راجستھان میں پانی کی قلت سے زراعت اور مویشی پالن پر بحران

0
67

 

جمنا شرما

بیکانیر، راجستھان

راجستھان کا صحرا اپنی سخت آب و ہوا اور خشک سالی کے لیے معروف ہے، لیکن حالیہ برسوں میں پانی کی قلت نے ایک سنگین صورت حال اختیار کر لی ہے۔ بڑھتی آبادی، ماحولیاتی تبدیلیاں اور پانی کے ناقص انتظامات دیہی راجستھان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔

 

 

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں بے قاعدگی اور زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی نے زراعت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو متاثر کیا ہے۔دیہی علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ خاص طور پر سنگین ہے۔ لوگ اکثر کئی کلومیٹر دور سے پانی لانے پر مجبور ہیں، جس سے خواتین اور بچوں پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔کسانوں کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور مویشیوں کو پانی کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔حالانکہ حکومت نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جیسے کہ’جل جیون مشن‘ اور چھوٹے تالابوں اور ڈیموں کی تعمیر، لیکن یہ کافی نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی سطح پر پانی کے روایتی طریقوں جیسے کہ چیک ڈیم،بارش کے پانی کا ذخیرہ اورزمینی پانی کی ریچارج کو فروغ دیا جائے۔ ساتھ ہی پانی کے صحیح استعمال اور اس کے تحفظ کے حوالے سے عوامی آگاہی میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ راجستھان کے سرحدی ضلع بیکانیر کے بلاک لنکرنسرسے 13 کلومیٹر کی مسافت پر واقع راجپورا ہڈان گاؤں آباد ہے۔جہاں پینے کے صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ 800روپئے ادا کرکے دوردراز ٹینکر سے پانی منگواکر اپنی ضرورتوں کو پوری کرتے ہیں۔زیرزمین جو پانی ہے وہ نہایت ہی کھارا ہے جس کا استعمال پالتوں جانوروں اور دودھ دینے والے مویشیوں کے لئے بھی نہیں کیاجاسکتاہے۔

http://www.charkha.org/

اس سلسلے میں گاؤں کے باشندے مولا رام بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔یہ پانی صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے پینے لائق بھی نہیں ہے۔ زراعت پر منحصر کسانوں کو فصلیں اگانے میں دشواری ہوتی ہے اور مویشیوں کے لیے چارہ اور پانی کی کمی نے ہماری زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں پانی کے وسائل ناپید ہو رہے ہیں اور لوگ پانی کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پانی کی قلت دیہی راجستھان کے لیے ایک خاموش بحران بنتی جا رہی ہے، جو نہ صرف انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہے بلکہ حیوانات اور نباتات کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ راجستھان کے زیادہ تر علاقے صحرائی ہیں، جہاں بارش کی شرح پہلے ہی کم ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں بارشوں میں مزید کمی اور زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی نے صورتحال کواور بھی زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔جس کا حل تلاشنا ضروری ہے۔اسی گاؤں کی باشندہ تیجا نے پانی کی پریشانیوں کو بیان کرتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضرورت ہے کہ حکومت پانی کے روایتی ذخائر جیسے کہ جوہڑوں، تالابوں اورکنوؤں کو دوبارہ زندہ کرے اور پانی کے مؤثر انتظام کے لیے دیہی علاقوں میں جدید تکنیک متعارف کروائے۔ پانی کا تحفظ اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا اب دیہی علاقوں کے لیے بقا کا سوال بن چکا ہے اس لئے اب اس میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

گاؤں کے ایک دیگر باشندے روگا رام نے ماضی اور حال کو یکجاکرتے ہوئے بتایا کہ راجستھان کا دیہی علاقہ صدیوں سے زراعت اور مویشی پالن پر منحصر ہے، لیکن حالیہ برسوں میں پانی کی شدید قلت نے ان دونوں اہم شعبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بارش کی بے ترتیبی، زیرِ زمین پانی کی مسلسل کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے راجستھان کے کسانوں اور مویشی پالنے والوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ راجستھان میں زراعت کا انحصار زیادہ تر بارش پر ہے، لیکن حالیہ سالوں میں بارش کی کمی اور بے قاعدگی نے فصلوں کی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کسان جو پہلے کپاس، باجرہ، اور سرسوں جیسی فصلیں اگایا کرتے تھے، اب پانی کی کمی کے سبب چھوٹی فصلیں بھی ٹھیک سے اگا نہیں پا رہے ہیں۔ بارانی زراعت پر انحصار کرنے والے کسانوں کے پاس نہ تو کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی دستیاب ہے اور نہ ہی بارش کے متبادل ذرائع موجود ہیں۔اس کے نتیجے میں کسان مالی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ان کی آمدنی میں بھاری کمی آئی ہے اور بہت سے کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے دیے جانے والے امدادی منصوبے اکثر دیر سے یا ناکافی ثابت ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کسانوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں گاؤں کے سرپنچ نے پانی کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی کمی کا دوسرا سب سے بڑا اثر مویشی پالن پر پڑ رہا ہے۔ راجستھان کے دیہی علاقوں میں مویشی پالن ایک اہم ذریعہ معاش رہا ہے، خاص طور پر اونٹ، گائے،بھیڑاور بکریوں کا پالن۔ لیکن پانی کی قلت نے چارے کی فراہمی کو بھی مشکل بنا دیا ہے، جس سے مویشیوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ مویشیوں کے لیے پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے اور چارے کی قلت جانوروں کی تعداد میں کمی کا سبب بنا ہے۔

اونٹ، جو راجستھان کی پہچان ہیں، آج پانی اور چارے کی کمی کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ گائے اور بکریاں بھی مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بیمار اور کمزور ہو رہی ہیں، جس کا اثر دیہی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ سرپنچ نے کچھ تجاویزات رکھتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا کہ دیہی راجستھان میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے زراعت اور مویشی پالن دونوں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور مقامی ادارے مل کر مؤثر حکمت عملی تیار کریں۔اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں پانی کے روایتی ذخائر جیسے جوہڑ، تالاب اور کنوئیں پھر سے بحال کیے جائیں تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی کے کم استعمال والی زرعی تکنیکوں کو فروغ دینا ہوگا، جیسے ڈرپ ایریگیشن اور مائیکرو ایریگیشن، ساتھ ہی مقامی سطح پر بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ فصلوں کو بروقت پانی فراہم ہو سکے۔وہیں مویشی پالنے والوں کے لیے خشک سالی کے دوران چارے اور پانی کا انتظام کیا جائے تاکہ مویشیوں کی صحت اور تعداد کو برقرار رکھا جا سکے۔پانی کی قلت ایک فوری حل طلب مسئلہ ہے اور اگر اس پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو دیہی راجستھان کی معیشت مزید بگڑ سکتی ہے۔ جو پانی دستیاب ہے اس کے بوند بوندکی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ صرف ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی پانی میّسر ہو سکے۔ (چرخہ فیچرس)

http://LAZAWAL.COM

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا