’’بلڈوزرسیاست‘‘ پر اب لگام لگنے لگی ہے

0
0

محمد اعظم شاہد

 

ملک میںمسلمانوں کی جانب سے کسی بھی طرح کی مسلم مخالف قانون کے خلاف مزاحمت، احتجاج یا دھرنا دینے کی پاداش میں ان پر فرقہ پرست یعنی بی جے پی حکومتیں کئی طرح کے ظلم وستم کرتی آئی ہیں -اکثر دیکھا گیا ہے کہ اترپردیش، مدھیہ پردیش، دہلی، راجستھان اور آسام میں مسلمانوں کے گھر یا پھر مدرسے اور مساجد پر بے رحمی کے ساتھ بلڈوزر چلائے گئے ہیں-وجہ یہ بتائی جاتی رہی کہ جن تعمیرات کو مسمار کیا گیا ہے وہ غیرقانونی طورپر تعمیرکئے گئے ہیں -یعنی قانونی طورپر مقامی بلدی اداروں سے تعمیرات کیلئے منظوری نہیں لی گئی ہے -ایسے بے شمار واقعات گذرے ہیں

https://x.com/mohdazamshahid

 

 

-دھڑا دھڑ مکانات بلڈوزر سے گرائے گئے ہیں -یہ سب مسماری اور غارت گری مقامی پولیس کی نگرانی میں مقامی بلدی حکام کی جانب سے کی جاتی رہی ہے -عوامی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے جہد کاروں کی آواز کو نہ صرف دبایا گیا بلکہ انہیں متاثرین کے قریب آنے سے بھی روکا گیا – یہ سب کچھ متاثرین کے اپنے گاؤں، شہرمیں ہوتا رہا- یعنی وہ اپنی ہی زمین پر غیر قرار دے دئے گئے -دراصل اقلیتوں اور مسلمانوں کی آواز کو ہر طرح سے دبانے، انہیں مجبور کرنے اور قانون کی نام نہاد آڑ میں انہیں بے عزت اوربے وقعت کرنے کی مذموم کوششیں کی جاتی رہیں- اترپردیش میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بلڈوزر راج کی شروعات کی، پھر مدھیہ پردیش میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بھی یہی حربہ آزمایا- دلی میں پولیس اور دلی ڈیولمپنٹ اتھارٹی مرکزی حکومت کے تحت کام کرتے ہیں -یہاں بھی بلڈزور کو قانون لاگو کرنے کی آڑ میں بالخصوص مسلمانوں کے مکانات اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا – بلڈوزر ہراسانی سے جوبے اطمینانی متاثرین نے محسوس کی وہ ملک بھر میں آئین، قانون، انصاف اور انسانی حقوق میں اعتماد رکھتے ہیں، ان سب نے اس کارستانی کو بنیادی طورپر انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی رہائش کے وقار کی حق تلفی کے طورپر محسوس کیا – ضلع اورریاستی عدالتوں میں عرضیاں داخل کی جاتی رہیں – ہر بار یہ معاملہ سامنے آیا کہ جو کچھ بلڈزور کارروائی سے کیا جاتا رہا ہے وہ قانونی اعتبار سے درست اقدام قرار پایا- انسانی حقوق کی سلامتی کیلئے کام کرنے والے کئی اداروں نے عدالت عالیہ سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا- متاثرین مسلمانوں اور اقلیتوں کی زبوں حالی اور ریاستی حکومتوں کی بالادستی پر جمعیت علماء ہند نے بھی سپریم کورٹ میں بلڈوزر ہراسانی پر مقدمات کی پیروی کیلئے معتبر وکلاء کے ذریعہ انصاف کیلئے آواز اٹھائی- مرکزی اورریاستی حکومتوں پر بلڈوزر کارروائیوں پر روک تھام کا مطالبہ کیا -بالآخر 2 ستمبر 2024 سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن پر مرکز اورریاستی حکومتوں کو پھٹکار لگائی- اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے اعادہ کیا کہ ملزم تو دورکسی مجرم کے گھر پر بھی بلڈوزر چلانے کا کسی کو اختیار نہیں ہے -داخل کی گئی عرضیوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ بلڈوزر کارروائیوں پر ملک بھر کیلئے سپریم کورٹ اپنی ہدایات بنائے گی- 13ستمبر تک فریقین کی جانب سے تجاویز جمع کروانے کی ہدایت کے ساتھ عرض گذاروں کے معاملے کی سماعت کیلئے اگلی تاریخ 17 ستمبر مقرر کی گئی ہے -سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے صاف طورپر یہ باور کروادیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں فوری یا یک لخت یا عُجلت میں انصاف کیلئے بلڈوزر سسٹم Bulldozer System اب نہیں چلے گا- جمعیت علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل دشنیت دلوے نے کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلڈوزر کارروائی سے گھر کا حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے حق Right to live & living کے حق کا ایک پہلو ہے – مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل داوے نے یہ بھی پرزور مطالبہ کیا کہ جہاں جہاں نام نہاد قانون کی آڑ میں مکانات بلڈوزر سے منہدم کئے گئے ہیں -وہاں عدالت کی جانب سے دوبارہ تعمیرکا حکم بھی دینا چاہئے –

17ستمبر کی اگلی سماعت کے بعد ہی قطعی طورپر معلوم ہوگا کہ سپریم کورٹ اپنا حتمی فیصلہ کس طرح کس نوعیت کا سنائے گا- مگر اس عبوری فیصلے سے ملک بھر میں یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ’’بلڈوزر سیاست‘‘ Bulldozer Politics کا گھناؤنا پہلو اب قانون کی گرفت میں آیا ہے – امید کی جارہی ہے کہ اس ضمن میں مرکزی اورریاستی حکومتوں کو بالخصوص جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے وہاں بلڈوزر انتقامی کارروائیوں پر لگام لگے گی- تاناشاہی کا رجحان ختم ہوگا-

سپریم کورٹ کے اس فیصلے پرجواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں سینٹر فار اسٹڈی آف لاء اینڈ گورنینس کی غزالہ جمیل نے اپنے مدلل اور مفصل تجزیہ میں بلڈوزر کارروائی کا تاریخی خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دراصل صیہونی اسرائیل نے فلسطینیوں کے رہائشی حقوق کی پامالی کیلئے بلڈوزر کی جارجیت کا استعمال کرکے دہشت پھیلائی تھی -فلسطینی رہائشیوں کے ملبے پر نیا اسرائیل تعمیر کیا تھا- یہی جارحیت مکانوں کے انہدام کے طورپر جرمنی کے درسدین، جاپان کے ہیروشیما ناگاساکی میں بمباری، ویت نام، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، عراق میں دیکھی گئی ہے -غارت گری مچانے کے اس طرز کو دائیں محاذ Right Wing نے ہرجگہ اپنایا – ہندوتوا نظریات کے پیش نظر بی جے پی نے مسلمانوں اور اقلیتوں کو کینسراور دیمک کی طرح پاک وطنیت کی جغرافیہ کو خطرناک سمجھا- اس تخریبی سوچ کے زیر اثر مسلمانوں اور اقلیتوں سے انتقام لینے انہیں بے عزت، بے وقعت کرنے انہیں Disposess یعنی اپنی رہائشی جائیداد سے محروم کرنے انصاف کے حصول کے نام پر بلڈوزر کارروائی کو قانون کی آڑ میں استعمال کرکے کہرام مچایا ہے – کھلواڑ کیا ہے – غزالہ جمیل نے اپنے تجزیہ میں حکومت کی بالادستی اورانہدامی کارروائی کو Domicide اور شہری آبادی میں کہرام کیلئے Urbicide کی اصطلاح استعمال کی ہے، جو عام اور غریب لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف ہیں – فرقہ واریت پر مبنی حکومت کے ناپاک منصوبوں کو انہوں نے Ethno State نسل پرست حکومت کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ناپاک کارروائیوں پر روک لگنا ہی بے کس عوام کے ساتھ اب انصاف ہوگا-

Mob: +91 99868 31777 |

[email protected]

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا