لداخ کی شان’پولو‘کھیل سیاحت کا مرکزبن سکتا ہے

0
225
ناہیدہ کوثر
لیہہ، لداخ
لداخ دنیا بھر میں سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے مناظر، تاریخ اور ثقافتی روایات اس کی مقبولیت کی خاص وجوہات میں شامل ہیں۔ لیکن ان تمام کے علاوہ کچھ اور بھی خصوصیات ہے جو اسے دوسروں سے نمایا بناتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے اس کی بہت زیادہ بحث نہیں ہوتی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے کبھی لداخ کے اُن کھیلوں کے بارے میں گفتگو کی؟ جس میں اس خطے نے سبقت بھی حاصل کی ہے؟ جی ہاں! پولو کا کھیل ایک ایسا کھیل ہے جو اس ہمالیائی سرزمین کی تاریخ اور ثقافت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ تاہم یہ کھیل اپنی شناخت کھو تا جارہا تھا، مگر اب اسے پھر سے بحال کرنے کی کوششیں لداخ میں کی جا رہی ہیں۔ چین اور پاکستان کی سرحد پر آباد لداخ دو اضلاع پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک کارگل تو دوسرا لیہہ ہے۔ لیہہ کے ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 18 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں چچوٹ کے رہائشی 50 سالہ غلام سیدین بتاتے ہیں کہ ”پولو لداخ کا روایتی کھیل ہے۔ آج کل یہ زیادہ تر ہمارے گاؤں کے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ ہر سال میتھو ناگرنگ، شی ڈرولو، ہیمس سیچو اور سپیٹک گیسٹر جیسے تہواروں میں پولو کا کھیل، کھیلا جاتا ہے جس میں مقامی لوگوں کی بھیڑ کافی دلچسپی لیتی ہے۔ پولو کھلاڑیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق چچوٹ گاؤں سے ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انڈس چچوٹ پولو کلب کی بنیاد 2013 میں رکھی گئی اور اسی سال اس کلب کورجسٹرڈ بھی کیاگیا۔ کلب کے ذریعہ صدیوں پرانی روایت اور رسم و رواج کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔“ وہ اس کھیل کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ کھیل 15ویں صدی میں لداخ خطے کی ثقافت کا حصہ تھا۔ اس کھیل کو اس زمانے کے بادشاہ جمیانگ نامگیال نے متعارف کرایاتھا۔
 لداخ کے ایک دیگر رہائشی، 30 سالہ محمد رضا نے گزشتہ برسوں میں کھیل کی تاریخ اور ارتقاء کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ”پہلے پولو کو شاہی خاندان کے افراد ہی کھیلتے تھے کیونکہ یہ بادشاہوں کا کھیل تسلیم کیا جاتا تھا نہ کہ عوامی کھیل۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی آنے لگی اور عام لوگ بھی اس کھیل میں دلچسپی لینے لگے، اسے کھیلنے اور دیکھنے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ دورِ حاضر سے بالکل مختلف گزشتہ زمانے اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ویڈیو گیمس اور دیگر گوشہ نشینی والی سرگرمیوں سے خالی تھے،اس لئے پولو بڑے پیمانے پر عوام میں مقبول ہوتا چلاگیا۔“ رضا اس کی تاریخ پر مزید بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”کہا جاتا ہے کہ اس وقت صرف مرد ہی یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔ اس زمانے میں خواتین سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ صرف گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال کریں، تصور کیا جاتا تھا کہ انہیں پولو کے کھیل میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ مگر اب یہ حالات بدل رہے ہیں۔معاشرے کی سوچ بدل رہی ہے۔ اب خواتین کو اس میں حصہ لینے کے لئے ان کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ ٹورنامنٹس میں خواتین کی بھرپور شرکت ہوتی ہے اور انہیں وسائل اور تربیت بھی فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سماجی اصولوں اور معاشرتی قوانین میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے کھیلوں کو فروغ دینے کے لئے ان کے اپنے  گھروالوں کی گرم جوشی سے حمایت جاری ہے۔ موجودہ حکومت خطے میں پولو کو بحال کرنے کی نہ صرف کوشش کر رہی ہے، بلکہ ہر ممکن تعاون بھی دے رہی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر، بریگیڈیئر بی ڈی مشرا کے تعاون سے لداخ سے صرف خواتین کے 10 رکنی گروپ کو گزشتہ سال جولائی میں دہلی میں صدرجمہوریہ کے باڈی گارڈوں کے ذریعہ پولو کھیل کی کوچنگ حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
ایک اور مقامی غلام سیدین کہتے ہیں کہ اس کھیل کے فروغ کے لئے بنیادی ڈھانچے میں کافی سہولیات فراہم کرنے کے لئے مسلسل مالی تعاون کے ساتھ بھی کوششیں کی گئی ہیں، خاص طور پر شگران گراؤنڈ کو بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔غلام سیدین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں واقع شگراں گراؤنڈ کی تقریباً 30 سال بعد رنگ ورغن اور تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ سیاحت، ثقافت، حیوانات، اور یوتھ سروسز اینڈ سپورٹس، لیہہ کے محکموں نے انڈس چچوٹ پولو کلب کے تعاون سے پہلا سی ای سی (چیف ایگزیکٹو کونسلر) کپ پولو ٹورنامنٹ 2022 کا انعقاد کیا تھا۔ اس کے بعد دوسرا سی ای سی کپ پولو ٹورنامنٹ ہوا جو 2023 کے آخر میں منعقد کیا گیا۔بہرحال، یہ کھیل لداخ کی ثقافت اور تاریخ میں گہری مناسبت رکھتاہے۔ نوجوانوں میں قیادت کی ترقی کے شعبوں میں بھی اس میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ دوشیزاؤں اور خواتین کا اس کھیل میں دلچسپی لینا خوش کن ہے۔اس کھیل میں ان کی دلچسپی بڑھانے کے لئے مزید اقدامات کرنے ہونگے۔حالانکہ اس کی شاہی میراث اب بھی قائم ہے جو اس کھیل کو بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیتی ہے۔ جیسا کہ اس علاقے میں منقول ہے کہ ”اپنے اسکول کے دنوں میں، میں پولو گراؤنڈ میں گھوڑوں اور کھلاڑیوں کو دیکھنے جایا کرتا تھا۔یہ مسحور کن ہے۔“ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولو آج بھی ایک بہت مہنگا کھیل ہے۔اس لئے ایک عام لداخی عوام اسے کبھی کھیل نہیں سکی۔ لیکن یہ سیاحت کے فروغ میں اہم کڑی ثابت ہو سکتا ہے۔اس سے علاقے کی معاشی صورتحال بھی بدل سکتی ہے۔(چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا