سید زاہد
بدھل،راجوری،جموں
جموں و کشمیر کا ضلع راجوری ایک پسماندہ اور دشوارگزار علاقہ ہے جہاں دیہی آبادی کی بڑی تعداد بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سڑکوں کی عدم دستیابی ان مشکلات میں سے ایک ہے جو اس علاقے کے لوگوں کی زندگی کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ یہاں کے دیہات سڑکوں سے جڑے نہ ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں جن میں نقل و حمل، صحت کی سہولیات تک رسائی، اور معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ شامل ہے۔دیہی علاقوں میں سڑکوں کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو روزمرہ کی سرگرمیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ راجوری کے دور دراز علاقوں میں زیادہ تر لوگ کھیتوں پر کام کرتے ہیں یا چھوٹے کاروبار چلاتے ہیں، لیکن سڑکوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی محنت کا صحیح معاوضہ حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ دیہاتوں سے قریبی بازاروں تک جانے کے لیے کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے، جو نہ صرف وقت طلب ہے بلکہ خطرناک بھی ہو جاتا ہے۔
http://www.charkha.org/
سڑکوں کی کمی کی وجہ سے صحت کی خدمات تک رسائی بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر کسی گاؤں میں کوئی مریض ایمرجنسی کی حالت میں ہو، تو اسے قریبی اسپتال تک پہنچانا اکثر ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں مریضوں کو پیدل یا جانوروں کی مدد سے اسپتال تک لے جانا پڑتا ہے، جس سے زندگی بچانے میں قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔راجوری کے دیہی علاقوں میں سڑکوں کی عدم دستیابی کا ایک اور منفی پہلو تعلیم پر بھی پڑرہا ہے۔بچے جو کہ دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں اسکول جانے کے لیے کئی کلومیٹر کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے زیادہ تربچے خصوصاً لڑکیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں یا اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کیونکہ نقل حمل کا فقدان ہونے کی وجہ سے والدین انہیں پیدل اسکول بھیجنے پر راضی نہیں ہوتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے ضلع راجوری کی تحصیل خواص جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ خطہ پیر پنچال کے راجوری ضلع میں درجنوں گاؤں آج بھی بنیادی سہولیات کو لے کر ترس رہے ہیں۔ ضلع کی تحصیل خواص کا دور دراز گاؤں گونڈی جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جس کی وجہ سے ایک وسیع آبادی کو مشکلات کا سامنا ہے۔ مذکورہ گاؤں میں رابطہ سڑک کی عدم دستیابی سے عوام پریشان ہے۔اس سلسلے میں مقامی نوجوان محمد شبیر نے بتایاکہ خواص کے اکثر دیہات میں رابطہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگ اپنے کندھوں پر سازو سامان اپنے گھروں تک پہنچانے پر مجبور ہیں۔اس علاقہ کو آس پاس کے علاقے سے جوڑنے کے لیے کوئی بھی رابطہ سڑک تعمیر نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھروں تک ضروری ساز و سامان کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ایک دیگر مقامی جا ویداحمد کے مطابق ”خواص تحصیل کی گونڈی پنچائت کے وارڈ نمبر چھ،سات اورآٹھ کیلئے دستیاب بجلی ٹرانسفارمر اکثر وبیشتر خراب ہوتے رہتے ہیں۔ایسے میں مذکورہ وارڈوں کے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا کر بجلی ٹرانسفارمر کو منتقل کرتے ہیں۔مذکورہ وارڈ سڑک ہیڈکواٹر سے کئی کلومیٹر کی مسافت پر آباد ہے اورابھی تک یہاں کی عوام کو رابطہ سڑک کا انتظار ہے۔اس ضمن میں مقامی نوجوان منظور حسین نے کہا کہ مذکورہ گاؤں کے باشندے پانی اور سڑک جیسی بنیادی سہولیات کے فقدان کے درمیان اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہاں سڑک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی بھی سامان کو یہاں کندھوں پر اٹھا کر لانا پڑتا ہے۔
وہیں ایک اورمقامی نوجوان بیشن شرما نے بتایا کہ ویسے تویہ گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے لیکن سب سے اہم مسئلہ سڑک کی عدم دستیابی کا ہے جو کافی پریشان کن ہے۔انہوں نے کہاکہ سڑک جیسی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے اور جدید دور میں بھی ہمیں مریضوں کو کندھے پر اٹھا کر ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جلد ہسپتال نہیں پہنچنے کی وجہ سے مریضوں نے راستے میں دم توڑدیا۔یہاں سڑک نہ ہونے کہ وجہ سے اکثر حاملہ خواتین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ انہیں ہسپتال پہنچانے میں کافی مشکلات آتی ہیں۔ شرما نے بتایا کہ سڑک نہ ہونے سے ہمارے بچے خصوصاً لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتی ہیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے گاؤں سے باہر جانا پڑتا ہے ا ور گاؤں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سفر متاثر ہو تا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ پانچ سے چھ کلو میٹر پیدل سفر طے کرنے کے بعد سڑک کا دیدار ہوتا ہے۔ وہیں 23 سالہ ریکھا کماری کہتی ہیں کہ ملک کا دور درازکا یہ علاقہ آج کے دور میں بھی سڑک جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔
دور جدید میں ان علاقوں میں سڑک کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ اس کے سبب آئے روز علاقہ کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ستائیس سالہ کنیز اختر کے مطابق سڑک نہ ہونے سے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔سب سے زیادہ مشکل حاملہ خواتین کوہوتی ہے جنہیں چارپائی پر اٹھا کر کئی میل مسافت کے بعد سڑک تک پہنچایا جاتا ہے جہاں سے انہیں ہسپتال تک لے جایا جاتا ہے۔ کئی گھنٹوں کا سفر طے کر کے سڑک تک پہنچنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ علاقہ کے مریض ہوں یا حاملہ خواتین انہیں،چارپائی پر اٹھا کر سڑک تک پہنچانا لوگوں کے لئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔اس حوالے سے راکھی شرما نے بتایاکہ علاقہ میں سڑک کی سہولیات میسر نہ ہونے سے عوام بے پناہ مشکلات سے دوچار ہے۔ اگرچہ اس متعلق سے بارہا انتظامیہ سے گوہار لگائی گئی تاہم کوئی خاطر خواں نتیجہ برآمد نہیں ہوپایاہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ معاشی طور پر کمزور عوام کی آبادی پر مشتمل ہے لیکن اس دوردراز اور پسماندہ علاقہ کی عوام گزشتہ کئی برسوں سے سڑک کی منتظر ہے۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے سڑکوں کی تعمیر کے لیے کئی اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں، لیکن راجوری کے دیہی علاقوں تک ان کا فائدہ پہنچنے میں بہت دیر ہو رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان علاقوں کی جانب فوری توجہ دے اور سڑکوں کی تعمیر کو اولین ترجیح بنائے۔ اس کے ساتھ ہی مقامی لوگوں کو بھی آگے آ کر اپنی آواز اٹھانی چاہیے تاکہ ان کی مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔سڑکوں کی عدم دستیابی نے راجوری کے دیہی علاقوں کی ترقی کو کافی حد تک روکا ہوا ہے۔ بہتر نقل و حمل، صحت کی سہولیات، اور تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے سڑکوں کا بنیادی انفراسٹرکچر ضروری ہے۔ حکومت اور مقامی افراد کو مل کر ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا تاکہ راجوری کے دیہی علاقے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔(چرخہ فیچرس)