ویملا دیوی
جے پور، راجستھان
”ہر روز میرا شوہر نشے میں دھت آتا ہے اور مجھے مارتا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا ہے، اسے میرے جذبات کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہوتی، کبھی کبھی وہ سب کے سامنے میری توہین کرنے لگتا ہے۔ گویا میں اس کی غلام ہوں نہ کہ اس کی بیوی۔“ یہ بابا رام دیو نگر کچی بستی کی سنیتا (نام بدلا ہوا) کا درد ہے۔ یہ درد اکیلے سنیتا کا نہیں ہے بلکہ ملک کی ہزاروں خواتین کا ہے جو سنیتا کی طرح ہر روز اپنے شوہروں کے تشدد اور استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ تشدد سب سے پہلے زبانی شروع ہوتا ہے جسے خواتین گھریلو معاملہ سمجھ کر برداشت کرتی رہتی ہیں۔ بعد میں یہ جسمانی تشدد میں بدل جاتا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی جانب سے 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2022 کے دوران خواتین کے خلاف کل جرائم کے تحت 4,45,256 مقدمات درج کیے گئے جو کہ 2021 میں 4,28,278 واقعات کے مقابلے میں 4 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
ملک میں ہر گھنٹے 51 خواتین جرائم کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ 3491 معاملے یوپی میں درج کیے گئے ہیں جبکہ خواتین کے خلاف تشدد کے 1834 معاملے راجستھان میں درج کیے گئے ہیں۔ جو ریاستوں کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ یہی نہیں ملک کے بڑے شہر بھی خواتین پر تشدد سے پاک نہیں ہیں۔ 20 لاکھ سے زائد آبادی والے ملک کے 19 میٹروپولیٹن شہروں میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں چار فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان شہروں میں 2021 میں 4 لاکھ 28 ہزار 278 کے مقابلے 2022 میں 4 لاکھ 45 ہزار 256 کیسز درج کیے گئے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شہروں سے لے کر دیہات تک اور بڑی کالونیوں سے لے کر سلم بستیوں تک خواتین کے خلاف تشدد جاری ہے۔
راجستھان کی راجدھانی جے پور میں واقع بابا رام دیو نگر کی کچی آبادی میں صنفی امتیاز اور تشدد کے بہت سے معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ یہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی اکثریت والی بستی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر دور گجر کی ٹھڈی علاقے میں واقع ہے۔ 500 سے زائد آبادی پر مشتمل اس بستی میں لوہار، میراسی،ردّی چننے والے، فقیر، شادی بیاہ میں ڈھول بجانے والے، بانس سے سامان بنانے والے اور دیہاڑی دار مزدوروں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح بہت کم ہے، خاص کر خواتین میں۔ والدین لڑکیوں کو ساتویں جماعت سے آگے نہیں پڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں کچرا اٹھانا، گھر کا کام کرنا یا چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کی دیکھ بھال جیسے کام پر لگایا جاتا ہے۔ اس کالونی میں صنفی تشدد اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک عام ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے بستی کی 30 سالہ رکمنی دیوی (بدلیا ہوا نام) جن کا تعلق کالبیلیہ برادری سے ہے، کہتی ہیں،”میں جھاڑو بنانے کا کام کرتی ہوں، کبھی کبھار میرے شوہر اس کام میں میری مدد کرتے ہیں۔ زیادہ تر وقت وہ نشاکرتے ہیں۔ منشیات کے باعث وہ نہ صرف مجھے گھر میں مارتا ہے بلکہ اسے پیسے کے لیے ہراساں بھی کرتا ہے۔“
اسی کالونی کی 50 سالہ لاڈو دیوی کہتی ہیں،”میرے 6 بچے ہیں، جن میں سے 4 لڑکیاں ہیں۔ میں کچرے چننے کا کام کرتی ہوں اور میرا شوہر مستری کا کام کرتا ہے۔ گھر کی حالت ایسی ہے کہ کسی طرح چل رہا ہے۔ میرے شوہر کو کبھی کبھی کام نہیں ملتا ہے، اس لیے میں اور میری دونوں بیٹیاں روزانہ کچرا چننے کے کام پر جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی بھی چھوٹ گئی ہے۔“وہ بتاتی ہیں کہ ”میرے شوہر نشے میں دھت ہو کر مجھے مارتے ہیں۔ اس گھریلو تشدد کا اثر ان کے ذہنوں میں بسنے لگا ہے اور وہ ذہنی طور پر پریشان ہونے لگی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ خواتین کے لیے اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننا عام ہے۔وہیں شااظ ردا (نام بدلا ہوا ہے) کہتی ہیں کہ اس کا شوہر یومیہ مزدوری کرتا ہے جب کہ وہ گھر کا کام کرتی ہے۔ اس کا شوہر اس پر روزظلم کرتا ہے۔وہ شراب پیکر اس کے ساتھ مارپیٹ کرتا ہے اور بچوں کے سامنے گندے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ اسے اپنے شوہر کے تشدد سے بچانے کے لیے کئی بار پولیس سے مدد لینے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔
تاہم بابا رام دیو نگر میں خواتین کے خلاف تشدد کے خلاف کئی رضاکار تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ جو انہیں بیدار کرنے اور کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سماجی کارکن اکھلیش مشرا، جو اس کالونی میں گزشتہ آٹھ سالوں سے مختلف سماجی مسائل پر کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ”خواتین کو اپنے حقوق کا علم نہ ہونا ان کے لیے تشدد کا باعث بنتا ہے، تاہم کوششیں جاری ہیں۔ حکومت کی جانب سے خواتین کو صنفی تشدد سے بچانے کے لیے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر خواتین کے لیے اپنے شوہروں کے خلاف کارروائی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ خودمعاشرہ ان کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ گھر کے اندر سے بھی سہارا نہیں ملنے پروہ اپنے شوہروں کے ظلم کو اپنا مقدر مان لیتی ہیں۔ اس سے گھر کی دیگر لڑکیوں کی ذہنیت متاثر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تشدد کے بعد خواتین کو آگاہ کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ انہیں اس بارے میں پہلے سے آگاہ کیا جائے اور انہیں قانونی اور دیگر معلومات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اس کا شکار ہونے سے پہلے ہی بچ سکیں۔درحقیقت خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد معاشرے کے لیے ایک لعنت ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے سماجی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ صرف خواتین کے لیے آگاہی کی بات کرنے سے معاشرہ اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک موثر، مساوی اور صنفی بنیادوں پر تشدد اور امتیاز سے پاک معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ حکومت نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں لیکن یہ ایک سماجی برائی ہے، جسے روکنے اور ختم کرنے کے لیے معاشرے کو آگے آنا ہو گا اور اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
(چرخہ فیچرس)