” ہندوستان کی آزادی میں: علمائے دین کی قربانیاں "

0
0
       تحریر: وقار صدیقی
ہندوستان کی تحریک آزادی برصغیر کی تاریخ کا ایک ناگزیر باب ہے جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کی آزادی کے تحریکی رجحانات و میلانات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ 15 اگست 1947ء کو جب ہندوستان نے انگریزی حکومت کے ظلم و جارحیت سے آزادی حاصل کی تو اس نسبت سے یہ دن خوشی کے طور پر آج تک منایا جاتا ہے۔ تاریخی اوراق کی ورق گردانی سے یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان کی آزادی کا سفر ایک طویل اور دشوار گزار جدوجہد کا نتیجہ تھا جس کے لیے مختلف طبقہ فکر نے اپنے اپنے حصے کی جانی و مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ البتہ جب ہم تحریک آزادی ہند کے تاریخی  پسِ منظر پر نگاہ دوڑاتے ہیں، تو  اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ ہر مذہب و ملت، ذات برادری رنگ و نسل کے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے جن کا ذکر ہر سال قومی تہواروں کی  تقریبات میں  اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن تاریخی اوراق میں وہ نام بھی درج ہیں جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا گھر بار، یہاں تک کہ اپنا” آج "ہندوستانی عوام کے” کل ” کے لیے قربان کر دیا تھا ۔ایسے ناموں کا بہت کم ذکر کیا  جاتا ہے آخر کیوں ؟ ان ناموں کو قریب سے دیکھا جائے تو اکثر علمائے کرام کے  نام ہیں جن کی بے مثال خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔یہ وہی علمائے دین تھے جنہوں نے اپنی فکری، روحانی، اور عملی قیادت کےتوسط سے تحریک آزادی ہند اور اس کے متوالوں کو کامیابی کی طرف گامزن کیا تھا ۔ان داڑھی، ٹوپی والوں نے نہ صرف نظریاتی  قیادت کی بلکہ اپنی جانی و مالی قربانیاں دے کر ہندوستانی عوام کو انگریزی  حکومت کے جبر  کے خلاف مضبوط آواز  بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی قربانیاں اور سرگرمیاں ہندوستان کی آزادی میں ایک منفرد مقام کی حامل ہیں۔ اس تحریر میں حتی الامکان کوشش کی جائے گی کہ ان علمائے کرام کے کارناموں اور قربانیوں پر روشنی ڈالی جائے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جہاں اپنا قیمتی  سرمایہ لگایا وہیں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے آزادی کی  شمع کو روشن کیا ان میں علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے تحریک آزادی ہند میں نمایاں کردار ادا کیا۔ علامہ نے نہ صرف مسلمانانِ ہند کو انگریزی حکومت کے تسلط کے خلاف  جہاد کا علم بلند کرنے کی ترغیب دی بلکہ باقاعدہ طور پر جہاد کا فتویٰ صادر کر کے  اسی بنیاد پر انہوں نے دہلی میں عوام کے ایک جمغفیر سے خطاب کیا اور انگریزی حکومت کی بدعنوانیوں اور حقوق کی پاسداری کے لیے اہم حکمتِ عملییوں کے اقدامات اٹھائےاور  عوام کو انگریزی حکومت کی بربریت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر آمادہ کیا۔ ان کی بے باکی کا مظاہرہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب انگریزی حکومت نے  آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے انہیں گرفتار کر کے ان پے مقدمہ چلایا ۔ ہندوستانیوں کے خون کے پیاسوں کی عدالت میں، مولانا  موصوف نے بے خوف ہو کر اپنا فتویٰ جہاد کو  قبول کیا بلکہ انگریز حکومت کے ججوں کے سامنے اپنی بے باکی کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کردیا  کہ ہندوستان ہندستانیوں کا ہے اس پر راج ہندستانی کریں گے غیروں کا ناجائز  قبضہ ہمیں نامنظور ہے۔ علامہ نہایت ہی  مظبوطی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور جب سزا سنائی گئی تو  اس دوران بھی اپنے نظریات کا سودا نہیں کیا بلکہ اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ آخر انگریزی طاقتوں  نے بے بس ہو کر انہیں کالا پانی کی سزا دی، وہاں پر آخر کار ان کا انتقال ہو گیا۔ مختصراً علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ہندوستان کی آزادی کے تئیں قربانیوں کو نظر انداز کرنا گویا تحریک آزادی ہند کے  مجاہدوں کی  روح کو تکلیف دینے کے مترادف ہوگا۔
آزادی ہند کے ایک عظیم ہیرو شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمتہ اللہ علیہ جنہوں نے انگریزوں کے جنگل راج کے خلاف آواز بلند کر کے ہندوستانی عوام کے حقوق کی پاسداری کئ اور برصغیر ہند میں اسلامی تعلیمات اور تحریک آزادی ہند کے لیے عوام کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں  نے ہندوستان میں اسلامی نقطہء نظر کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کے تحریکی مشن کو مظبوط اور عام کرنے کے لیے” ریشمی رومال تحریک ” کی شروعات کی،جس کی اصل حقیقت انگریزی حکومت کا  طاقت کے بل پر ہندوستان پر جبری قبضہ اور انگریزی حکومت کے ظلم و زیادتیوں سے ہندوستانی عوام کی آزادی جیسے  اہم مقاصد تھے ۔ اس کے لیے انہوں نے انگریزی راج کی پالیسیوں کو کمزور کرنے کی خاطر یہ تحریک چلائی، جو انگریزی حکومت کے راستے میں ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی۔ ان کی ذہانت، قیادت اور نظم و نسق نے تحریک آزادی ہند کے متوالوں کو نئی راہ دیکھائی ان کی رہنمائی میں اس تحریک نے ہندوستانی عوام کو آزادی کا شعور دیا۔ انگریزی حکومت مولانا موصوف کے ان کارناموں کی وجہ سے سخت  پریشانی میں مبتلا ہوگئی اور انہیں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔لیکن  قوم و ملت کا درد رکھنے والے اس مرد مجاہد نے جیل کی اذیتوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنے موقف سے منہ نہیں موڑا بلکہ دشمنوں کے نرغے میں رہتے ہوئے بھی عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سرگرمیاں جاری رکھیں۔ تحریک آزادی ہند کی جدوجہد کے لیے مولانا محمود الحسن رحمتہ اللہ علیہ کی قربانیاں اور کاوشیں آزادی ہند کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی گئی ہیں۔ ان قربانیوں کی وجہ سے مسلمانانِ ہند اور دیگر قوموں کے حریت پسندوں میں  جذبہ حریت پروان چڑھا ۔ موصوف کی تحریک اور  ان کے کردارنے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کے لیے راہ ہموار کی بلکہ ملکی سطح پر قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کو بھی فروغ دیا ۔
تحریک آزادی کے متوالوں میں ایک بہادر و نڈر محب وطن ، مولانا کفایت علی کافی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں انہوں نے بھی انگریزوں کے ظلم و جبر اور ہندوستانی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کر کے اور اپنے عزم و حوصلے سے دیگر حریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ۔بریلی اور اس کے قرب و جوار میں انہوں نے نہ صرف حریت پسندوں کی رہنمائی کئ بلکہ الگ الگ محاذوں پر انگریزوں کےظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کر کے  انگریزی حکومت کی غلط حکمت عملیوں کا پردہ چاک کیا ۔ مولانا کافی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ پر انگریزوں کے ہر ظلم و ستم کو  سہتے رہے لیکن مسلمانانِ ہند کے حقوق کا سودا نہیں کیا بلکہ انگریزوں کے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو کر ایک عظیم مثال قائم کر دی۔ ان کو اپنے موقف سے ہٹانے کے لیے انگریزی حکومت نے متعدد حربے استعمال کیے لیکن مولانا  کافی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک آزادی ہند کے شہداء کے خون سے غداری نہیں کئ بلکہ گرفتاری کے دوران جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے جسم پر گرم استری بھی برداشت کی ، زخموں پر نمک کی  اذیت کو بھی سہا لیکن ہندوستانیوں کے حقوق کا دفاع آخری دم تک کرتے رہے آخر کار ان کو پھانسی دے دی گئی۔ مولانا کافی کی شہادت کا یہ دردناک سفر ہندوستان کی  غلام عوام کے ساتھ ہمدردی ،حوصلہ، عزم اور  اظہار یکجہتی کی عکاسی کرتا ہے،مولانا کافی رحمۃ اللہ علیہ  اللہ کے پیارے محبوب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے  سچے محب تھے ان کی محبت میں ڈوب کر والہانہ انداز میں انہوں نے تخت دار پر جو اشعار پڑھے تھے جن  سے ان کے ایمان اور عزم کی بہترین عکاسی ہوتی ہے:
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہؐ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیر و باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو تم
اس تنِ بےجان پرخاکی کفن رہ جائے گا
    مختصر طور پر ان کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کفایت علی کافی رحمۃ اللہ علیہ کی  بہادری اور حوصلہ مندی تحریک آزادی ہند کے متوالوں کے لیے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے لیے علمائے دین نے جہاں عوام میں آزادی کے شعور کو بیدار کیا ہے وہیں تحریک آزادی ہند کی جد و جہد کے پودے کی آبیاری اپنے خون جگر سے کئ ہے۔ تحریک آزادی ہند کے علمائے کرام میں مولانا رضا علی خان عابدی کا شمار بھی تحریک کے عظیم مجاہدین کی صف میں ہوتا ہے، مولانا عابدی رحمۃ اللہ علیہ  امام احمد رضا خان کے دادا تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جانی و مالی قربانیاں پیش کر کے مثالی کردار ادا کیا تھا اس جنگ و جدل کے دور میں ان کا مکان اور مسجد حریت پسندوں  کے لیے مرکزی عمل بنا ہوا تھا۔ مولانا موصوف  نے مختلف محاذوں  پر انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کی بلکہ ان کے عملی کردار سے بھی تحریک آزادی کو ایک نئی طاقت اور حوصلہ ملا، انگریزی حکومت نے ان کی گرفتاری اور  سر قلم کرنے کا انعام مقرر کیا، جو مولانا عابدی رحمۃ اللہ علیہ کی جدوجہد آزادی کے  جذبے اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
تحریک آزادی ہند میں اہم نام مفتی عنایت احمد کا کوروی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے ان  کا  تحریک آزادی ہند میں مثالی کردار رہا ہے۔ علی گڑھ میں قیام  کے دوران درس و تدریس کے  ساتھ ساتھ مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے اور  کچھ ہی عرصے میں صدر امین کی حیثیت سے بریلی تبادلہ ہو گیا اس کے بعد انہوں نے نواب بہادر خان کی رہنمائی میں تحریک آزادی ہند کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ انگریزی حکومت کو ان  کا بےباک لہجہ چبھنے لگا  جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے کالاپانی کی سزا دی گئی۔ مفتی عنایت احمد اس قدر ذہین تھے کہ کالاپانی کی سزا کے دوران  حافظ قرآن ہو گئے اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب بھی تصنیف کی۔ رہائی کے بعد حج بیت اللہ کے لیے سمندری راستے سے روانہ ہوئے، حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گے۔
 تحریک آزادی ہند کے سرگرم عالم دین حضرت مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کا  شمار بھی آزادی ہند کے نڈر و بے باک مجاہدین کی صف میں ہوتا ہے۔ انہوں انگریزی حکومت کے ظلم و جبر کی طغیا نیوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انگریزی حکومت کی بربریت کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور جامع مسجد دہلی میں فلسفہ جہاد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے تقریر کی، اور اس فتویٰ پر دستخط  بھی کیے جو تحریک آزادی ہند کی بنیاد بنا۔مختصراً مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کا نام تحریک آزادی ہند کی جد وجہد میں ایک عظیم ہیرو کے طور پر درج کیا گیا ہے ۔
  تاریخی اوراق سے یہ ثابت ہے کہ علمائے دین نے انگریزی جارحیت اور ظلم کی  کالی رات کو روشن کرنے کے لیے آزادی کے چراغ کو خون جگر سے روش کیا تھا ۔مذکورہ سطور میں جن علمائے کرام کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی علمائے دین کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے کچھ کے نام اس طرح سے ہیں شاہ اسماعیل شہید ، شہید ٹیپو سلطان، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، سید احمد شہید ،شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا حسرت موہانی ، مولانا حسین احمد مدنی ، حافظ ضامن شہید ، مولانا عبید اللہ سندھی کے نام قابل ذکر ہیں جن  کی مخلصانہ خدمات اور قربانیاں تحریک آزادی ہند کی تاریخ میں ایک نایاب اور قیمتی باب ہیں۔ افسوس آج ہم ان عظیم حریت پسندوں کی جد وجہد کو بھول گئے ہیں، آخر ان کا کیا قصور تھا ؟ یہ قصور تھا !!! کہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کے لیے اپنا "آج” ہمارے "کل” کے لیے قربان کیا، یہاں تک کہ ہمارے مستقبل کی تابناکی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی دیا ، اور آج ہم سب  کے یہ حالات بن چکے ہیں کہ ہم صرف پندرہ اگست یوم آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن بزرگوں کے مشن اور ان کی قربانیوں کو بھول جاتے ہیں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا۔!!!! آج ہندوستان کے وہ شہید زندہ ہوتے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی خاطر اور ہندوستانی عوام کے مستقبل کے لیے جانی و مالی قربانیاں دیں تھیں وہ آج کے ملکی حالات کے منظر نامے کو دیکھ کر کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ  کہتے کہ ہماری جدو جہد ، ہماری قربانیوں کا کیا یہی صلہ ہے، ہم نے تو گنگا جمنی تہذیب کو محفوظ رکھا تھا ، کہاں گئی ہمدردی اور آپسی محبت  و بھائی چارہ ، کہاں گیا خدمت خلق کا جذبہ ، کہاں گئی مذہبی رواداری، کہاں گیا ماں بیٹیوں کا پردہ جو ہمارے شہداء ہمیں دے کر گئے تھے ۔
 افسوس آج کی تاریخ میں ہم نے صرف یوم آزادی کا جشن یاد رکھا ہے لیکن تحریک آزادی ہند کے شہداء کا مشن یاد نہیں رکھا جس کی وجہ سے آج مذکورہ کامیابی کے پہلوں کی جگہ، فرقہ وارانہ کشیدگی، مذہبی تعصب، رشوت خوری ، ظلم و بربریت ، قتل و غارتگری  کا بازار گرم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہم نے تحریک آزادی ہند کے شہداء کی قربانیوں کا اصل مقصد نہیں سمجھا کہ انہوں نے آخر کیوں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے  شہداء کی سیرت و کردار کا مطالعہ کر کے ان کے مشن، عظمت اور جد و جہد سے نئی نسلوں کو جہاں آگاہ کرنا ہے، تو وہیں خود بھی ان کے کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے تب ہماری کامیابی اصل کامیابی ہوگی اور ہم اپنے ملک اور معاشرے کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جا سکیں گے ۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا