’’اے قائد ہند مہاتماگاندھی‘‘تیرے بعد کوئی تجھ سا لیڈر نہیں ملا!

0
50

قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

کسی بھی قوم ، مذہب یا اداروں کے نظم ونسق اور نظام کو بہتر اور ایک اصول کے تحت چلانے کیلئے لازمی ہے کہ کوئی اس کا رہنما و سرپرست ہو۔ بغیر رہنما کوئی بھی قوم یا ادارہ ایک لمحہ کیلئے بھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی ترقی کرسکتاہے۔ تاریخ عالم کو اگر دیکھا جائے تو نظر آتے ہیں کہ اس کرۂ ارض پر ایسے بھی لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ رقم کردی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے بہت سارے قومی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے اپنے قوم کی رہنمائی کی اور تاریخ میں اپنا نام روشن کیا۔

https://sjsa.maharashtra.gov.in/en/mahatma-gandhi-biography
ہندوستان کو آزادی دلانے والے موہن داس کرم چند گاندھی عرف مہاتما گاندھی کو ان تمام لیڈروں میں منفرد اور نمایا ںمقام حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے لیڈر تھے جن کے ہر انداز میں اپنوں کو مطمئن اور غیروں کو متاثر کیا، انہوں نے منتشر عوام کو متحد کیا، کمزور طبقے کو توانا بخشا، انہوں نے کبھی بھی مصلحت یا کسی مشکل سے بچنے کیلئے کسی غیر کا سہارا نہیں لیا۔ اوپر والے کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ملک کے عوام کی رہنمائی کی اور ایک ایسا اصول بنایا جو ہر ایک کیلئے مثالی ہے۔ تحریک آزادی کے سلسلے میں انہوں نے جس ولولے ، جرأت اور ہمت سے کام لیا وہ تاریخ عالم کا ایک درخشاں باب ہے، وہ جہاں سے گذرے ہر قوم اور عوام نے ان کا جس انداز سے استقبال کیا وہ بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے، یعنی کے ہمارے عظیم اور سچا قائد کا ہر انداز عوام کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتا ، وہ جہاں جہاں تقریر کرتے تھے لوگوں کا سمندر اُمڈآتے، ان کے ہر الفاظ کو لاکھوں عوام ماں کی لوری کی طرح انتہائی سکوون اور اطمینان سے سنتے۔
مہاتما گاندھی سیاسی میدان میں ایک ایسے عظیم سیاستداں تھے جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے کسی بھی سیاسی میدان میں سیاسی مخالفین کو مات دیئے بغیر نہیں رہے، ان کا جمہوریت پر پختہ یقین تھا، وہ سمجھتے تھے کہ جمہوریت ہی عوام کو خوشحال ، انصاف ، تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پورا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مہاتما گاندھی ایک سچے دیش بھگت تھے، انہیں غریب اور نادار طبقے سے بے پناہ محبت تھی، اپنی بکھری ہوئی عوام کو متحد اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ان کے رگ رگ میں جذبہ اور ولولہ موجود تھا، ان کے خون میں انسانی بنیادیں حقوق کے تحفظ کیلئے تڑپ موجود تھی، انہیں فرقہ واریت اور دیگر قوم کو منتشر کرنے والے رویوں سے سخت نفرت تھی، اسی لئے انہوں نے ہندوستان کی حصول آزادی کیلئے اپنا آرام ، سکون ، وقت الغرض سب کچھ قربان کردیا۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی اور اپنے درمیان آنے والی ہر مشکل کو پالیسی اور حکمت عملی کے ساتھ دشمنوں کے ہر وار کا مقابلہ کیا۔ ہندوستان کی آزادی میں کسی بھی سازش کو پنپنے نہیں دیا، آپ سچے ، کھرے اور نفیس شخصیت کے حامل تھے، دکھاوے سے پرہیز کرتے تھے، وہ خود کہا کرتے تھے کہ انہیں روایتی سیاستدانوں کی طرح شعبدہ بازیاں کرنا نہیں آتیں۔
مگر افسوس آج کی موجودہ حکومت میں لوگ انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں، عدالتیں مقدموں سے بھری پڑی ہیں، مظلوم چکی میں پس رہے ہیںاورظالم پیسے کے بل پر عیاشی کررہے ہیں، مساوات کا درس صرف کتابوں تک محدود رہ گیا ہے، عملی طور پر مساوات کہیں نظر نہیں آرہا بلکہ ایک دوسرے کا حق مار کر خوشی سے جی رہے ہیں۔ جو سیاست آج ہمارے سیاستداں کررہے ہیں وہ انتہائی غلیظ ہے، بدعنوانیاں، بے ایمانیاںہیں، ظلم وبربریت ہے، عصمت دری ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہماراملک غیر مہذب ہوچکا ہے، آئے روز سیلاب اور زلزلے ہمارا مقدر بن چکے ہیں ہم آج بھی حالت جنگ میں ہیں، یہ جنگ ہماری اپنی پیدا کردہ ہے، اگر جمہوری دور میں ریاست کے تقاضوں کو پورا کیا ہوتا ، جوانوں کو روزگار دیاجاتا، عوام الناس تک تمام سہولتوں کی رسائی آسان کیا جاتاتو آج ہمارا ملک خوشحال ہوتا مگر افسوس آج باپوں کے ہندوستان میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، کہیں امید کی کرن نظر نہیں آرہی ۔ کیا مہاتما گاندھی کا ہندوستان ایسا ہے کہ آج جس میں ہر طرف احتجاج ہورہا ہے، جس میں جمہوریت کے علمبردار ہر طرف احتجاج کی سیاست کررہے ہیں، ملک میں دھرنے ہورہے ہیں، کسی کو کچھ پرواہ نہیں ہے، ملک میں احتجاج پر احتجاج ہورہے ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ آج کے ہندوستانی حکمرانوں کیلئے بلاشبہ ان کی زندگی ایک سبق ہے لیکن افسوس کہ کوئی بھی مہاتماگاندھی کی زندگی کے اصولوں کو اپنا نا نہیں چاہتا۔ حالانکہ مہاتماگاندھی کی زندگی کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک ملک کا سربراہ ایسا بھی ہوسکتا ہے، جو بے لوث اور ہر طرح سے لالچ سے پاک اور ایثار پیشہ ہو۔ لیکن آزادی کے بعد سے اس ملک پر ایسے لوگوں کی حکمرانی ہونے لگی ہے کہ کیا بتایا جائے ، حقیقت یہ ہے کہ آج کرپشن ہی ہندوستان سب سے بڑی دشمن ہے ،جب تک کہ حکومت کے مختلف شعبوں سے اس زہر کو ختم نہیں کیا جائے گا ہندوستان کسی صورت سیاسی ، سماجی اور معاشی طور پر صحت مند نہیں ہوسکے گا۔ آج بھی ہندوستان ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو اخلاقی طور پر رول ماڈل بن سکے تو ہندوستان کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
اے قائد ہند مہاتما گاندھی، تیرے بعد تیری عوام کو تجھ سا کوئی لیڈر نہیں ملا، یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے ، خوش نصیبی کبھی اس ملک کے عوام کا زیور تھی جب آپ اس کے لیڈر تھے، لیکن آپ کی موت نے خوش نصیبی کو بد نصیبی میں بدل دیا۔ آج ملک کی سا لمیت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، کبھی ہم نے سوچا کہ آج باپو کی روح جب اس ملک کا طواف کرتی ہوگی تو کس قدر مضمحل اور مضطرب ہوتی ہوگی۔ جب ان کی نظروں کے سامنے یہ منظر رقص کررہے ہونگے کہ آج ہندوستان کے سیاستداں کردار کشی کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ، کرسی اقتدار کے حصول کیلئے یہ اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں، حالانکہ ان لوگوں کے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے بس غیرت کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر میدانِ سیاست میں مہاتما گاندھی کا موازنہ دنیا کے تمام سیاستدانوں سے کیا جائے تو مہاتماگاندھی بے داغ اور بااصول انسان دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے وقت کو بدلا ، وقت کے ساتھ نہیں چلا اور نہ ہی اپنے اصولوں پر سودابازی کی ۔ انہوں نے غلامی کی زنجیریں کاٹیں، غلامی کے طوق گلے میں نہیں ڈالا، انہوں نے کانٹوں پر سفر کیا، لیکن زخموں کی شکایت نہیں کی، انہوں نے زہر کا پیالہ پی کر تریاق ڈھونڈ لیا انہوں نے قافلے لٹائے اور منزل کو سینے سے لگالیا، انہوں نے آنسوں بہائے اور خوشیاں بانٹیں ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنے عظیم قائد کو دنیا میں روشناس کروانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی قومیں اپنے قائدین کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے احترام کرتی ہیںلیکن ہم لوگ اپنے قائد اور رہنما کیلئے کوئی حق ادا نہیں کرسکے۔
بہر حال محض جنم دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، ضرورت اس بات کی ہے اپنے قائد کی مہاتماگاندھی کی حیات کا عمیق نگاہوں سے مطالعہ کیا جائے اوران کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔

http://lazawal.com/?page_id

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا