوگ دکھ جاتے ہیں نفرت و فرقہ پرستی کی اس مہا ماری سے ملک کی چیخیں نکل گئیں اس کی کرب و آہ سے ملک کے باشندے کراہ اٹھے ،اب اس ملک کی نفرت سے مسموم فضا کو تبدیل کرنے کی کچھ لوگوں میں بیداری آئی ہے، جس سے ملک کے سیکولر طبقے میں امید کی ایک کرن جاگ اٹھی، اور ایسے لوگوں سے امیدیں وابستہ ہو گئیں ، انہی میں ایک نمایاں نام کانگرس کے سابق صدر مہا مہم جناب راہل گاندھی جی ہیں جنہوں نے محبت کی ایک دوکان کھولی اور محبت و بھائی چارگی کی سوداگری کے لیے کشمیر سے لے کر کنھیا کماری تک کا پیدل مارچ کیا اور اس میں لوگوں کو محبت و الفت اور بھائی چارگی کا میسج دیا ، جس سے خصوصاً ملک کے دبے کچلے مائنورٹیز کو ایک حوصلہ ملا قوت ملی، انہیں لگا کہ اب ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا اقلیتوں کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا خاتمہ ہوگا تشدد و بربریت دم توڑ دے گی، اور آئین کی بالا دستی قائم ہوگی، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے محبت کی سوداگری کرنے والے کانگریس کی دکان میں بھی نفرت و عداوت کا بلبلا اٹھا، مسلم عداوت سے لبریز فرقہ پرستوں نے اس کی تحریک کی، پھر عداوت و نفرت کی وہ چنگاری شعلہ جوالہ بن گئی جس نے بکھیری گئی محبتوں کو آن کی آن میں جلا کر خاکستر کر دیا، اس کی تازہ شہادت حالیہ دنوں شملہ ہماچل پردیش کی مسجد کا واقعہ ہے، اس واقعہ کو لکھتے ہوئے مجھے بھی تعجب ہو رہا ہے یقین مانیے تعجب تو آپ کو بھی ہوگا تھوڑی دیر کے لیے اسے پڑھ کر آپ بھی سناٹے میں آجائیں گے حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب جائیں گے، ذرا سوچیے، ہماچل پردیش میں کانگرس کی حکومت ہے جو اپنے آپ کو سیکولر پارٹی کہتی ہے اور دن رات بھاجپا اور مودی سرکار کو سنودھان کا آئینہ دکھاتی پھرتی ہے، لیکن خود سنودھان اور آئین کا کتنا پاس و لحاظ کر رہی ہے وہ ملک کے دبے کچلوں اور اقلیتوں سے مخفی نہیں ،جس اسٹیٹ میں کانگریس اقتدار میں ہے وہاں آئین کی بالادستی کس قدر قائم ہے ؟ یہ بھی عیاں ہے، خود اس کے منتری سنتری بھی آگ لگانے سے باز نہیں آتے ہیں ، جہاں کہیں موقعہ ملتا ہے ، ماحول کو زہر آلود کرنے میں یہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے ہیں ، اس کی تازہ مثال ہماچل پردیش میں شملہ مسجد کا واقعہ ہے، اس کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی کہ ہماچل پردیش کے کسی علاقے میں ہندو مسلم جھگڑا ہوا ، یہ کوئی اچنبھے کی بات تو تھی نہیں، ساتھ رہنے والوں میں لڑائی و جھگڑا ہونا عام سی بات ہے ،اس میں تعجب کیوں ؟ جہاں چند برتن جمع ہو جائیں تو اس سے ٹن ٹن کی آواز آ ہی جاتی ہے اس سے بچا بھی نہیں جا سکتا، کیا کبھی دو بھائیوں کی لڑائیاں نہیں ہوتیں ؟ صرف بیگانوں میں لڑائیاں ہوتی ہیں ؟نہیں ، بلکہ اپنوں میں بھی ان بن ہوا کرتی ہے، بلکہ خون خرابے تک کی بھی نوبت آن پہنچتی ہے، تو پھر اس کو اتنا بڑا مدعا کیوں بنا گیا ؟ کیوں اس جھگڑے سے ہندو مسلم کے درمیان عداوت و نفرت کی کھائی پیدا کردی گئی ،اور اس سے فرقہ پرستی کو ہوا دیا گیا ، یہ غور کرنے کا مقام ہے، آپ نے بارہا یہ مثال تو سنی ہوگی، پانچوں انگلیاں برابر نہیں، تو ایک باپ کی چند اولاد مزاج و مذاق میں کیسے برابر ہو سکتی ہیں ؟ ایک کا مزاج و مذاق کچھ ہوتا ہے تو دوسرے کی طبیعت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے ، تو آخر کیوں نہیں یہ بات سمجھ آتی کہ خدانخواستہ اگر دو چار مسلمانوں نے اپنی نالائقی سے کچھ غلط کاموں کا ارتکاب کر لیا ،جھگڑے اور لڑائیاں کر لیں ،تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ سارے مسلمان لڑاکو اور جہادی ہوتے ہیں، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کس قدر نا سمجھی اور غیر دانشمندی ہوگی ،تھوڑی دیر کے لیے مان لیجئے کہ کچھ غیر مسلم برادران نے مسلمانوں سے جھگڑا کیا اس سے ہاتھا پائی کی اور اسے زخمی و خون آلود کر دیا تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا مناسب ہوگا ؟ کہ تمام غیر مسلم لڑاکو جہادی اور فرقہ پرست ہوتے ہیں ، دریں عقل دانش ببایدگریست شملہ میں سنجولی مسجد کا معاملہ کچھ اس طرح گرم ہوا کہ کانگریس کے ایک منتری نے ودھان سبھا میں اس قدر زہریلا بیان دیا کہ ہماچل کی پوری فضا زہر سے مسموم ہو گئی، اس نے اپنے بیان میں کہا ، آج کل ہماچل کی دھرتی پر روہنگیاں مسلمانوں نے پناہ لے رکھی ہے، اس نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب یہاں مسلمانوں کی بہت تھوڑی تعداد تھی ، آج یہ تعداد تقریباً دو ہزار تک پہنچ گئی ، یہ کہاں سے آگئے ، یہ بنگلہ دیشی اور روہنگیاں مسلمان ہیں ، اور اس کی دوسری زہر افشانی یہ تھی ، کہ شملہ میں سنجولی کی مسجد اوید اور غیر قانونی ہے، اور اس کے علاوہ بھی کچھ زہریلی باتیں کہیں، جس کے بعد دوسرے ہی دن سے معاملہ گرم ہو گیا اور شملہ کا پورا علاقہ فرقہ پرستی اور نفرت کی آگ میں جھلسنے لگا، اس کے بعد سے خصوصا سنجولی اور اس کے اطراف و اکناف کو فرقہ پرستی و عداوت کی بھٹیوں میں ڈھکیل دیا گیا ،اور اب نفرت و فرقہ پرستی کی آگ اس قدر پھیل گئی کہ اسے سنبھالے نہیں سنبھلتی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس علاقے میں برادران وطن کی طرف سے ریلیوں پر ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، کچھ ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، تو کہیں سرکار کو چیلنج کیا جا رہا ہے اس میں غیر دستوری اور غیر آئینی نعرے لگائے جارہے ہیں، اس میں بھالے اور تلواریں لہرائی جا رہی ہیں ان کے ہاتھوں میں غیر قانونی اسلحے ہیں اس سب کے باوجود پولیس تماش بینوں کی طرح دیکھ رہی ہے ،اور اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتی ، اس ویڈیو کی پسٹی نہیں کی جاتی ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا یہی قانون کی بالادستی ہے اسی طرح قانون اور دستور ہند کا تحفظ کیا جائے گا،اٹھتے بیٹھتے دوسروں کو قانون کی دہائی دینے والے کہاں ہیں، کہاں ہیں محبت کے ٹھیکے دار ؟ کیوں انہوں نے چپی سادھ رکھی ہے ؟ جیسے ان کے منہ میں دہی جم گئی ہے ، ایک دم سے سناٹا ہے، یہ قانون کی بالادستی نہیں بلکہ قانون شکنی کی زندہ مثال ہے ،اگر کسی آدمی نے جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اس مجرم کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے ملک میں کورٹ اور قانون موجود ہے، مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت اس کی گوشمالی کرے گی ، اس کی سزا طے کرے گی، جمہوری ملک میں کسی فرقہ کو کس نے یہ حق دیا کہ دیگر اسٹیٹ سے آئے ہوئے اقلیتوں کو غیر ملکی کہہ کر نکل جانے کی دھمکی دے ،اسے بنگلہ دیشی قرار دے اسے روہنگیاں بتائے، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ سب کے سب اسی ملک کے شہری ہیں، سرکار چاہے تو اس کی چھان بین کر لے، اور مکمل اطمینان حاصل کر لے ،یہ اپنے اور بچوں کے پیٹ کی خاطر مختلف اسٹیٹس سے آئے ہوئے لوگ ہیں، اور ان کو یہ ادھیکار ہے، کہ اپنے ملک کے کسی خطے میں تجارت و معیشت کیلئے جا ئیں ، لیکن افسوس صد افسوس کہ ان کو ان کے ہی ملک میں غیر ملکی بتا کر کھدیڑنے کی تیاری ہو رہی ہے ، آہ یہ درد و سوز اور کرب و الم وہ کس سے بیاں کریں ، دوسرا امر جو اس جھگڑے کے نتیجے میں رونما ہوا ، وہ اکثریتی فرقہ کی طرف سے شملہ میں سنجولی مسجد کو اوید اور غیر قانونی بتاکر توڑنے کی مانگ کرنا ہے ، جبکہ معاملہ کورٹ میں زیرِ سماعت ہے یہ کس قانون کے تحت ہے ؟ تو پھر عدالتوں کو بند کر دینا چاہیے اور بھیڑ جس اسٹرکچر کو بھی غیر قانونی بتادے اسے فوراً بلڈوز کر دینا چاہیے ، واضح رہے کہ یہ پوری مسجد غیر قانونی نہیں ہے بلکہ اس کی تعمیر کا کچھ حصہ غیر آئینی بتایا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ مسجد کوئی آج کی بنی نہیں ہے بلکہ 1947 میں یہ مسجد تیار ہوئی ہے اور یہ وقف بورڈ کی زمین ہے ، البتہ اس کے اسٹرکچر کا کچھ حصہ اوید ہے جو کورٹ میں زیرِ سماعت ہے یاد رکھیے اگر باہمی عداوت و نفرت کا یہ سیلاب تھما نہیں ،اور نفرت کے سوداگروں کا ہاتھ پکڑا نہیں گیا ،تو پھر اس ملک کا مستقبل خدا حافظ ۔

https://lazawal.com/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا