اسکیموں سے فائدہ اٹھا نے میں پیچھے کیوں رہ جاتی ہے دیہی عوام؟

0
132
راکیش پرجاپت
اجمیر، راجستھان
ملک کی ترقی میں تمام شہریوں کی یکساں شرکت بہت ضروری ہے۔ نہ صرف شہری اور صنعتی علاقے بلکہ دیہی علاقے بھی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زراعت کا شعبہ ہو یا چھوٹے پیمانے کی صنعت، سب ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں برابر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس کے باوجود شہروں کے مقابلے دیہی علاقوں میں کئی طرح کی بنیادی سہولیات کا فقدان رہتاہے۔ تاہم، حکومت کی طرف سے گاؤں کی ترقی کے لیے مختلف اسکیمیں چلائی جاتی ہیں۔ لیکن بیداری اور وسائل کی کمی سمیت دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے دیہی لوگ اس سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ راجستھان کے اجمیر کا گاؤں ناچن باڑی بھی ایک ایسی ہی مثال ہے، جہاں کے گاؤں والے نہ صرف حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی مختلف اسکیموں سے محروم ہیں، بلکہ کئی سطحوں پر وہ ان سے واقف بھی نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس سلسلے میں گاؤں کی 55 سالہ سیتا دیوی اپنے گھر کا حال بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ”شوہر اور بیٹا یومیہ مزدوری کرتے ہیں، وہ روزانہ کام کرنے کے لیے اجمیر شہر جاتے ہیں، آمدنی بس اتنی ہوتی ہے کہ کسی طرح گھر کا گزارا چل رہا ہے۔ گھر میں نہ بجلی ہے، نہ پینے کا صاف پانی ہے، نہ بیت الخلاکی سہولت ہے اورنہ دیگر بنیادی سہولیات موجودہین۔“ وہ کہتی ہیں کہ بیماری کی وجہ سے میں چلنے پھرنے سے قاصر ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں گھر بنانے کے لیے حکومت سے پیسے ملے نگے۔ لیکن اس کے لیے کہاں جانا ہے؟ کس کو درخواست دینے کی ضرورت ہے؟ یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے۔ شوہر یا بیٹا اس کام کے لیے بھاگ دوڑنہیں کرسکتے کیونکہ یہ دونوں یومہ مزدورہیں۔ اگر درخواست دینے کے لئے سرکاری آفس کا چکر لگائنگے تو اس دن کی اجرت کہاں سے آئے گی؟ سیتا دیوی کہتی ہیں کہ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں اس لیے سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری کالبیلیہ کمیونٹی میں سماجی، معاشی اور نظریاتی طور پر پہلے کی نسبت کافی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن تعلیم کے حوالے سے اب بھی زیادہ سنجیدگی نظر نہیں آتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ضلع کے گھگھرا پنچایت میں واقع ناچن باڑی گاؤں میں کالبیلیا برادری کی اکثریت ہے۔ انہیں حکومت سے شیڈولڈ ٹرائب کمیونٹی (درج فہرست قبائل)کا درجہ ملا ہواہے۔ یہاں کی پنچایت میں درج اعداد و شمار کے مطابق گاؤں میں تقریباً 500 گھر ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر مرد اور خواتین روزانہ مزدوری کرنے کے لیے اجمیر جاتے ہیں۔ کچھ مقامی چونے کے بھٹے پر کام کرتے ہیں۔ یہاں سے ملنے والی اجرت اتنی کم ہے کہ ان کے خاندان کا گزارہ بمشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس برادری کے بہت سے بزرگ مرد و خواتین آس پاس کے دیہاتوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ کمیونٹی کئی دہائیوں سے خانہ بدوش زندگی گزار رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے پاس کوئی مستقل رہائش نہیں تھی۔ لیکن اب اس برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مستقل طور پر ناچن باڑی اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں میں آباد ہو چکی ہے۔ تاہم ماضی میں نقل مکانی کی زندگی گزارنے کی وجہ سے فی الحال کسی کے پاس کاشتکاری کے لیے اپنی زمین نہیں ہے۔ اس کمیونٹی میں لڑکیوں کی تعلیم کی صورتحال اب بھی زیادہ اچھی نہیں ہے۔
 اگر ہم اسکیموں سے فائدہ حاصل کرنے کی بات کریں تو اس کی سطح بھی بہت کم دکھائی دیتی ہے۔اسی کمیونٹی کی ایک اور خاتون چارمو دیوی کہتی ہیں، ”ہم نے سنا ہے کہ حکومت گھر بنانے کے لیے پیسے دیتی ہے۔ اس کے لیے پنچایت میں درخواست دینی پڑتی ہے۔ لیکن ہماری کمیونٹی میں بہت کم لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ درخواست کیسے لکھنی ہے؟“ وہ کہتی ہیں کہ اسکیموں کے فوائد حاصل کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے؟ اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے کمیونٹی کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گاؤں میں ایک اسکول ہے۔ جہاں پانچویں جماعت تک پڑھائی جاتی ہے۔ مزید تعلیم کے لیے دو کلومیٹر دور گھگھرا جانا پڑتا ہے۔ جہاں لڑکے تو چلے جاتے ہیں لیکن والدین لڑکیوں کی تعلیم روک دیتے ہیں۔
 معذور پپو ناتھ کالبیلیا بتاتے ہیں کہ ان کا پورا خاندان ایک چھوٹی جھونپڑی میں رہتا ہے۔ اس میں نہ بجلی ہے نہ پانی کی سہولت۔ کسی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ دیویانگ پنشن اسکیم اور پردھان منتری آواس یوجنا کے علاوہ انہوں نے کسی اور اسکیم کا نام نہیں سنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’معذور ہونے کی وجہ سے گاؤں کے کچھ لوگوں نے انہیں ان اسکیموں کے بارے میں معلومات فراہم کیں لیکن اس سلسلے میں کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے کہ اسے کیسے شروع کیا جائے اور درخواست کہاں سے دی جائے؟رمیش ناتھ کالبیلیا کا کہنا ہے کہ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ انہوں نے سب کو اعلیٰ تعلیم فراہم کی ہے۔ تاہم، 12 ویں کے بعد، کمیونٹی کی طرف سے ان پر لڑکیوں کی شادی کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا تھا۔ان سے یہ کہا گیا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو انہیں برادری سے نکال دیا جائے گا۔ لیکن اس سے قطع نظر اس نے اپنی تمام لڑکیوں کو کالج تک تعلیم دلائی ہے۔ وہ کہتے ہیں،”میں خود پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ لیکن میں تعلیم کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ اسی لیے میں نے اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے مطابق، حکومت کی جانب سے کسی بھی پسماندہ طبقے کی ترقی کے لیے بہت سی اسکیمیں چلائی جاتی ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر پسماندہ طبقہ ترقی کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے میں اپنی کمیونٹی کے ہر فرد کوتعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہوں، تاہم، ان کا خیال ہے کہ بعض اوقات نہ صرف شعور کی کمی بلکہ وسائل تک رسائی کی کمی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
رمیش کا کہنا ہے کہ میں لکڑی سے چیزیں بنانے کا کام کرتا ہوں۔ لیکن وقت نکال کر میں نہ صرف گاؤں کی پنچایت سبھا میں باقاعدگی سے شرکت کرتا ہوں بلکہ اسکیموں کے لیے آواز بھی اٹھاتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ کمیونٹی کی ترقی کے لیے حکومت کی بہت سی اسکیمیں ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر کمیونٹی نہ صرف اپنی بلکہ گاؤں کی ترقی کو بھی ممکن بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے کمیونٹی کو خود پہل کرنا ہوگی۔ وسائل تک لوگوں کی رسائی کو آسان بنانا ہو گا۔ ماخذ ذرائع فراہم کرنے ہوں گے۔ انہیں تعلیم سے جوڑنا ہوگا تاکہ وہ بیدار ہوسکیں اور اسکیموں کا فائدہ اٹھاسکیں۔ (چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا