کشمیر میں مقامی مزدوروں کے وارے نیارے ہوگئے
یواین آئی
سرینگر؍؍جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے 2 اگست کو جاری ایڈوائزری کے پیش نظر غیر ریاستی مزدوروں کی طرف سے وادی چھوڑنے سے مقامی مزدوروں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں اور کئی لوگوں کو ہزاروں روپے بچ گئے کیونکہ انہوں نے مزدور نہ ملنے کی وجہ سے خود فصل کٹائی وغیرہ جیسے کام انجام دیے۔بتادیں کہ ریاستی انتظامیہ نے 2 اگست کو ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں سیاحوں اور یاتریوں فی الفور وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئیں جس کے پیش نظر لاکھوں کی تعداد میں غیر ریاستی مزدور بھی بوجہ خوف وڈر یہاں سے بھاگ گئے، تاہم انتظامیہ نے حال ہی میں مذکورہ ایڈوائزری کو واپس لیا اور سیاحوں کو وادی آنے کی اپیل کی۔مقامی مزدورں کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ غیر ریاستی مزدوروں کے چلے جانے سے ہمارا کام کافی بڑھ گیا۔انہوں نے کہا: ‘غیر ریاستی مزدورں کے چلے جانے سے ہمارا کام کافی بڑھ گیا ہے اب ہمیں فرصت ہی نہیں ہے پہلے ہمیں کام ڈھونڈنا پڑتا تھا اب کام ہمیں ڈھونڈ رہا ہے’۔غلام محمد نامی ایک مزدور نے کہا کہ مجھے ہفتے میں زیادہ سے زیادہ تین دن کام مل جاتا تھا لیکن اب ہفتہ بھر کام ملتا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘جب یہاں غیرریاستی مزدوروں کی بہتات تھی تو مجھے ہفتے میں زیادہ سے زیادہ تین دن کام ملتا تھا لیکن آج کل ہفتہ بھر کام ملتا ہے اور گھر میں بیٹھنے کو فرصت ہی نہیں ہے’۔محمد شعبان نامی ایک مزدور نے کہا کہ میں صبح سویرے حیدر پورہ چوک میں بیٹھ کر مزدوری پر لینے والے کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا لیکن اب وہاں مزدوری پر لینے والے ہمارے پہنچنے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘پہلے میں حیدر پورہ چوک میں صبح سویرے پہنچ جاتا تھا اور مزدوری پر لینے والے کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا پھر کبھی کوئی لے جاتا تھا تو کبھی کافی انتظار کے بعد گھر واپس ہی لوٹنا پڑتا تھا لیکن آج کل جب میں وہاں پہنچتا ہوں تو وہاں مزدوری پر لینے والے لوگ پہلے ہی انتظار میں ہوتے ہیں اور گزشتہ دو ماہ سے میں کبھی بھی بغیر مزدوری کے گھر واپس نہیں لوٹا’۔ادھر غیر ریاستی مزدورں کی طرف سے وادی چھوڑنے سے لوگوں کو ہزاروں روپے بچ گئے۔اعجاز احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ فصل کٹائی کے لئے مجھے ہزاروں روپے غیرریاستی مزدوروں کو دینے پڑتے تھے لیکن امسال جب وہ نہیں ملے تو ہم نے خود ہی فصل کٹائی کا کام انجام دیا جس سے مجھے ہزاروں روپے بچ گئے۔امتیاز احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ غیر ریاستی مزدورں کے چلے جانے سے لاکھوں روپے وادی میں مقامی مزدوروں نے لئے جس سے کم سے کم یہ فائدہ ہوا کہ ایک کثیر رقم وادی سے باہر جانے سے رک گئی جو اب یہاں ہی لوگوں کے کام آئے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر ایک طرف یہاں غیر ریاستی مزدوروں کے چلے جانے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف یہ فائدہ ہوا کہ کام مقامی مزدوروں نے ہی کیا اور ایسے لوگوں نے بھی کام کرنا شروع کیا جو آرام طلب بن گئے تھے۔قابل ذکر ہے کہ وادی میں غیرریاستی مزدور، جن کی تعداد کم از کم پانچ لاکھ تھی، ہی طرح طرح کے کام انجام دیتے تھے۔