جنسی تشدّدکے سانحات کے در پردہ سیاسی مفادات

0
0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ : 8969648799
گزشتہ 9؍ اگست کو کولکتا کے آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال کی ایک جونئیر ڈاکٹر کے زنابالجبر اور بہیمانہ قتل کئے جانے کی حیوانیت نے پوری انسانیت کو شرمسار کیا ہے ۔ اس المناک سانحہ پر جتنا بھی افسوس اور مذمّت کی جائے کم ہے۔لیکن اس سانحہ کو جس طرح سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے،وہ بھی شرمناک ہے

https://indianexpress.com/

لگتا ہے کہ پورے ملک میں جنسی استحصال ، عصمت دری ، اور ظلم و بربریت کایہ کوئی پہلا سانحہ ہوا ہے نیشنل کرائم ریکارڈ ( NCRB ) کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر گھنٹہ 50 سے زائد لڑکیاں جنسی درندگی کی شکار ہوتی ہیں اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں جوان اور معصوم بچیاں غائب کی جاتی ہیں ۔ نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کے مطابق گزشتہ 2022 ء میں 31,516 لڑکیاں غائب ہو چکی ہیں۔ ان غائب کی جانے والی لڑکیوں کا کس طرح کا استحصال کیا جاتا ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس معاملے میں غیر ملکی خواتین کو بھی نہیں بخشا جا تا ہے ۔ صرف 2022 ء میں ہی 22 غیر ملکی خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے کیس درج ہوئے ہیں ۔ یہ امر بھی بہت ہی افسوسناک ہے کہ جنسی حیوانیت کی شکار ہونے والی یا غائب ہونے والی ان ہی بچیوں کی خبریں سامنے آتی ہیں ۔ جن کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں ۔ گزشتہ اگست ماہ میں ہی اترا کھنڈ کی ایک نرس تسلیم جہاں کی اجتمائی آبرو ریزی کی گئی اور بڑی اذیت ناک طور پر اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا لیکن کہیں کوئی احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا ۔ ابھی کل ہی پرسوں ہمارے گیا ضلع کے شیرگھاٹی تھانہ کے ایک گاؤں میں گھر کے باہر اپنی ماں کے ساتھ سوئی ایک نابالغ بچی کو گاؤں کے ہی چند غنڈے زبردستی اٹھا کر لے گئے اور اجتمائی عصمت دری کے بعد موت کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لیکن ا س غریب اور معصوم بچی پر مظالم کے توڑے جانے والے پہاڑ پر کہیں کوئی ہنگامہ ،کوئی احتجاج اور مظاہرہ صرف اس لئے دیکھنے کو نہیں ملاکہ یہ بچی غربت اور مفلس سے نبرد آزما کسی ماں کی تھی جس کے پا س سر چھپانے کے لئے ایک چھت تک میسر نہیں ہے ۔’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘کابے اثر ہوتے نعرہ کی یہ مثال سامنے ہے ۔

https://www.ncrb.gov.in/
لیکن افسوس کہ کولکاتہ کی ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والے عصمت دری اور ظلم وبربریت کو انسانیت سے کہیں زیادہ سیاسی رنگ دے کر اس المناک واقعہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ، جو حد درجہ شرمناک ہے ۔ اگر آئے دن ملک کے اندر ایسے رونما ہونے والے سانحات پر مرکزی حکومت اتنا ہی حساس ہے تو پھر مزکورہ شرمناک واقعہ کے بعد یا اس سے قبل بہار ، اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، آسام ، منی پور ،مہاراشٹر وغیرہ میں جس طرح اجتمائی آبرو ریزی کے سانحات ہو ئے ہیں ۔ ان سانحات پران بچیوں کی چیخوں کی باز گشت گونج رہی ہے ان پر تادیبی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان بچیوں کے زانی اور قاتل کیوں آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے انتظامیہ کو مُنھ چڑھا تے پھِر رہے ہیں ۔ انتہا تو یہ ہے گزشتہ دنوں زنابالجبر اور بڑی سفّاکی سے قتل کئے جانے والی لڑکیوں کے خوب ہنگامے رہے اور ایسے زانیوں و قاتلوں کو z+ سیکوریٹی دی گئی ہے ۔ ابھی ابھی مدھیہ پردیش کے اجین کے کوئلہ پھاٹک علاقہ میں ایک عورت کی سرِ راہ ر آبروریزی کی گئی ، ا س زانی کا خوف اتنا غالب تھا کہ سر راہ اس عورت کے ساتھ درندگی ہوتی رہی ،لوگ چھپ چھپا کر اس وحشیانہ عمل کا ویڈیو بناتے رہے لیکن کسی نے بھی اس غنڈے کو اس زیادتی سے روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کے خلاف احتجاج کرنے کا حوصلہ دکھایا ۔اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد کانگریس کے ریاستی صدر جیتو پٹواری نے گہرے طنز کے ساتھ کہا ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کے حلقہ انتخاب میں ایک بے بس عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے اور بی جے پی کولکاتہ کے عصمت دری اور قتل کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال کی ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ جو کچھ غیر انسانی فعل ہوا وہ بلا شبہ قابل مذمت ہے لیکن اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ ا س سانحہ کو بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ مغربی بنگال چھاتر سماج جس طرح ہنگامہ خیز اور احتجاج اور مظاہرے کر رہا ہے و ہ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کے اشارے پر کئے جا رہے ہیں ۔اس ضمن میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا یہ اندیشہ غلط نہیں ہے کہ انھیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے ہی مرکزی حکومت کے اشارے پر ہی بنگال میں تشدد ، انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اس کوشش میں بنگال کے گورنر آنند بوس بھی اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے بنگال اسمبلی سے جنسی جرائم کے مرتکب مجرمین کو سخت سے سخت سزا اور پھانسی تک دئے جانے کے منظور شدہ بل کو انھوں نے نامنظور کر دیا اور مسلسل دلّی کے دورہ پر رہتے ہیں ۔ اب ذرا ان سے کوئی پوچھے کہ ایسے بھیانک جنسی جرائم کے مجرمین کو کیا سزا دی جا ئے ؟ کیا ایسے مجرمین کو رام رحیم کی طرح مسلسل پیرول پر آزاد رکھا جائے اور پیرول دینے والے جیلر کو بی جے پی کا ’’معزز ‘‘ رکن بنایا جائے یا پھر بنارس ہندو یونیورسٹی کے آئی آئی ٹی کی طالبہ کے ساتھ اجتمائی عصمت دری کرنے والے بنارس مہا نگر بی جے پی ،آئی ٹی سیل سے تعلق رکھنے والے کونال پانڈے ، سچھم پٹیل اور آنند چوہان جیسے زانیوں کی طرح آسانی سے ضمانت کی راہ ہموار کی جائے اور ان کے جیل سے باہر آنے کے بعد پھول مالا کے ساتھ ان کا استقبال اور سماجی خیر مقدم کیا جائے، ایسے جیسے وہ ملک کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے کر آئے ہوں ۔ بنارس کے ایسے زانیوں کو بڑی آسانی سے ضمانت ملنے پر اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے اپنی گہری ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک کی بیٹیوں کے حوصلے پست کرنے والی یہ شرمناک حرکت ہے ۔ اتنے حساس معاملے میں خواتین صحافیوں سے رسم ادائیگی کے طور پر ہی سہی ّسانی سے ایسی ضمانت کی مذمت کرنی چاہئے ‘۔ اکھلیش یادو نے اپنے طنزیہ لہجہ میں یہ بھی کہا کہ بی جے پی کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ بی جے پی کے کارکنوں کو ملک کے اہم پارلیمانی حلقہ میں عصمت دری کرنے کی خصوصی چھوٹ اور آزادی حاصل ہے ۔

ان کا یہ طنز بھی کئی اہم اشارے کرتا ہے کہ ’ عدالت میں زانیوں کی کمزور پیروی کرنے کے لئے کس کا دباؤ تھا ۔؟ واضح رہے کہ ان زانیوں میں سے ایک کی ایک ایسی تصویر سامنے آئی ہے جس میں وہ ملک کی ایک ’عظیم ‘ شخصیت سے ہاتھ ملا رہا ہے ۔ اکھلیش یادو نے اشارے اشارے میں بہت کچھ کہہ دیا ہے ۔ابھی لوگ بھولے نہیں ہونگے ہے کہ ا تر پردیش کے ایک(اب سابق) وزیر، ایک ممبر اسمبلی زنا بالجبر کے جرم میں بھاگے پھر رہے تھے ۔بلقیس بانو کے مجرمین کو جس طرح ضمانت دے کر انھیں ’’معزز‘‘ بنایا گیا ، وہ بھی لوگوں کے ذہن ابھی تازہ ہی ہے ۔ سچ تو یہ کہ ایسے کئی دبنگ ہیں جو زنا باالجبر اور قتل کے مجرم اور ملزم ثابت ہو جانے کے باوجود آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں ۔ کئی خواتین اپنے جنسی استحصال کے خلاف انتظامیہ کی سرد مہری کے باعث خود سوزی کے لئے مجبور ہو ئی ہیں۔ ایسے افسوسناک واقعات اس امر کے مظہر ہیں کہ قانون کے محافظ اور ذمّہ داراشخاص کی نگاہ میں ملک کی خواتین کے تئیں کیسا گھٹیا اور غیر اخلاقی رویہ ہے اور ان کی کیسی سوچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مسلسل کہیں نہ کہیںخواتین پر ہونے والے ظلم ،تشدّد،بربریت، اذیت اور جنسی ،جسمانی و ذہنی استحصال کے واقعات کی خبریں بازگشت کرتی رہتی ہیں لیکن ان کے خلاف کسی طرح کی تادیبی کاروائی نہیںہوتی۔
افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ قانون کے محافظ اور حکومت کی باوقار کرسیوں پر بیٹھے لوگ ایسی غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر قانونی حرکات اور جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔لیکن ان کی نشاندہی کے باوجود انھیں قرار واقئی سزا نہیں دی جاتی، حالیہ دنوں میں ایسے بہت سارے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس کی تہہ میں جائینگے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ملک کی قانون ساز پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ہی ایسے ملزمین بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اسی اگست میں جاری ہونے والی ایسوسئیشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس( اے ڈی آر ) کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 151 ممبر پارلیمنٹ اور اسمبلی نے اپنے انتخابی حلف ناموں میں خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق معلومات دی ہے ۔ جن میں موجودہ 16 ممبر پارلیمنٹ اور اسمبلی پر آئی پی سی کی دھارا 376 کے تحت معاملہ درج ہے ۔ جس میں انھیں دس سال تک کی سزا یا عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ اے ڈی آر کی یہ رپورٹ بہت ہی شرمناک ہے کہ قانون ساز اداروں میں ہی قانون شکن بیٹھے ہوئے ہیں ۔اے ڈی آر کے مطابق ان میں سدھار کی سخت ضرورت ہے ، لیکن سنے کون؟ ۔۔۔۔۔۔گرچہ ہماری صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے ابھی حال ہی میںعورتوں کے تحفظ پر ایک بہت محتاط بیان دیا ہے جو کہ عام جنسی استحصال سانحات کے بجائے کولکاتہ کے تناظر میں ہے ۔ اس بیان کو دیکھنے کے بعد افسوس ہوا کہ ہماری خاتون صدر جمہوریہ نے کولکاتہ میں ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ جو حیوانیت ہوئی ، اس کی مذمت کی ہے ۔ لیکن منی پور ، اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر، اڑیسہ وغیرہ میں جس طرح خواتین کی آبرو ریزی ہوئی ، بے رحمی سے انھیں قتل کیا گیا، ا ن پر وہ کیوں خاموش رہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا یہ بیان صدارتی عہدہ کے وقار کے خلاف ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی وارداتوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔ ان میں ایک اہم وجہ فحش عام فلموں کے ساتھ ساتھ پورن فلموں تک بہ آسانی پہنچ۔ ایسی فلموں کو دکھانے اور دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ دوسری وجہ اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسیٹیوں اور کوچنگ مراکز میں بڑھتی لڑکے اور لڑکیوں کے بڑھتے اختلاط اور تیسرے والدین کی اپنے بچوں کی حرکت و عمل پر نگہداشت سے لا تعلقی اور اس کے بعد شراب اور دیگر نشیلے ڈرگس کی بہ آسانی حصولیابی ۔ ان تمام چیزوں نے نہ صرف جنسی استحصال میں اضافہ کیا ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور تہذیبی روایات کو بھی پامال کر رہی ہیں ۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ جنسی استحصال جیسے اہم مسئلہ پر موجود قوانین پر بھی از سر نو جائزہ لیا جاتا کہ ان میں کون سی خامیاں ہیں کہ ایسے قوانین کے موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ویسے اس سلسلے میں شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکر کا یہ مشورہ بھی قابل عمل ہے کہ جنسی استحصال کے مرتکب کو وہی سزا دی جائے ، جو اسلامی قانون کے تحت ہے ، یعنی سنگسار یا موت۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایسے گھناونے مجرمانہ فعل کرنے والوں میں خوف و دہشت فطری طور پر پیدا ہوگا اور ایسے سانحات میں کمی آئے گی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭ ( کالم نگار اردو کے معروف ادیب اور مشہور سینئر صحافی ہیں )

https://lazawal.com/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا