کولکتہ میں ڈاکٹرکی عصمت دری اور قتل انتہائی شرمناک

0
89

محمد اعظم شاہد
گذشتہ ہفتہ (8؍اگست 2024) کولکتہ کے آرجی میڈیکل کالج اور اسپتال میں پوسٹ گریجویشن کورس کی 32 سالہ ڈاکٹر کا ریپ اور بہیمانہ قتل نے سرکاری اسپتالوں میں میڈیکل لیڈی ڈاکٹروں اور زیرتعلیم طالبات کے لیے سکیورٹی کی عدم سہولیات اور انتظامیہ کی بے قاعدگیوں کو ایک بار پھر کھلے طورپر ثابت کردیا ہے۔ہرسال ہمارے ملک میں سالانہ تیس ہزار سے زائد ریپ کے معاملات درج کیے جاتے ہیں ۔مقدمات کی شنوائی کے بعد سزا کاٹنے والوں کی تعداد بہت ہی کم بتائی جاتی ہے ۔ گواہ اور ثبوتوں کے کھیل میں کئی بار مجرم سزا سے بچ نکلتے ہیں ۔میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں میں خاتون ڈاکٹروں اور طالبات کو اکثر رات دیر گئے کام کرتے ان کے لیے آرام کرنے مناسب سہولتیں فراہم نہ ہونے کی شکایات ہوتی رہی ہیں۔سرکاری اسپتالوں میں جو سرکاری میڈیکل کالجوں سے ملحق رہتے ہیں وہاں کا انتظامیہ عام طورپر رشوت زدہ اورکئی طرح کی بے قاعدگیوں سے بھرا رہتا ہے ۔ بدنظمی کے خلاف آواز اُٹھانے والے لیڈی ڈاکٹرس یا اسٹوڈنٹس پر الٹے الزامات لگا دئے جاتے ہیں۔ کولکتہ کی ہونہار میڈیکل طالبہ جو اپنی اعلیٰ تعلیم کے دوران 36 گھنٹوں کی ڈیوٹی پر مامور تھی ۔جونیئر ڈاکٹروںکے لیے اپنی ڈیوٹی کے دوران رات میں آرام کرنے کے لیے معقول علاحدہ کمرے قلت کا شکار رہتے ہیں اور ظلم یہ کہ اسپتالوں میں علاج کرنے والے ڈاکٹروں پر اکثر مریض کے رشتہ دار دھاوا بول دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں پر گالیاں بکی جاتی ہیں تو کبھی ان کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی جاتی ہے ۔ سکیورٹی کا غیر معقول اور ناقص انتظام کے باعث یہ ڈاکٹر بالخصوص خاتون (لیڈی) ڈاکٹرس اور میڈیکل کورسز کی اسٹوڈنٹ لڑکیاں کئی مسائل سے دوچار رہتی ہیں ۔پوری دنیا میں ہندوستان اور چین میں اسپتالوں میں کام کرنے والے عملے (ہیلتھ کیئر ورکرس) پر زیادہ حملے Voilence ہوتے رہے ہیں ۔ 80 فیصد مشکلات اور مارتوڑ کے معاملات ڈاکٹروں کے ساتھ مریضوں کے رشتہ دار اور دوست احباب کی جانب سے ہوتے ہیں۔ اور 60 فیصد ان ڈاکٹروں پر حملے ہوتے ہیں جو ایمرجنسی میڈیسن، انتہائی نگہداشت Critical Care اور نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے کام کرتے ہیں ۔ ڈاکٹروں پر مظالم کی شکایات کئی برس سے سننے میں آرہی ہیں ۔ انہیں تحفظ فراہم کرنے کے مطالبات پر حکومتیں وعدہ تو کرتی رہی ہیں ۔ان کی ہڑتالیں ان وعدوں کے باعث واپس لے لی جاتی ہیں ۔مگر مسئلہ اور

مسائل یکسوئی سے بہت دور رہ جاتے ہیں۔مگر ڈاکٹر کا ریپ اور قتل خود اسپتال میں ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔
کولکتہ اسپتال کا حالیہ معاملہ لیڈی میڈیکل اسٹوڈنٹ کے ریپ اور قتل کا ہے۔ اس پر پورے ملک میں ڈاکٹر برادری اور میڈیکل اسٹوڈنٹس کے علاوہ خواتین کی انجمنوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں نے اس مذموم حرکت کی مذمت میں اپنے غم وغصہ کااظہار جلوسوں اور پیدل احتجاج سے کیا ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹروں نے اسپتالوں میں ہڑتال کا اعلان بھی کیا۔ اسپتال میں کام کرنے والے ایک ورکر کی جانب سے ہلاک ہونے والی ڈاکٹر کے اہل خاندان کے ساتھ ہمدردی کرنے اورملزم کو کڑی سزا سنانے کا مطالبہ ملک بھر میں کیا گیا ۔ اس دوران اس معاملے کو سیاسی طورپر کئی سیاسی پارٹیوں نے استعمال کیا ہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ سی بی آئی کی تحویل میں جانچ کے لیے دے دیا گیاہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے عبوری فیصلہ میں اس معاملے پر کہا ہے کہ ملک بھر میں اسپتالوں میں خاتون اسٹاف چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا میڈیکل گرل اسٹوڈنٹ یا نرس یا کوئی بھی ذمہ داری پر مامور ہوں، انہیں اپنا کام سرانجام دینے کے لیے معقول سکیورٹی فراہم کی جائے اور اسپتال کے انتظامیہ کی جانب سے لیڈی اسٹاف کو معقول حفاظتی اقدامات کے زیر اثر کام کرنے کیلئے ماحول خوف ودہشت سے پاک رکھا جائے ۔ ڈاکٹروں کی قومی جماعت Indian Medical Association (IMA)انڈ ین میڈیکل اسوسی ایشن اور دیگر اداروں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ہیلتھ سیکٹر(شعبۂ صحت) میںکام کرنے والے سبھی ہیلتھ ورکرس کے لیے سیفٹی (تحفظ) اور سکیورٹی فراہم کرنے پورے ملک کے لیے مرکزی قانون جاری کیا جائے -مگر مرکزی حکومت نے کل ہی اپنے ایک اعلان میں کہا ہے کہ قومی سطح پر قانون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ اس لیے کہ تمام ریاستوں میں ان کے اپنے اپنے قوانین ہیں جن کے توسط سے اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں عملہ اور طلبہ کیلئے تحفظ اورکام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے -جن حالات میں کولکتہ کے میڈیکل کالج اور اسپتال میں طالبہ کے ساتھ جنسی جبروستم کیا گیا اور بے دردی سے قتل کردیا گیا ۔ اس پر کالج کے پرنسپل کا غیرذمہ دارانہ جواب نے بھی کئی سوالات قائم کیے ہیں۔جب تک ملک میں (عصمت دری) ریپ کرنے والے درندوں کو عبرت انگیز سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ یہ معاملات اور ان کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔نربھیا معاملے میں اجتماعی عصمت دری واقعہ پورے ملک میں مذمت، غم وغصہ کا باعث بنا۔ ایسے واقعات پر قانون کی بھول بُھلیاں اورضمانت پر مجرموں کی رہائی نے اس جرم کی سنگینی کوبے وقعت بنا کر رکھ دیا ہے ۔ویسے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں مہنگی تعلیم گوکہ تجارت بن گئی ہے ۔نیٹ جیسے قومی مقابلہ جاتی امتحانوں میں کڑی محنت کے بعد کامیاب ہوکر سرکاری یا دیگر میڈیکل کالجوں میں زیرتعلیم طلبہ کو انٹرن شپ کے دوران سہولیات کی کمی اور 36 یا کبھی 48 گھنٹوں کی ڈیوٹی پر مامور جونیئر ڈاکٹروں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے میڈیکل طلبہ کی پریشانیاں اپنی جگہ پر ہیں ہی۔ حکومت کی جانب سے صرف جملے بازی اور وعدے ہی ہوتے رہے، بالخصوص محکمۂ صحت اور میڈیکل ایجوکیشن کا محکمہ اپنی غیرذمہ داریوں پر آنکھیں بندکیے ہوئے ہے۔
٭٭٭
[email protected] cell: 9986831777

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا