منظور الٰہی ترال کشمیر
ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح یوٹی جموں کشمیر کا محکمہ تعلیم بھی تعلیمی اداروں کے اندر بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے میں کوشاں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی بھی محکمہ کو زمینی سطح پراور بھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ابھی بھی اس یوٹی کے کئی اسکولوں خصوصاً دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات اور کئی میں اساتذہ کی کمی کا معاملہ اکثر و بیشتر سامنے آتا رہتا ہے۔ سال2014ء میں کئی اسکولوں کو اپگریڈ کیا گیایعنی جو پرائمری اسکول تھے اس کو اپگریڈ کر کے مڈل کا درجہ دیا، جو مڈل اسکول تھے اسے ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا ہے۔ لیکن جو تبدیلی ان اسکولوں کے اندر لانی تھی وہ صد فیصدابھی بھی نہیں ہوسکی ہے۔ اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تووہ صرف اسکول کے نام کا سائن بورڈتبدیل ہوا ہے۔اسکولوں کی صورتحال میں کہیں نہ کہیں محکمہ تعلیم اور انتظامیہ کے مابین تال میل میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔ جس کا اثر طلباء کی تعلیم پر پڑرہا ہے۔اس کی وجہ سے دیگر دیہی علاقوں کی طرح جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے سب ضلع ترال کے دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام متاثر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ ایجوکیشن ژون ترال اور ایجوکیشن ژون لرگام میں طلباء اساتذہ کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں تو کہیں طلباء کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔جہاں اسٹاف کی کمی پائی جاتی ہے،وہاں طلباء کی تعلیمی قابلیت بھی کمزور ہوتی ہے۔
ترال کے دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی گزشتہ کئی سالوں سے دیکھی جا رہی ہے۔ نہ ہی محکمہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اٹھا رہا ہے اور نہ ہی اس بارے میں انتظامیہ کوئی لائحہ عمل بنا رہی ہے۔سب ضلع ترال کے ژون لرگام کا گورنمنٹ ہائی اسکول دودھ عملہ کی کمی کو لے کر پچھلے کئی سالوں سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ہائی اسکول دودھ مرگ اگر چہ سرکار نے رمساء اسکیم کے تحت 2014 میں مڈل اسکول سے اپگریڈ کر کے ہائی اسکول کردیا، لیکن اسکول میں اساتذہ کی کمی کو لے کر پچھلے 10 سالوں سے طلباء اور ان کے والدین پریشان ہیں۔ مقامی لوگوں کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے 10 سالوں سے ژونل ایجوکیشن افسر سے لے کر سول سیکرٹریٹ تک گوہار لگائی لیکن صرف یقین دہانی کے سوا کچھ نہیں ملا۔اس سلسلے میں سابق نائب سرپنچ محمد عبداللہ کھاری جن کی عمر 48 سال ہے،نے بتایا کہ 2014 میں اسکول اپگریڈ ہوکر ہائی اسکول بنادیاگا۔ جس میں تقریباًایک کروڑ روپے کی لاگت سے اسکول کے لیے عمارت بھی بنائی گئی ہے اوراس میں آئی سی ٹی لیب بھی دستیاب ہے۔ لیکن ابھی تک اسکول میں اسٹاف کی کمی پائی جا رہی ہے۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہاکہ اگر محکمہ کے پاس ا سکول کے لئے اسٹاف نہیں تھا تو اسکول کو اپ گریڈ بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔موصوف نے کہاکہ ہم محکمہ کے افسروں کے پاس جاتے ہیں تو ہمیں حیرت انگیز جواب ملتا ہے کہ آپ کا اسکول سرکاری ریکارڈ میں درج ہی نہیں ہے۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ اگریہ اسکول سرکاری ریکارڈ میں درج نہیں ہے تواسے اپگڑیڈ کیسے کیا گیا؟وہ کہتے ہیں کہ دودھ مرگ کے ساتھ ترال کے کئی دیہی علاقوں کے اسکولوں میں افرادی قوت کی کمی کے ساتھ بچوں کے بیٹھنے کی جگہ کا مسئلہ بھی اپنے آپ میں ایک اہم مسئلہ ہے۔
گجر بستی برن پتھری ترال کے عوام کے مطابق وہاں 2003 ءمیں گورنمنٹ نے سروا شکشا ابھیان کے تحت پرائمری سطح تک ایک اسکول تو دیاہے لیکن اسکول میں ایک ہی استاد پچھلے دو سالوں سے پانچ کلاسوں کے طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ اسی استاد کو یہاں بی ایل او کی ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔گاؤں کے ایک باشدگان سرفرازاحمد، جن کی عمر 32سال ہے،کے مطابق جب یہ استاد بی ایل ایو ڈیوٹی پر جاتے ہیں توا سکول کو اتنے وقت تک بند رکھنا پڑتا ہے۔جبکہ اس اسکول میں 70 سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔جن کے علم کی پیاس ایک استاد بجھارہا ہے۔برن پتھری ترال سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چودھری شبیر مستانہ قبائلی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی ماسٹر ڈگری کشمیر یونیورسٹی سے کشمیری زبان میں مکمل کی ہے۔شبیر نے بتایا کہ ہم دیہی علاقہ جات اور بالخصوص خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزارنے والوں کیلئے تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں دیہی علاقہ جات میں بنیادی تعلیم جو ملنی چاہئے وہ نہیں مل پاتی کیونکہ یہاں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی اور کئی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ دس،بارہ جماعتیں ہم گاؤں کی سطح پر پڑھ لیتے ہیں اور اس سے آگے کئی بچوں کو مزدوری کر کے اپنے تعلیمی اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں لیکن ہماری بنیادی تعلیم کی کمزوری کی وجہ سے ہمارا تعلیمی سلسلہ ماند پڑ جاتا ہے۔شبیر نے مزید کہا کہ ہمارے گاؤں میں ایک اسکول ہے جو 2003ء میں قائم ہوا یہاں پچھلے تین سالوں سے ایک ہی ٹیچر کو اٹیچ رکھا ہوا ہے۔جو 70 سے زائد بچوں کوتعلیم دے رہا ہے اور اسی استادسے دیگر سرکاری کام بھی لئے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ یا تووہ استاد اسکول کو بند کر کے جاتے ہیں یا پھر بچوں کو ایسے ہی چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔
ادھر گجر بستی برن وارڈ ترال میں گورنمنٹ اپر پرائمری اسکول میں اساتذہ کے فقدان کے ساتھ ساتھ جگہ کی بہت تنگی ہے۔ گاؤں کے لوگوں کے مطابق یہاں صرف تین ہی کمرے ہیں جبکہ پڑھانے کے لیے پانچ استاد ہیں جو انہی تین کمروں میں تعلیم کی اس کشتی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہاں بچوں کے لئے کھیل کی جگہ بھی نہیں ہے۔بنیادی عملے کی قلت کی شکایات یو پی ایس کارمولہ، پرائمری سکول باریناڈ کارمولہ، پرائمری سکول اسدی، یو یو پی ایس زاریہارڈ، یو پی ایس ناگبل، یو پی ایس لانز گنڈ برن پتھری، بی پی ایس برن پتھری، ایم پی ایس چینپرین، پرائمری سکول دودھ مرگ، پرائمری سکول گنڈتل دودھ مرگ، پرائمری سکول وزلکناڑ، پرائمری سکول زاجہ گھوڈ، مڈل سکول شاجن، اس طرح زیسبل، لام، حاجن، گلشن پورہ کے ساتھ ساتھ اور بھی ترال کے دیہی اسکولوں میں عملے کی کمی پائی جا رہی ہے۔ ترال شتلن گاؤں سے تعلق رکھنے والی اور نوی جماعت کی ایک طالبہ میمونہ جان نے کہا کہ ہم پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے جو کہ کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کر کے اسکولوں تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں سکیں، لیکن بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہمارے ا سکولوں میں اسٹاف کی بہت کمی ہے۔جبکہ شہر کے اسکولوں میں اسٹاف بھی پورے ہوتے ہیں اور بچوں کو بھی اچھی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن ہم پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارا دار و مدار بھی سرکاری اسکولوں پررہتا ہے لیکن ہمیں یہاں کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے جس میں اساتذہ کی کمی اہم ہوتی ہے۔
ترال کے ایک سماجی کارکن نور محمد ترالی، جن کی عمر31 سال ہے،نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی بہت کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے جو اساتذہ اپنے پوسٹوں پر نوکری کر رہے تھے یا جن اسکولوں کی بنیاد پر وہ ملازمت کر رہے تھے اب وہ ان اسکولوں میں جانا نہیں چاہتے ہیں۔وہاں جانے سے وہ انکار کر رہے ہیں۔ ان جگہوں سے یہ ٹیچر کئی بڑے افسران کے سفارش پر اپنے تبادلے شہر کے سکولوں میں کروا رہے ہیں۔کئی اساتذہ اس بنیاد پر دیہی علاقوں کے سکولوں میں نہیں جاتے ہیں کہ ان کی گاڑی اسکول تک برابر نہیں پہنچ پاتی ہے۔یہ ٹیچر دیہی علاقوں سے میدانی علاقوں کے سکولوں میں جانا چاہتے ہیں جہاں پہ انہیں آنے جانے میں آسانی ملے لیکن جو مشکلات درپیش ہے وہ ہماری قبائلی بچوں کو ہے کیونکہ ہمارے اسکولوں میں اسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بنیادی کریئر داؤ پر لگ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں کے کئی مڈل اسکولوں میں صرف تین چار ٹیچر آٹھ کلاسوں کو ہینڈل کر رہے ہیں۔ترال کے دور دراز علاقہ وزلکناڑ سے تعلق رکھنے والی زیتون بانو عمر 24سال، کہتی ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے ہمارے دیہی علاقوں کے اسکولوں میں اسٹاف نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہم میدانی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی بات کریں تو وہاں اساتذہ زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں اور اْن اسکولوں کی کارکردگی بھی اچھی ہوتی ہے۔ لیکن دیہی علاقوں کے اسکولوں کے بارے میں نہ ہی توانتظامیہ غور کر رہی ہے اور نہ ہی محکمہ تعلیم ان دیہی علاقوں کے اسکولوں پر توجہ دے پار ہاہے۔
اسکولوں میں عملے کی کمی کی وجوہات کو لے کر جب چیف ایجوکیشن آفیسر، پلوامہ عبدالقیوم ندوی سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ عملے کی کمی کی کچھ حقیقی وجوہات ہیں کہ ایس ایس اے اور سمگرا اسکیموں کے تحت کھولے گئے اسکول مطلوبہ تعداد کے بغیر ہیں۔انہوں نے کہاکہ پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک کچھ اسکولوں کو اپگریڈ کیا گیا ہے لیکن پوسٹس کی تخلیق نہیں تھی۔یہ کمی ترقیوں اور ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پاس ترقیوں، ریٹائرمنٹ اور اموات کی وجہ سے خالی ہونے والی آسامی کو پْر کرنے کا طریقہ کار کافی لمبا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ پیپل ٹیچر ریشو(پی ٹی آر)کے حساب سے چند اسکول ہوں گے جہاں اسٹاف کی کمی ہوگی۔موصوف نے مزیدکہاکہ ہمارے یہاں پانچ چھ اسکول تھے جن کا پی ٹی آر 20 سے زیادہ جاتا تھا ۔ ان کو بھی ہم نے اسٹاف دے کر 20 سے نیچے لے آئے ہیں یعنی کہ 1سے لے کر 20 سے نیچے ریشو کے حساب سے ہمارے اسکول چل رہے ہیں۔دریں اثناء گورنمنٹ ہائی اسکول دودھ مرگ کا ذکر کرتے ہوئے چیف ایجوکیشن آفیسرپلوامہ جناب عبدالقیوم نے کہا کہ اسکول کو تخلیق نہیں مل رہی ہیں ہے جس کی وجہ سے اسٹاف کی کمی کی شکایات آتی ہیں۔ پھر بھی ہم نے وہاں استاد برابر رکھے ہوئے ہیں۔ٹیچر کو بی ایل او کا کام بھی دئے جانے پر انہوں نے کہا کہ بی ایل او کا پارٹ ٹائم ورک ہے اور وہ چار بجے کے بعدہوتاہے۔ یہ کوئی الگ سے کام نہیں ہے بلکہ ایڈیشنل اسائنمنٹ ہوتی ہے اور بہت ساری جگہوں میں ایسے بہانے بنا کر کام چوری کی جاتی ہے۔ تو ایسے لوگوں کے بارے میں جب ہمیں شکایات ملتی ہیں تو ہم انہیں واپس ڈیوٹی ریمائنڈ کرواتے ہیں، واپس سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ چیف ایجوکیشن آفیسرپلوامہ نے کہا کہ یہ بات میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ایسا کوئی بھی اسکول میرے ضلع میں نہیں ہے جس کو آپ سنگل ٹیچر سکول کہہ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ایس ایس اے پرائمری سکول برین پتھری ترال سے غلط انفارمیشن آئی ہے کہ وہاں استاد ڈیوٹی کے دوران بی ایل او ڈیوٹی دیتے ہیں جبکہ بی ایل او کا مطلب ہی ہے کہ اس کو پہلے پڑھانا ہے پھر بی ایل او ڈیوٹی دینی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ علاقے کے پرائمری اسکول میں دو ٹیچر کام کر رہے ہیں۔وہیں گجر بستی برین وارڈ بٹنور کے بارے میں سی ای او پلوامہ جناب عبد القیو منے کہا کہ وہ ہمارے پلان میں ضرور آیا ہوگااور کام ہوگا۔انہوں نے کہاکہ جہاں پر کسی اسکول کے پاس جگہ نہیں وہاں ہم عمارت نہیں بنا پاتے ہیں کیونکہ عمارت کو جگہ چاہیے۔اگر وہاں سٹیٹ لینڈ ہے یا گھاس چرائی ہے تو ہم اس کو سکول کے نام کر لیتے ہیں اگر یہ نہیں ہے تو پھر کسی کی ملکیت جگہ لینا پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پورے ضلع میں 120 سمارٹ روم دیے گئے ہیں۔ ان میں ہائی سکول اور ہائر اسکنڈری اسکول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ82 اور سمارٹ روم لگنے والے ہیں جو112 سکولوں میں دے چکے ہیں اور 15 اور منظور ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ 136 سکولوں میں سولر پاور دے چکے ہیں جبکہ 36 اور سکولوں میں سولر پاور لگنے والے ہیں۔48 بلڈنگ مکمل ہو چکے ہیں اور 48 عمارتوں کی تعمیرات ہو رہی ہے۔عبد القیوم ندوی نے مزید بتایا کہ اسکولوں میں 556 آیہ لگائی گئی ہیں۔جو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ چیف ایجوکیشن پلوامہ نے کہا کہ حکومت اپنے تعلیمی شعبے کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔بہرحال،امید کی جانی چاہئے کہ ضلع میں جہاں کہیں کوئی بھی کمی ہے اس کو جلدپورا کیا جائے گا اور انتظامیہ بالخصوص محکمہ تعلیم اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات اٹھائے گا۔(چرخہ فیچرس)