جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ؛ ایک نئے باب کا آغاز

0
110

عوام کے لئے راحت کا سامان، سیاستدانوں کے لئے صبر کا امتحان
محمد اشفاق

کشتواڑ؍؍جموں و کشمیر یونین ٹیریٹوری میں سیاسی تبدیلی کے ایک نئے باب کا آغاز ہونے جا رہا ہے کیوں کہ 2019 میں مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل ہونے کے بعد اس خطے میں پہلی بار اسمبلی انتخابات منعقد کروائے جا رہے ہیں۔ جن کا یہاں کے عوام اور سیاسی قائدین کو بے صبری کے ساتھ انتظار تھا اور انتظار کی یہ گھڑیا محض ایک ماہ سے بھی کم وقفے میں ختم ہونے جا رہی ہیں۔ شاید کہ انتخابات کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی تاریخ اور تعمیر ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہو جائے، جو کہ بیوروکریسی کے رحم و کرم پر جی رہے رہے عوام کیلئے گھٹن زدہ ماحول میں ایک تازہ ہوا کے جھونکا ہوگا۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر میں آخری بار 2014 میں انتخابات منعقد کروائے گئے تھے جن کا نتیجہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی کولیکشن سرکار کے طور پر سامنے آیا تھا۔ مشروط طور پر قائم کی گئی یہ حکومت تادیر قائم رہنے میں ناکام رہی۔ تاہم اس کولیشن کی ناکامی کے بعد جموں وکشمیر میں زبردست سیاسی ، سماجی اقتصادی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو گئی تھیں جو یہاں کے عوام کیلئے بالکل غیر مانوس تھیں۔ جن میں دفع 370 کا خاتمہ اور ریاست کا دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں منقسم ہونا بالکل غیر متوقع اور اہم تھیں۔
چونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس بہت کم وقت بچا ہے اس لئے سیاسی قائدین اور ان کے کارکن جی توڑ کوششوں میں مصروف ہیں اور انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے بیشتر سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی منشور جاری کر چکی ہیں۔ جو کہ ماضی کے برعکس بالکل مختلف ہیں۔
انتخابات میں بھاجپا کو مرکزی کردار ادا کرنے والی جماعت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھاجپا کی زبردست کامیابی کے اثرات جموں و کشمیر میں ابھی تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ جماعت وادی کشمیر میں اپنا کھاتہ کھولنے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہے۔ بظاہر  تو اس جماعت کے پاس جموں و کشمیر کے عوام کو لبھانے کیلئے کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ تاہم  اس جماعت کے قائدین مرکز میں لاگو کی گئی مختلف ترقیاتی اسکیموں کے بل بوتے پر ووٹ بٹورنے کی کوشش ضرور کریں گے۔
جموں و کشمیر کی دو بڑی علاقائی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں کیوں کہ ان  کے متعدد قائدین اور کارکنان نظر بندی کی بندش میں ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی حالیہ پارلیمانی انتخابات میں دو سیٹوں پر کامیابی نے مذکورہ جماعت کیلئے امید کی کرن کو روشن رکھا ہے، تاہم انہیں جموں و کشمیر میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔
نوزائیدہ جموں کشمیر اپنی پارٹی الطاف بخاری کی قیادت میں عوام کیلئے تیسری متبادل سیاسی جماعت کے طور پر سر اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس جماعت کا اہم ترین مقصد وادی اور جموں خطے کے بیچ خلا کو پر کرنا ہے، اگرچہ پارلیمانی انتخابات میں جموں اور کشمیر دونوں خطوں میں عوام نے اس جماعت کو بھر پور طریقے سے رد کر دیا تاہم اسمبلی انتخابات میں یہ پارٹی ایک نئے حوصلے کے ساتھ اڑان بھرنے کیلئے تیار ہے۔
یہ انتخابات چونکہ جموں وکشمیر کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں اس لئے سیاسی جماعتیں ترقی اور معاشی نظام کی بہتری ، روزگار، تعلیم ، ریاستی درجے کی بحالی، زمین اور نوکریوں کے تحفظ کے نام پر سیاسی اکھاڑے میں اتریں گی۔عوام کیلئے یہ انتخابات زبردست اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ ایک لمبے عرصے کے بعد عوام کو اپنی مرضی  سے حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔ جس سے تعمیر  ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ریاستی درجے کی بحالی ہوگی، اور سب سے بڑھ کر عوام کے حقوق کی پاسداری ہوگی۔
جموں و کشمیر کے باغیور اور صاحب فہم عوام چونکہ جدید سیاسی پہلوؤں سے آشنا ہو چکے ہیں اور انہیں اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ ہے اس لئے اس بار کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے عوام کو لبھانا مشکل کام ہیں، شاید روزگار کے مواقع پیدا کرنے، تعمیر ترقی اور تعلیم کے بہترین انتظامات کی یقین دہانی کروانے والی جماعت ہی سرخرو ہو سکے گی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا