ہندوستان کے کسی حصے کو ’پاکستان‘ نہیں کہا جا سکتا: سپریم کورٹ

0
67

کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس سریشانند نے مبینہ طور پر بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ’پاکستان‘کہا تھا

یواین آئی

نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے کو ’پاکستان‘نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی، جج سوریہ کانت اور رشی کیش رائے پر مشتمل آئینی بنچ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی سریشانند کی طرف سے ایک معاملے کی سماعت کے دوران بنگلورو کے ایک حصے کو پاکستان کہنے کے معاملے میں ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سخت لہجے میں یہ تبصرہ کیا۔

https://www.livelaw.in/
آئینی بنچ نے تاہم اس معاملے میں جسٹس سریشانند کے اس معاملے میں عام معافی مانگنے کے پیش نظر ان کے خلاف شروع کی گئی ازخود نوٹس کارروائی کو بند کر دیا۔آئینی بنچ نے کہا کہ جسٹس سریشانند نے اپنی دو مختلف کارروائیوں کے دوران بنگلورو کے ایک حصے کو پاکستان بتانے اور ایک خاتون وکیل کے خلاف ذاتی ریمارکس دینے پر معذرت کی ہے۔ اس کے پیش نظر ان کے خلاف ازخود نوٹس کارروائی روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے سماعت کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے وکلاء ، ججوں اور مدعیان سے کہا کہ وہ عدالت میں پیش ہونے کے دوران کسی بھی حالت میں اس طرح کے طرز عمل میں شامل نہ ہوں۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کارروائی کا براہ راست ٹیلی کاسٹ نہ صرف عدالت بلکہ عام سامعین کے لیے بھی قابل رسائی ہے۔
بنچ نے کہا، ’’ججوں کے طور پر ہماری زندگی کے تجربات پر مبنی رجحانات ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک جج کو اپنے رجحانات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے شعور کی بنیاد پر ہی ہم غیر جانبداری فراہم کرنے کے اپنے فرض سے وفادار ہو سکتے ہیں۔ ہنگامی مشاہدات تعصب کی ایک حد تک نشاندہی کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی صنف یا برادری کے خلاف ہوں۔‘‘
جسٹس سریشانند نے مبینہ طور پر بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ’پاکستان‘کہا تھا۔جسٹس سریشانند کو ایک الگ معاملے میں ایک خاتون وکیل کے خلاف صنفی غیر حساس تبصرہ کرتے ہوئے بھی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا۔ سوشل میڈیا ’ایکس‘پر بہت سے لوگوں نے ان کے تبصروں پر اعتراض کیا تھا۔اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے 20 ستمبر کو اس معاملے میں ازخود نوٹس کی کارروائی شروع کی اور متعلقہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے رپورٹ طلب کی تھی۔
جسٹس سریشانند کے تبصروں پر رجسٹرار جنرل کی 23 ستمبر کو رپورٹ کو دیکھتے ہوئے، سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے کہا کہ رپورٹ کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کیے گئے تبصرے ضروری نہیں تھے اور ان سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔آئینی بنچ نے کہا، ’’جج (شریشانند) کی طرف سے کھلی اپنی عدالت کی کارروائی میں معافی مانگنے کے پیش نظر، ہم اسے انصاف اور ادارے کے وقار کے مفاد میں سمجھتے ہیں کہ کارروائی کو مزید جاری نہیں رکھا جانا چاہیے۔‘‘عدالت نے تاہم کہا کہ سوشل میڈیا کی وسعت اور رسائی میں کارروائی کی وسیع رپورٹنگ شامل ہے۔زیادہ تر ہائی کورٹس نے لائیو ٹیلی کاسٹ یا ویڈیو کانفرنسنگ کو اپنایا ہے۔
انصاف تک رسائی فراہم کرنے کے لیے لائیو ٹیلی کاسٹ اور ویڈیو کانفرنسنگ کی ضرورت کووڈ 19 کے دوران سامنے آئی تھی۔بنچ نے کہا، ’’وکلائ￿ ، ججوں اور عدالت کے ارکان کو سمجھنا چاہیے کہ لائیو ٹیلی کاسٹ کی ناظرین تک اہم رسائی ہے، جو ان پر ذمہ داری عائد کرتی ہے۔‘‘اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی نے کہا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ہائی کورٹ کی کارروائی کی کلپنگ دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ کیا اسے عدالتی پہلو کے بجائے چیمبر میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ میں نے کرناٹک میں بار کے اراکین سے بات کی ہے۔ "اگر کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو اس کے دوسرے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔”
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ چونکہ جج نے اب معافی مانگ لی ہے اس لیے کیس کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔اس پر بنچ نے کہا، ’’آپ اس ملک کے کسی بھی حصے کو پاکستان نہیں کہہ سکتے۔ یہ بنیادی طور پر ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔‘‘سپریم کورٹ نے رجسٹرار جنرل کی رپورٹ پر بھی غور کیا، جو جج کے سامنے دو کارروائیوں سے متعلق ہے۔یہ عدالتی کارروائی 6 جون 2024 کو ہوئی اور پھر مزید کارروائی 28 اگست 2024 کو ہوئی تھی۔

http://lazawal.com

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا