نعت گوئی مقدم، معتبر، محترم اور وصفِ محمود، قرآنِ حکیم، اقوالِ رسول اور صحابہ کرام کا جذبہ عقیدت نعت کا عظیم معیار توسیعی خطبہ اور نعتیہ مشاعرہ سے پروفیسر عبدالحمید اکبر، ڈاکٹر اکرم نقاش اور ڈاکٹر ماجد داغی کا خطاب

0
51

لازوال ویب ڈیسک

کلبرگی //. امتِ مسلمہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے مقدس ترین اور اہم ذات رسول اکرم حضرت مصطفیٰ ﷺ کی ہے اور ہر مسلمان کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت، احترام اور محبت موجود ہے. ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر صدر شعبہ اردو حضرت خواجہ بندہ نوازؒ یونیورسٹی گلبرگہ نے انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ کے زیرِاہتمام ” نعت گوئی کا فن اور تقدسِ محمدی” کے زیرِ عنوان منعقدہ توسیعی لکچر سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

https://www.islamicfinder.org/special-islamic-days/12-rabi-ul-awal-2024/

انہوں نے فنِ نعت گوئی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ نعت موضوع کے لحاظ سے صنف ہے جسے کسی بھی شعری ہیئت میں کہا جاسکتا ہے. نعت گوئی کے آغاز و ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تاریخی اعتبار سے نعت گوئی کی ابتداء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ حیات ہی میں عربی زبان میں ہوئی تھی، بعد میں یہ صنفِ نعت فارسی و ترکی میں مروج ہوئی اور جب ہندوستان میں اردو زبان میں شاعری کا آغاز ہوا تو شعراء نے دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ نعت گوئی کو بھی اپنایا اور ابتداء تا ایں دم بے شمار شعراء نے نعتیہ شاعری کی، اور اب نعتیہ شاعری کا اک گنجِ گراں مایہ مہیا ہواہے. اس طرح اردو شاعری کی اصناف میں نعتِ رسول سب سے مقدم، معتبر، محترم اور وصفِ محمود ہے. انہوں نے نعت گوئی میں جذب و شوق کے نیازمندانہ اظہار کے تقاضوں کا ذکر کرتے ہوئے امجد حیدرآبادی اور عبدالماجد دریاآبادی کے حوالے سے کہا کہ شاعر کا حضور اکرم سے والہانہ خلوص و محبت کے ساتھ وصفِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے حسن و جمال کا نشاط انگیز نقشہ٫ فطری جوشِ تمنا اور وفورِ شوق کے ساتھ بیان ہو تو تغزل پیدا ہوگا. اس خصوص میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نعت کے معنیٰ یوں تو وصف کے ہیں لیکن ادب میں اس کا استعمال مجازاً صرف حضرت رسول کریم سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے وصفِ محمود و ثناء کے لئے ہوا ہے، جس کا تعلق دینی احساس اور حد درجہ عقیدت مندی سے ہے. مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت محمد مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف میں نعت کا لفظ پہلی مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نے استعمال کیا تھا. پروفیسر عبدالحمید اکبر نے نعت گوئی کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی بے خودی اور سرمستی کے عالم میں بھی آدابِ بارگاہِ نبوت کا ہر لحظہ لحاظ لازمی ہے. انہوں نے کہا کہ نعت کو شیریں و شگفتہ بیانی، دلآویز تراکیب اور مترنم بحروں سے مزین کیا جانا چاہیے. انہوں نے مشرقی ناقد ابنِ رشیق کے حوالے سے کہا کہ وصف کی نہایت بلیغ اور جامع تعریف یہ ہے کہ ‘وہ کان کو آنکھ بنا دے’ پروفیسر عبدالحمید اکبر نے تقدسِ محمدیﷺ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس خصوص میں قرآن کی بے شمار آیات اور احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ایثار و محبت کے لا تعداد واقعات موجود ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس و توقیر کو ظاہر کرتے ہیں. انہوں نے آیتِ قرآنی اور مفسرین کے حوالے سے تقدسِ محمدی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے ‘ کان فضل اللہِ علیک عظیما’ فرما کر سارے انبیاء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے انبیاء سے عہد لیا پھر نبوت، رسالت، خُلت و محبت، رؤیت و قربت، اِصْطِفی و اِسْرا ، وحی، شفاعت، وسیلہ، مقامِ محمود، براق، معراج، سیادت، امانت، ہدایت، رحمت اللعالمین، کوثر، شرح صدر، رفعِ ذکر، نصرت و امانتِ الٰہی، سکینہ، تائیدِ ملائکہ وغیرہ وغیرہ تقدسِ محمدی میں شامل ہیں. علاوہ ازیں آپ کے علم، حلم، وقار، بصیرت، عدم، زہد، تواضع، عفو و در گزر، عفت و شجاعت، جود و سخا، مروت وحیا وغیرہ اس قدر اخلاقِ کریمہ کا ایک انسان میں بدرجہ کمال جمع ہونا کمالِ بشریت کے انتہائی مقام کو ظاہر کرتا ہے. جس کے بیان میں نعت گو شعراء نے بہتر سے بہتر الفاظ کو تقدس کے صحیح اظہار کے لئے تہی داماں پایا. انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ تخیل نے پرواز کی بھی تو یہ کہہ کر رہ گئے کہ حُسنِ یوسف، دمِ عیسٰی ، یدِ بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری لیکن اس سے بھی اوصافِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح مقام متعین نہ ہوسکا اور آخر اپنے عجز کے اعتراف میں کہنا پڑا کہ لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر’ انہوں نے نعتوں میں حُسنِ تغزل کے نام پر تقدس سے مَاوَرا مضامین باندھنے پر اعتراض کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نعت جیسی پاکیزہ صنفِ سخن میں روایتی غزل کے لئے مستعمل شدہ غزلیہ مضامین، عامیانہ سطح کی تراکیب، اور معمولی نوعیت کی تشبیہات و استعارات سے حتی المقدور دامن بچانا چاہیئے. انہوں نے نعت کی رسمی، حقیقی اور دیگر اقسام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مقصدی نعت کی حقیقی روح، ادب و احترامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اگر یہ نہیں تو پھر روشنی سے محروم چراغوں کو پیش کرنے اور خوشبو سے محروم پھولوں کی نمائش سے کیا حاصل ؟ پروفیسر عبدالحمید اکبر نے نعت کے عظیم معیار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نعت کا عظیم معیار قرآنِ حکیم، اقوالِ رسول اللہ، احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا جذبہ عقیدت ہے انہوں نے شعراء کو مشورہ دیا کہ وہ عظیم نعت گو شعراء کے کلام کا باقاعدہ مطالعہ کریں، انہوں نے کہا کہ نعت کے لئے ایسا قلم چاہیے جو عقیدت کے گلاب مہکانا جانتا ہو، شاعر اپنے دل کے آئینے کو شفاف سے شفاف تر کرے تاکہ انوارِ محمدی و تقدسِ محمدی کی جلوہ گری خوب سے خوب تر ہو سکے. آنکھیں بھی باوضو ہوں دلوں میں بھی سوز ہو. ایک حرف بھی کہو تو کہو احتیاط سے کہو. علامہ اختر کچھچھوی نے کیا ہی خوب کہا ہے : صرف اسی کو ہے ثنائے مصطفی’ لکھنے کا حق = جس قلم کی روشنائی میں ہو شامل احتیاط نگران کار جلسہ ڈاکٹر اکرم نقاش صدر انجمن نے توسیعی خطاب پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ تقدسِ محمدی اور فنِ نعت گوئی پر پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر کا مقالہ بے حد مبسوط مدلل اور علم میں اضافہ کا مظہر ہے۔ یہ مقالہ ارتکاز خیال اور اِرْتِکازِ موضوع کی عمدہ مثال کہا جاسکتاہے۔ جس عرق ریزی اور عقیدتِ محمدی سے سرشار ہوکر یہ مقالہ لکھا گیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جاے کم ہے۔ انہوں نے اس مقالے کی پیش کش پر پروفیسر اکبر صاحب کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کی. قبل ازیں ڈاکٹر ماجد داغی معتمد انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ نے مہمانان و سامعین کرام کا خیرمقدم کرتے ہوئے ” نعت گوئی کا فن اور تقدسِ محمدی” کے زیرِ عنوان توسیعی خطبہ کے انعقاد کی غَرَض و غایَت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زبان و بیان اور نعتِ شریف کے آداب سے بے خبری کے نتیجے میں سرزد ہونے والی لغزشوں کے تدارک کے لئے ہماری آدابِ نعت گوئی سے بھر پور واقفیت بےحد ضروری ہے. اس لئے انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ نے اُردو زبان کی نزاکتوں اور نعت گوئی کے لَوازِمات و آداب اور تقدسِ محمدیﷺ پر اظہارِ خیال کے لئے جہاں پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر صاحب کو خصوصی طور پر مدعو کیا ہے، وہیں پر طرحی نعتیہ مشاعرہ کے لئے بارگاہِ رسالت مآب میں نذرانہ نعتِ شریف سنانے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے شہر گلبرگہ کے شعرائے کرام کو بھی مدعو کیا گیا ہے. توسیعی خطبہ کے فوری بعد طرحی نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں نگران کارِ اجلاس ڈاکٹر اکرم نقاش صدر انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ ، جناب حامد اکمل، جناب نورالدین نور، مفتی سید عبدالراؤف، ڈاکٹر چنداحسینی اکبر، ڈاکٹر ماجد داغی ، جناب قاضی انور، جناب اسد علی انصاری، ڈاکٹر عتیق اجمل، جناب نوید انجم، جناب توفیق احمد انجنئیر، جناب عبدالقدیر عرفان، جناب واجد اختر صدیقی، جناب جاوید اقبال، انجنئیر سخی سرمست، جناب مبین احمد زخم ، جناب ظفر اقبال، محترمہ اسماء عالم، جناب مقبول احمد نئیر، جناب خواجہ پیراں خواجہ نے نعتیہ کلام سنا کر داد و تحسین حاصل کی. اجلاس کا آغاز پروفیسر قاری محمد عبدالحمید اکبر کی قرآتِ کلامِ پاک سے ہوا اور ڈاکٹر افتخارالدین اختر نائب صدر انجمن کے اظہارِ تشکر پر اجلاس و طرحی نعتیہ مشاعرہ اختتام پذیر ہوا.

https://lazawal.com/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا